سلام آپ ؐ پہ دائم ہو ربِّ اکبر کا - تحدیث نعمت (2015)

سلام آپؐ پہ دائم ہو ربِّ اکبر کا
بشر بشر کا، فرشتوں کا، ماہ و اختر کا

مزید پھول مری شاخ پر کِھلیں، آقاؐ
مزید نام ہو روشن شبِ منوّر کا

کُھلی ہَے آنکھ مدینے کی چاند راتوں میں
سرے سے رنگ ہی بدلا ہوا ہَے منظر کا

سجا رہا ہَے نئے آفتاب مدحت کے
بلندیوں پہ ستارا مرے مقدّر کا

جوارِ گنبدِ خضرا کا بھیگتا موسم
خیامِ امن ہَے میری دعا کے لشکر کا

ہر ایک لمحہ اُنہیؐ پر درود پڑھتا ہے
اُنہیؐ کی شان کا مظہر ہَے روز محشر کا

وہی حبیبؐ، خدائے بزرگ و برتر کے
وہی چراغِ تمنّا ہیں ہر سخنور کا

ہوائے شہرِ خنک کے لئے بچھیں آنکھیں
ضرور بدلے گا موسم مرے بھی اندر کا

ہزارہا ہوں جواھر طلب کے کاسے میں
عجیب شوق ہَے سرکارؐ کے گداگر کا

حضورؐ، روشنی ساحل کے ہر سفینے کو
مزاج کب سے ہَے برہم کُھلے سمندر کا

حضورؐ نعت نگاری کا دیں صلہ مجھ کو
کفن نصیب ہو طیبہ کی خاکِ انور کا

اڑان نیچی بھی بھرنے کے جو نہیں قابل
حساب مانگنے نکلے ہیں میرے پَر پَر کا

قلم کے ہاتھ پہ روزِ اِزل سے لکھّا ہَے
دیا جہاں بھی ہَے روشن وہ ہَے پیمبرؐ کا

ہمارے سبز کٹورے بھریں گے شبنم سے
کُھلا ہَے آج بھی در رحمتوں کے پیکر کا

زبانِ حال سے نعتِ نبیؐ جو پڑھتا ہے
جواب، پھول ہو کیا؟ اُس عظیم پتھر کا

بدن بدن پہ غلامی کا پیرہن ہَے ریاضؔ
گذر ہوا درِ عالی سے کس سکندر کا