ریاض کی ملی شاعری

ریاض حسین چودھری کی ملی شاعری

مرزا محمد ارشد طہرانی

ایسے پڑھے لکھے لوگوں کی ایک جماعت ہر وقت مشاعرے میں موجود ہوتی ہے جو تعین کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے کہ شاعر کا شعر یا ادیب کا اَدب، دنیائے ادب میں کس مقام پر فائز ہے یا فن کی دنیا میں اس کا رتبہ اور سٹیٹس کیا ہے۔ اَدب کی دنیا میں قدر و قیمت جاننے سے ہی نقاد کے نقطۂ نظر کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ سچ جانئے کہ جو وجدانی کیفیت ریاض حسین چودھری کی قومی اور ملی شاعری سے میسر آتی ہے اُس کی لذّت ہی کچھ اور ہے۔ بالخصوص نعت گوئی کے منصب جلیلہ پر فائز ہو کرریاض جب سے نعت کے زرِ معتبر میں جلوہ فگن ہوئے ہیں اللہ رب العزت نے انہیں شعر کے ذریعے حرف و صوت اورلفظ و معانی میں حضور نبی کریم a کی مدحت نگاری کا ذوق وجدانی عطا کیا ہے۔ آج جب وہ نعتیہ کلام کے ایک عظیم ، جدید اور معیاری ذخیرے کے خالق ہیں ان کا نعتیہ مجموعہ ایسا نہیں جس میں نعت لکھتے ہوئے وہ درِ رسول پر امت کے غم میں اشکبار نہ ہوں اور مملکت خداداد پاکستان کی فلاح و بقا کے لئے مناجات نہ کر رہے ہوں۔ان کی روح میں موجزن اضطراب وطن کی محبت کا وہ لاوہ ہے جو ارضِ پاک میں ہوا کے ایسے جھونکے کو بھی داخل ہونے سے روک سکتا ہے جو پاک دشمنی کا غبار لئے اڑ رہا ہو۔اس پر وہ لاکھوں بار مبارکباد کے مستحق ہیں۔

اسی دائرے میں محدود رہ کر جب سیالکوٹ کی سابقہ تقریباً 40/50 سالہ ادبی تاریخ پہ نظر ڈالیں تو ریاض حسین چودھری کے تذکرے کے بغیر سیالکوٹ کا ادبی منظر نامہ تکمیل پاتا نظر نہیں آتا۔ یہ تب کی بات ہے جب سیالکوٹ کے نامور اور صاحب دیوان، کہنہ مشق شاعروں، ادیبوں، دانشوروں اور اساتذۂ شعر و ادب کے بغیر کوئی ادبی مجلس ، کوئی شعری نشست نہیں سجتی تھی۔ ایسے میں ریاض حسین چودھری کا کم و بیش 24سال کی عمر میں دنیائے شعر ادب میں اترنا ایک زوردار ادبی دھماکے سے کم نہ تھا۔ آپ نے سیالکوٹ میں حلقہء اربابِ ذوق کی بنیاد رکھی۔ اس کے بانی ممبر کی حیثیت سے اس کی خوب آبیاری کی۔ آپ کی فعال اور متحرک شخصیت سے سیالکوٹ میں ایک نیا ادبستانِ ادب کھل گیا اور یوں سیالکوٹ میں شعر و ادب پر تبصرے اور تنقیدی محفلوں کی بنیاد پڑی۔

