کیا گزرے گی کیا بیتے گی جل جانے کا عالم کیا ہو گا- زر معتبر (1995)

کیا گزرے گی، کیا بیتے گی، جل جانے کا عالم کیا ہو گا
انوارِ حرم کی رِم جھم میں پروانے کا عَالم کیا ہو گا

زنجیر سرہانے رکھ کر میں اس سوج میں ڈوبا رہتا ہوں
جب شہرِ مدینہ آئے گا دیوانے کا عالم کیا ہو گا

کِس طرح گدائے طیبہ کو عشاق سلامی دیتے ہیں
اُس شہر خنک کی گلیوں میں مستانے کا عالم کیا ہو گا

سینے میں مقید رکھوں گا کِس طرح دلِ بیتاب کو میں
پلکوں پہ مچلتے اشکوں کو ٹھہرانے کا عالم کیا ہو گا

جب گنبدِ خضرا کی ٹھنڈک تن من میں سما سی جائے گی
تب صلِّ علیٰ کے نغمے کو دھرانے کا عالم کیا ہو گا

جب اپنے سلگتے ہونٹوں کو رکھ دوں گا مَیں اُن کی چوکھٹ پر
اُس وقت خدا جانے میرے پیمانے کا عالم کیا ہو گا

جب روضۂ اطہر کی جالی مَیں سامنے اپنے پاؤں گا
دیدار کی خواہش کے دل میں لہرانے کا عالم کیا ہو گا

یہ چاند ستارے قدموں میں جھُک جائیں گے فرطِ حیرت سے
اُنؐ کا رخِ روشن سے پردہ سرکانے کا عالم کیا ہو گا

اِک عُمر گذاری ہے مَیں نے بیکار زمانے والوں میں
دربارِ نبیؐ میں بِن مانگے کچھ پانے کا عالم کیا ہو گا

وہ اپنی شفاعت کی چادر ڈالیں گے ریاضِؔ مضطر پر
سرکارؐ کے قدموں میں گِر کر مر جانے کا عالم کیا ہو گا