میں ہوں کیا، میری اوقات کیا، حرفِ نامعتبر- غزل کاسہ بکف (2013)

مَیں ہوں کیا، میری اوقات کیا، حرفِ نامعتبر
تیرا فضل و کرم، شاملِ حال ہے، قصۂ مختصر

یا خدا! تیرے در پر کھڑا ہوں، کروں کیا طلب
میری محرومیوں، میری مجبوریوں کی تجھے ہے خبر

تیرا در چھوڑنا، میرے بس میں نہیں، اے خدائے ازل
تیرا سائل ہوں، منگتا ہوں تیرا، مَیں جائوں کدھر

میرا کاسہ بھی، دامن بھی، خالی ہوا، یا خدا!
یا خدا! اپنی رحمت کے دینا ہزاروں مجھے بحر و بر

تیرے لطف و کرم کا میں محتاج تھا اور محتاج ہوں
میرے آنگن کے پیڑوں کو دے یا خدا آج برگ و ثمر

میری بنجر زمینیں پکاریں تجھے ہر گھڑی، یا خدا!
ابرِ رحمت کو دے ان زمینوں کی جانب بھی اذنِ سفر

میرا دامن تو پہلے سے ہی تنگ ہے، میرے اچھے خدا
ایک تیرا ہی در ہے کھُلا، ہر گھڑی، اے خدائے سحر

تیری رحمت برستی رہے، یا خدا! یا خدا، ہر گھڑی
منتظر ہوں کھڑا، تیرے در پر بچھا کر، میں دامانِ تر

مشکلیں آج آسان کر دے مری، مہرباں اے خدا
بعدِ محشر بھی مجھ پر کھُلا ہی رہے، تیری رحمت کا در

مَیں ریاضؔ آج ہوں، تیرے گھر کے مصلّے پہ نوحہ کناں
میرے بچّوں کا اپنا کوئی گھر نہیں، دے انہیں ایک گھر
(مکہ معظمہ)