باہر کا ریاض

ریاض یاروں کا یار۔ جسے کسی کی ناراضگی ذرا بھی برداشت نہیں، جسے گوشہء تنہائی میں بھی اپنے وقار، عزت و شرف کو گرنے نہ دینے کے احساس نے ہمیشہ اپنے ہم عصروں، اپنے سے چھوٹے اور بڑوں کی نگاہوں میں بھی باوقار رکھا ہے۔ جب وہ بِلا امتیاز رنگ و نسل، قد و کاٹھ، چھوٹا بڑا کسی دوسرے کو ’’اوئے‘‘ کر کے مخاطب کرنا پسند نہیں کرتے تو اُسے اپنے لیے بھی یہ لفظ گوارا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی جناب ریاض کی سجائی ہوئی محفلوں میں آنا اپنے لیے باعث عزت و شرف سمجھتا تھا۔ ریاض حسین چودھری جنہیں اگر کوئی غلطی سے بھی ’’چودھری‘‘ کے ہجوں میں تھوڑا بہت تغیر سے بھی ’’چوہدری‘‘ لکھتا تو واپسی ڈاک اپنے نام کے درست ہجوں کو اختیار کرنے کا نصیحت نامہ اُس کے ہاتھ تھما دیتے۔ اپنی ذات تو ذات اپنے نام کے سابقہ و لاحقہ کی صوری شکل بھی بگڑ جائے تو انہیں گوارا نہیں۔
فوراً قلم اٹھا کر اپنے نام لکھے ہوئے خط یا تحریر میں حرفی اور لفظی اغلاط نامے کو درست کر دیتے ہیں۔ یہ ہیں ریاض حسین چودھری جن کے نام کے ساتھ ’’چوہدری‘‘ لکھتے ہوئے میں نے بھی کئی بار کاٹ کر اُسے ’’چودھری‘‘ لکھا ہے۔ یہ ہیں وہ چودھری جن کی ادبی زندگی کا پورا عرصہ بڑا ہنگامہ خیز مگر اُن کی ذات کی طرح ہر دم تر و تازہ رہا۔ پے در پے بیماری کے حملوں میں فالج اور شوگر، ہائی بلڈ پریشر سر فہرست ہے جو جناب ریاض حسین چودھری کے مستقل مہمان ہیں۔ جس طرح گھر آئے مہمان کی خدمت و تواضع سے ان کا جی نہیں بھرتا اسی طرح اپنی مہمان بیماریوں کی مسلسل دوائیوں سے ان کی دن رات تواضع کرتے رہنا جناب ریاض حسین چودھری کے معمولات میں شامل ہے۔ہاں البتہ تفنن طبع کے طور پر بقول شیخ عبد العزیز دباغ جب کبھی کسی محفل یا پارٹی میں کسی میٹھی چیز کے لئے راغب ہوتے تو کہہ دیتے ’’میری شوگر بڑی بھلی مانس ہے۔‘‘ ان بیماریوں نے انہیں بیرون خانہ تقریبات میں آنے جانے سے روکے رکھا۔ لیکن اُن کا ذہن اور قلم ان کی ہنگامہ خیز ادبی زندگی سے بھی زیادہ سُبک رفتا ہو گیا ۔ انہوں نے فالج میں جسمانی طور پر غیر متحرک کر دینے والی بیماری کو بھی اپنے علمی ذوق اور فکری ارتقاء کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا۔ فالج کے دوران بھی ان کے چھ عدد نعتیہ مجموعہ ہائے کلام نے دنیائے علم و ادب میں ڈھیروں داد و تحسین سمیٹ لی۔ پے در پے صدارتی ایوارڈز ان پر مستزاد ہیں۔ اُن کی سیکریٹری شپ کے دوران تقریباً 25 سال تک حلقہ ء اربابِ ذوق سیالکوٹ کی واحد متحرک ادبی تنظیم تھی جس کے ہفتہ وار اور پندرہ روزہ اجلاس باقاعدگی سے منعقد ہوتے رہے۔ اس دوران کسی بھی روزنامہ کا ادبی ایڈیشن حلقہ اور ریاض کے تذکرے کے بغیر نظروں سے نہیں گزرا۔ دیگر ادبی تنظیمات کے منتظمین بھی جناب ریاض کی غزل، نظم یا نعت کے بغیر اپنی محفل کو نامکمل سمجھتے تھے۔
یہ ہیں ریاض حسین چودھری، کاغذوں کا پلندہ، فائل، کاروائی رجسٹر، ممبران کا حاضری رجسٹر بغل میں دبائے، کھلے پانچے کی کمر پر کس کے بندھی پتلون، رنگ دار چیک کی شرٹ زیب تن کیے خراماں خراماں سڑک کی انتہائی بائیں جانب دیوار کے ساتھ ساتھ جو چلے آ رہے ہیں۔ دھیمے مزاج کے حامل، چال بھی دھیمی، دایاں کندھا ذرا تھوڑا سا اور دائیں جانب جھکا ہوا ۔یہ ہے ریاض صاحب کا مخصوص سٹائل۔
عینک جو ریاض کی شخصیت کا جزو لا ینفک رہی ، اگر شیشے صاف کرنے کے لیے بھی تھوڑی دیر کے لیے اتاری تو ریاض صاحب محفل سے غائب۔ یاروں کو بھی پہچاننے میں خاصی دیر لگے کہ ابھی ریاض صاحب ادھر تھے ابھی کہاں چلے گئے۔ جونہی ’’معنک‘‘ ہوئے تو ریاض اُدھر … ہمیں نہیں یاد پڑتا کہ انہیں کاغذ یا پنسل، قلم کسی سے مستعار لینے کی بھی نوبت آئی ہو۔ یا کہیں عینک یا قلم بھول گئے ہوں۔ عمر کے اس حصے میں بھی جو 75 واں سال، گویا آخری حصہ تھا، حافظہ بلا کا، سوچ ا ور فکر کی تازگی، چست جملوں کی آمد۔ مزید برآں یہ کہ نہایت خوب صورت قلم ہر وقت زیب جیب رہتا ۔ حلقہء اربابِ ذوق کے سدا بہار سیکرٹری جناب ریاض حسین چودھری کے ہوتے ہوئے ہم اس منصب کا حصول سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ کہ یہ آ رہے ہیں ، وہ جا رہے ہیں۔ حلقہ کی ہفتہ وار پندرہ روزہ تنقیدی نشست میں وارد ہونے والوں میں ہمیشہ نمبر ون، ایک عرصہ تک پاکستان نیشنل سنٹر کے دانش کدہ میں بھی چوہدری فضل دین اینڈ سنز ریلوے روڈ کے عقبی اور ٹھنڈے ٹھار کمرے میں۔ جب وہاں سے جی اُکتایا تو کیفے ڈی شیخ اور پھر امیلیا ہوٹل چل دئیے تو حلقہ بھی اُن کے پیچھے پیچھے ہو لیا (علامہ اقبال چوک المعروف ڈرَمّاں والا چوک کہ وہاں ایک دائرے میں ڈرم رکھے ہوئے ہوتے تھے جس کا پس منظر یقیناً دل چسپ ہو گا۔)۔ ان سب محفلوں کا انتظام جناب ریاض کا دردِ سر ہوا کرتا تھا۔ دردِ سر ان معنوں میں کہ وہ کبھی اپنے نائبین، جوائنٹ سیکرٹری، ممبران ایگزیکٹیوز کو اپنی کسی کوتاہی یا تاخیری صورت کا بہانہ سمجھ کر حلقہ کی میٹنگ بلانے کا موقع ہی فراہم نہیں کرتے تھے۔

