جسے آندھیوں کا نہ خوف ہو، نہ کہیں بھی تیرےؐ سوا ملے- زر معتبر (1995)

جسے آندھیوں کا نہ خوف ہو، نہ کہیں بھی تیرےؐ سوا ملے
کِسی بُرج میں نہ فصیل کے کسی طاق میں وہ دیا ملے

مِری شاخ پر ہیں تمازتوں کے عجیب پھول کِھلے ہوئے
میں ہوں تشنہ لب، مِرے پیشوا، مِری کشتِ جاں کو گھٹا ملے

ہے سپاہِ شام کا فیصلہ، ملے چاندنی کو نہ راستہ
تِرےؐ نام پر سحر آشنا، مجھے روشنی کی ردا ملے

میں چلاں ہوں جانبِ گلستاں مِرے ساتھ ساتھ ہے کہکشاں
کروں ہمسفر اسے شوق سے سرِ رہگذر جو صبا ملے

میں ریاضِؔ بربطِ بے نوا جسے لوگ کہتے ہیں خوش نوا
میں تجھے پکاروں تو یانبیؐ مجھے ہر نفس میں خدا ملے