آسماں زر فشاں تو مدینے میں ہے- زر معتبر (1995)

آسماں زرفشاں تو مدینے میں ہَے
دولتِ کُل جہاں تو مدینے میں ہَے

وہ خُدا ہے وہ عرشِ معلٰے پہ ہَے
بندگی حکمراں تو مدینے میں ہَے

کوئی ہمدرد و دَمساز ملتا نہیں
حامیٔ بیکساں تو مدینے میں ہے

اے صبا، کِس خرابے میں تو کھو گئی
سرمدی گُلستاں تو مدینے میں ہَے

ہر طرف تیرگی، حشر کی تیرگی
نُورِ کون ومکاں تو مدینے میں ہے

ریگ زارِ عجم میں رہوں کس طرح
آپؐ کا آستاں تو مدینے میں ہے

طاقِ دل میں فروزاں ہیں آنسو مِرے
چشمِ تر کا دھواں تو مدینے میں ہَے

نقدِ جاں لے کے آؤ غلاموں چلیں
رحمتوں کی دکاں تو مدینے میں ہے

اِس کڑی دُھوپ میں ڈھونڈتے ہو جسے
وہ خنک سائباں تو مدینے میں ہے

جس کی خاطر ہُوئے خلق ارض وسما
وہ شِہ مرسلاں تو مدینے میں ہے

ہجر کی سَاعتو اب تو ہجرت کرو
دلبرِ دلبراں تو مدینے میں ہَے

اپنا کشکول لے کر میں جاؤں کہاں
وہ سخی مہرباں تو مدینے میں ہے

طائرِ پر شکستہ ذرا دم بھی لے
امن کا آشیاں تو مدینے میں ہَے

تشنہ لب میں ریاضِؔ حزیں ہوں اِدھر
ساقیٔ ہر زماں تو مدینے میں ہَے