درِ حضورؐ سجاطشت روشنی کا ہَے- تحدیث نعمت (2015)

درِ حضورؐ سجا طشت روشنی کا ہَے
چراغ بانٹنا منصب مِرے نبیؐ کا ہے

فضا میں امن کی ہر فاختہ رہے اڑتی
سوال، خون میں ڈوبی ہوئی صدی کا ہَے

سخن کی شاخِ ثنا پر گلاب کِھلتے ہیں
بیاضِ نعت کا اُسلوب دلکشی کا ہے

خزاں کا کب ہَے مدینے میں داخلہ ممکن
ہر ایک پھول یہاں حُسنِ دائمی کا ہے

نقوشِ پائے محمدؐ کو چوم کر آئیں
یہی جواز ہواؤں سے دوستی کا ہَے

کتابِ عشق کے اوراق سب منّور ہیں
ضمیرِ شہرِ قلم، نورِ سرمدی کا ہَے

خدا کے بعد خدا کے نبیؐ کی چوکھٹ ہو
طریق روزِ ازل سے قلندری کا ہے

ادب سے چاند ستارے یہاں اترتے ہیں
حضورؐ مرتبہ یہ آپؐ کی گلی کا ہے

نبیؐ کا نام معطر دلوں کو کرتا ہَے
نبیؐ کا نام وظیفہ کلی کلی کا ہَے

مرے حروف میں شامل ہَے میرا ہر آنسو
جو لفظ میری لُغت کا ہَے عاجزی کا ہے

جو آفتاب مرے ہاتھ پر ہوا روشن
وہ آفتاب محبت کی شاعری کا ہَے

مرے نصیب کا کیا پوچھتے ہو ہمسفرو!
مرے نصیب میں موسم ثنا گری کا ہَے

عرب کی ریگِ مقدّس کا احترام کرو
ہوا کے سر پہ عمامہ بھی برتری کا ہے

جوارِ لوح و قلم میں جو قافلہ اترا،
دھنک، گلاب، شفق اور چاندنی کا ہے

مِرے حضورؐ نے رستہ ہَے جس کا دکھلایا
وہی خدا مِرے اندر کے آدمی کا ہَے

تمام رنگ الجھتے رہیں گے مَحشر تک
ازل سے سبز صحیفہ ہی آگہی کا ہَے

ثنائے مرسلِ آخرؐ کے پھول لایا ہوں
مرا تمام اثاثہ یہ زندگی کا ہَے

زباں پہ قُفل پڑے ہیں ہزار صدیوں سے
لباس جسم پہ سرکارؐ بے بسی کا ہَے

پٹخ رہا ہَے غلاموں کی جُھگّیوں کو، حضورؐ
حصارِ زر میں بگوُلا جو سر کشی کا ہے

دیے حضورؐ، سرِ شام بھی نہیں جلتے
غبارِ خوف گھروں میں جو مفلسی کا ہَے

فقیہہِ شہر کو چیخیں سنائی کیا دیں گی
حضورؐ، دور مسلسل یہ بے حسی کا ہَے

حضورؐ، آبِ کرم سے بھرے رہیں دریا
معاملہ یہ غریبوں کی تشنگی کا ہَے

حضورؐ، آپؐ کا محتاج ہر زمانہ ہَے
سلوک، آپؐ کا، سائل سے دلبری کا ہَے

حضورؐ، خوفزدہ اس لئے مَیں رہتا ہوں
جہانِ نو کا ارادہ بھی خود کُشی کا ہَے

کھڑا ہوں آج بھی تاریخ کی عدالت میں
کیا دھرا مرے اپنوں کی مخبری کا ہے

خدا کے حکم کی تعمیل ہر گھڑی ہو، ریاضؔ
یہی تو مقصدِ واحد پیمبری کا ہَے

خدا کا شکر ہے واجب ہماری نسلوں پر
ریاضؔ، نعت مقدّر کسی کسی کا ہَے