ندر کا ریاض


احباب سے میل جول، فروغِ شعر کے جتن،ادبی ولولے کے اظہار کی کاوشیں اور ذوقِ مجلس آرائی، یہ تو تھا ریاض حسین چودھری کی ادبی دنیا کا خارجی وجود۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم جناب ریاض حسین چودھری کے داخلی شعری اور فکری وجود پر نظر ڈالیں تو وہ ریاض حسین چودھری سے کم و بیش 100 سال بڑا اور قد آور دکھائی دیتا ہے۔ مجھے یاد آ رہا ہے کہ کہیں ماہ نور کی جلد اوّل یا چالیس سالہ مخزن میں پڑھا ہے کہ فیض احمد فیض گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے تو اُن کے انگریزی کے استاد نے غالباً 100 میں سے 115 نمبر دئیے تو پوری کلاس معترض ہوئی کہ اُستاد گرامی یہ کیسے ہو سکتا ہے! تو اُستاد نے یہ کہہ کر چپ کرایا کہ فیض کا انگریزی کا پرچہ ایسا ہی تھا کہ میں انہیں 100 میں سے 115 نمبر سے زائد نہیں دے سکتا تھا۔ تو پھر 30/35 سالہ ریاض کے کلام میں اگر 100 سال کی فکری پختگی، بالغ نظری اور مضامین پر گرفت جلوہ فگن ہو تو ایسے میں اُن کی عمر 150 سال شمار کر لی جائے تو یہ کوئی حیرت اور اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ اس وقت 150 سال کے ریاض حسین چودھری ہمارے سامنے ہیں جن کی فکری پرواز کا صرف ایک حوالہ قارئین کی نذر ہے۔ جب ریاض حسین چودھری کا وطن دولخت ہوا تو اُن کا 150 سالہ وجود ریاض کے 35 سالہ جسم پر ہتھیار بند ہو کر کھڑا ہو گیا اور بڑے زور دار لہجے میں پوری دنیا کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا نے لگا۔
کوئی بتائے میکدہ کیوں کر اُجڑ گیا
بکھرے ہوئے ہیں جام تو ٹوٹے ہوئے سبُو
اپنے لہو میں ڈوب گئی شبنمی ہوا
ویران ہو گیا ہے گلستانِ رنگ و بُو
کیونکر سقوطِ مشرقی بنگال مان لوں
چھینٹے اُڑیں گے میری عقیدت کے کُو بکُو
اس طرح ریاض حسین چودھری کا 150 سالہ فکری اور شعوری وجود کرچیاں ہو کر صفحہ قرطاس پہ یوں بکھر گیا۔


کس نے چرا لیے میری آنکھوں کے سات رنگ
کس نے سمیٹ لیں مرے ہونٹوں کی شوخیاں
کھلنا کے بام و در پہ مرے خون کی بہار
میں نے کمال پور کو دیا عزمِ بیکراں
سلہٹ میں چاٹگام میں میرے نفس کی ضو
جیسور حریت کے تقدس کا پاسباں
شاہد ہے میرے ذوقِ شہادت کا آج بھی
ہے راجشاہی میری اُمنگوں کا ترجماں
میں نے رکھی ہے لاج احد اور حنین کی
دیناج پور میں میری شجاعت کا ہے نشاں
ڈھاکہ حدیثِ شوق کے عنواں کی آبرو
کس نے اُڑا دیں اس کے تقدس کی دھجیاں

سقوط ڈھاکہ کے بعد ریاض کی غزل میں وطن کی مٹی سے وابستگی کا حوالہ سب سے معتبر ہو گیا۔ اُس کا وطن کیا دو لخت ہوا ایسے لگتا ہے کہ راہ چلتے بچے کی طرح ریاض کا ہاتھ والدین کے ہاتھوں سے چھوٹ گیا ہے۔ وہ اپنے گمشدہ والدین کی تلاش میں ہے، ہر نگر ہر کوچے میں یہی صدا دے رہا ہے۔


ایک ایک میرے باغ کی پتی بکھر گئی
اہل وطن پہ آج قیامت گزر گئی
اب کس کے واسطے میں تراشوں مجسمے
تخلیق کی نمو کی ضرورت ہی مر گئی

تب سے ریاض اپنے دشمن کو اپنے اندر سے تلاشنے کے عمل سے باہر نہیں نکلا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپائے اپنے اندر کے دشمن سے مخاطب ہے…


