خوشبو چراغ لے کے کھڑی ہَے قدم قدم- دبستان نو (2016)

اے شہرِ آرزو تجھے خلدِ زمیں کہوں،
جھک کر کروں میں تیرے در و بام کو سلام
پلکوں سے چوم لوں مَیں تری رہگذار کو
تیرے غبارِ رہ میں ہیں سورج چھپے ہوئے
تیری ہوائے پاک کے ہاتھوں کو چوم لوں
تیرے فلک کے چاند ستاروں کی خیر ہو
تیری خنک ہوائیں ہیں ضامن حیات کی
بہتی ہیں تجھ پہ دودھ کی نہریں کئی ہزار
تیرے درخت سروِ چراغاں سے بھی حسیں
تیری فضا میں اڑتے پرندے بھی محترم
ہر ہر گلی میں نقشِ قدم ہیں حضورؐ کے
تجھ کو ملی ہیں گنبدِ خضرا کی تابشیں
شام و سحر فلک سے ملائک کا ہے نزول
تُو امنِ دائمی کا حوالہ ہَے معتبر
تو عشق کی کتاب کا ہے بابِ آخری
اے شہرِ آرزو تجھے خلدِ زمیں کہوں
تو عَدل کے نصاب کا ہے بابِ اوّلیں
ہر وقت تجھ پہ رحمتِ پروردگار ہے
فضلِ خدا کی بارشیں ہوتی ہیں ہر گھڑی
ہر ہر قدم پہ روشنی رہتی ہے خیمہ زن
شاداب ساعتوں کا تری خاک پر ہجوم
ہر سمت سات رنگ دھنک کے ہیں پر فشاں
تجھ میں مرے حضورؐ کے اصحابؓ ہیں مقیم
راضی ہوا ہے جن سے خدائے رحیم بھی
آقاؐ کے جاں نثاروں کو میرا سلام ہو
رقصاں ہَے آسماں کی گھٹاؤں کا قافلہ
خوشبو چراغ لے کے کھڑی ہے قدم قدم
میرے تمام اشک ہیں در پر پڑے ہوئے
آنکھیں جوارِ گنبدِ خضرا کے ہیں قریں
چوکھٹ پہ اَن گِنت ہیں غلاموں کی دھڑکنیں
آقاؐ سنیں گے بادِ صبا سے مرا کلام
اے شہر انتخاب مرا بھی سلام ہو
سردارِ کائناتؐ کے قدموں کو چوم کر
تیری زمیں ہے خلدِ بریں سے عظیم تر

سانسیں مہک رہی ہیں حرم کی حدود میں
آنکھیں چھلک رہی ہیں وفورِ درود میں