کیف و مستی میں سرشار ہیں آج بھی، یہ ورز یہ قلم یہ زباں یا نبیؐ- زر معتبر (1995)

کیف و مستی میں سرشار ہیں آج بھی یہ ورق یہ قلم زباں یا نبیؐ
لکھ رہا ہے کہانی شبِ ہجر کی میری آنکھوں کا آبِ رواں یا نبیؐ

آپؐ کے ذکرِ اطہر کی خوشبو لئے، لب پہ جذبات کرنیں سجانے لگے
رفتہ رفتہ چراغوں میں جلتا رہا آنسوؤں ہچکیوں کا دُھواں یا نبیؐ

سر برہنہ تھا میں آپؐ ہی نے مجھے تاج اپنی ثنا کا کیا ہے عطا
آپؐ کی رحمتوں ہی کا روزِ جزا میرے سر پر رہے سائباں یا نبیؐ

آپؐ کا نام چُومیں تو کلیاں کھلیں، چاند کو روشنی کے خزینے ملیں
جُھوم اُٹھے درودوں کے نغمات سے شاخِ احساس پر آشیاں یانبیؐ

میرے دامانِ صد چاک میں بھی صبا پھول اذنِ حضور کے بھر دے تو کیا
ایک مدت سے دیدار کی حسرتیں میرے دل میں بھی ہیں پرفشاں یا نبیؐ

آج کی شب بھی گجرے بناتا رہوں گھر کے دیوار و در کو سجاتا رہوں
آج کی شب بھی پچھلے پہر بامِ جاں پر اُتر آئے گی کہکشاں یا نبیؐ

آپؐ لطف و کرم یونہی فرمائیے رحمتوں کو اشارہ سا کر جائیے
کس کی چوکھٹ کو تھامیں کدھر جائیں ہم اور بھی ہے کوئی آستاں یا نبیؐ

اُمّتِ ناتواں کو بھی خیبر شکن ساعتوں کی عطا کیجئے کنجیاں
اِن دنوں ہیں مقفّل نئے ولولوں، آرزوؤں کے دونوں جہاں یانبیؐ

ہے ریاضؔ اپنے گنبد کی ٹوٹی صدا ہے کفن مقتلوں کی سسکتی ہوا
یامحمدؐ کرم، یامحمدؐ کرم، ٹوٹ جائے نہ سلکِ فغاں یانبیؐ