موت سے پہلے مری آخری خواہش ہے ریاض
میرا دشمن مرے چہرے پہ ملے خاکِ وطن

پرچم لپیٹ دیجیے میرے بدن کے ساتھ
پیوستہ حشر تک رہوں ارضِ وطن کے ساتھ

آؤ اپنے جسم چن دیں اینٹ پتھر کی جگہ
بے در و دیوار ہے لیکن یہ گھر اپنا تو ہے


ریاض نے ارضِ وطن کی خوشبو کی یہ مہک عشقِ مصطفی a کے سنبل و ریحان سے حاصل کی ہے۔ اس خوشبو سے وہ تمام اہلِ وطن کو مشکبار دیکھنا چاہتا ہے جس کا اظہار اس نے اپنی ایک معروف نظم میں اس طرح کیا ہے۔
ارضِ محمد a مُلک خدا
خطۂ رحمت حرفِ دعا
پاکیزہ ہے خاکِ وطن
پلکوں کی دستار بچھا
کشتِ ہنر میں چاند اُگا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا اِلٰہ اِلا اﷲ
ریاض حسین چودھری کے پہلے نعتیہ مجموعہء کلام ’’زرِ معتبر‘‘ کا سنِ اشاعت 1995 ہے۔ یوں اب تک ان کے 15 نعتیہ مجموعہ کلام یکے بعد دیگرے منظر عام پر آئے۔ جو خاصے ضخیم ہیں جن میں سے 7 تو انہوں نے اپنی شدید بیماری (فالج) کے دوران مرتب کیے۔ان میں سے آخری دو مجموعے ان کے وصالِ پُر ملال کے بعد چھپے۔ تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جب سے عشقِ مصطفی a ریاض کی انگلی تھام کر انہیں دیارِ حبیب aپر لے گیا ہے تب سے وہ گھر نہیںلوٹے اور دیارِ حبیب a میںسکونت کئے بڑی دیر سے گنگنا رہے ہیں۔

چند آنسو ہیں ندامت کے فقط زادِ سفر
مختصر سا ہے مگر کافی ہے سامانِ حیات

جناب ریاض ارضِ وطن میں پلکوں کی دستار بچھا کر زندہ رہے جہاںوہ علم اور محمد رسول اﷲ a کی شریعت کی حکمرانی دیکھنے کی آرزو میں جئے۔ مگر جب سے اُس نے اپنی یہ معصوم خواہش بھی خوں رنگ ہوتے دیکھی تو پھر قلبِ ریاض ٹوٹ پھوٹ سا گیا ۔سقوط ڈھاکہ پر اُس کا دل تو پہلے ہی سے کرچی کرچی ہو چکا تھا۔ اب وہ ایک گوشہء تنہائی میں اپنا سرِ نیاز جھکائے رو رو کر، گڑگڑا کر التجائیں اور آرزوئیں کرتے رہے۔ان کی سسکیاں دور دور تک سنائی دینے لگیں۔


المدد یا خدا الکرم یا نبیؐ
المدد یا خدا الکرم یا نبیؐ

میرے کشکول میں دیں دَرِ آگہی
المدد یا خدا الکرم یا نبیؐ

مہرباں اِن دنوں آسماں بھی نہیں
سر برہنہ ہیں ہم سائباں بھی نہیں
کب سے سوچوں کی کھیتی ہے اجڑی ہوئی
کب سے احساسِ سود و زیاں بھی نہیں
پانیوں میں گرے ہیں ریاض آج بھی
کشتیوں کا کوئی بادباں بھی نہیں

المدد یا خدا الکرم یا نبیؐ
المد یا خدا الکرم یا نبیؐ

اپنے کریم آقاؐ اور پاکستان سے محبت ریاض کو وراثت میں ملی اور وہ یہ وراثت اپنے بچوں میں منتقل کرنے کے شدید خواہش مند رہے۔ اس خواہش کا اظہار ان کے 15مطبوعہ مجموعہ ہائے کلام میں جابجا ملتا ہے اور یقیناً باقی دس مجموعوں میں بھی حُبِ وطن کے یہ دھنک رنگ بکھیرے گئے ہوں گے۔وہ آخری سانس تک امتِ مسلمہ اور پاک سر زمین کے گھمبیر معاملات کا دکھ اپنے دل کی دھڑکنوں میں محسوس کرتے رہے اور اپنے تخلیقی تجربے میں سموتے رہے۔حتیٰ کہ اسے اپنے ساتھ اس لحد میں لے گئے جس بارے وہ کہہ گئے ہیں :

لحد میں بھی ریاضِ نعت گو مصروف رہتا ہے
ازل سے التجائے چشمِ تر ہے ضَوفشاں میری