ریاض حسین چودھری: انٹرویو: ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی- نعت کے تخلیقی زاویے

ریاض حسین چودھری

انٹرویو: ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی

گورنمنٹ کالج شاہدرہ کے مجلہ ’’اوج‘‘ کے نعت نمبر 93۔1992 میں شائع ہوا

(یہ انٹرویو ان کے پہلے نعتیہ مجموعے ’’زرِ معتبر‘‘ کی اشاعت سے پہلے کا ہے۔)

ریاض حسین چودھری (پ: 8 نومبر 1941ئ) سیالکوٹ کے رہنے والے ہیں اور بنیادی طور پرایکسپورٹ اور امپورٹ کا کاروبارکرتے ہیں۔’’ خونِ رگِ جاں‘‘ کے نام سے قومی اور ملی شاعری پر مشتمل مجموعہ کلام شائع ہوچکا ہے۔ جدید شاعری کے اہم لکھنے والے ہیں لیکن کچھ عرصہ سے مسلسل نعتیں لکھ رہے ہیں۔ ’’زرِمعتبر‘‘ کے نام سے مجموعہ نعت زیر ترتیب ہے۔ نعت میں جدید رویوں کے قائل ہیں۔ ان دنوں ادارہ منہاج القرآن سے وابستہ ہیں اور ادارے کے پرچے ’’تحریک‘‘ کے مدیر اعلیٰ ہیں۔

1۔ معلوم نہیں، مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے ازل سے میری روح حصارِ عشق محمدؐ میں پناہ گزین ہے۔ جیسے ازل سے انہی کے قدم مبارک میں جبین نیاز سر بسجود ہے، شعور کی آنکھ کھولی تو گھر میں اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کے ذکرِ اطہر سے فضا کو معمور پایا۔ میں شعوری طور پر نعت کی طرف نہیں آیا، اس لیے ’’بنیادی‘‘محرکات کی توجیہ کرنے سے قاصر ہوں۔

دیکھا ہے میں نے چشم تصور میں بارہا
سردار کائنات کی چوکھٹ کو تھام کے

جیسے ازل سے والی کونین ﷺ کے حضور
گجرے لیے کھڑا ہوں درود و سلام کے

اولین نعت کون سی تھی، وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ آج سے ایک عرصہ قبل (62-1961 میں) جب بچوں کے لیے لکھا کرتا تھا تو مدحتِ رسول ﷺ بھی لبِ تشنہ پر پھول بن کر مہک اٹھتی تھی۔ میری پہلی باقاعدہ نعت ’’نوائے وقت‘‘ کے ہفت روزہ ’’قندیل‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔ مطلع یاد آرہا ہے۔

خدا کے جلوئوں میں جلوہ فرما تھے آپؐ شمس و قمر سے پہلے
انہی کا چرچا تھا لامکاں میں ہجومِ شام و سحر سے پہلے

2۔ ایک نعتیہ قطعہ دیکھئے:

لب پر ورق ورق کے درود و سلام ہے
لاریب لفظ لفظ خدا کا کلام ہے

ہر سمت ہے محامد سرکارؐ کی دھنک
قرآن ایک نعت مسلسل کا نام ہے

اس’’ نعت مسلسل‘‘ سے اکتساب شعور کیا۔ اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی، حالی، علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خاں، حفیظ جالندھری اور اس کے بعد حفیظ تائب اور احمد ندیم قاسمی کے نغمات نعت نے خارجی اثرات بھی مرتب کئے اور اعلیٰ سطح پر بھی ان کے جلال و جمال کے عکس جلوہ گر ہوئے۔

پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا

احمد ندیم قاسمی کا یہ لافانی شعر پوری جدید نعت کا نمائندہ شعر ہے۔

3۔ نعت تو سنت رب جلیل ہے، تمام الہامی صحیفے اٹھا کر دیکھئے ان کی پیشانیاں ذکر مصطفی ﷺ کے نور سے چمک رہی ہیں۔ نعت کے حوالے سے میری سوچ قرآن کے فلسفہ نعت سے مختلف نہیں۔ قرآن کا فلسفہ نعت ربط رسالت سے ابلاغ پاتا ہے اور ربط رسالت کے لیے عشق رسول، احترام و ادب رسول، اتباع و اطاعت رسول اور نصرت رسول ﷺ کے عنوانات کے تحت شعورِ نعت کا فروغ پذیر ہونا ضروری ہے۔ ربط رسالت قرآن کے اسلوب ہدایت کا وہ دلکش عنوان ہے جس سے ایمان کے سوتے ہی نہیں پھوٹتے بلکہ یقین کو نظریاتی تحفظات کی ضمانت بھی ملتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک ربط رسالت یقین کی اساس نہ بنے اس وقت تک ایمان کے تقاضے پورے ہو ہی نہیں سکتے۔ تعلق باللہ کے لیے بھی ربط رسالت پہلی اور سب سے اہم کڑی ہے۔

4۔ ربط رسالت کے چاروں عنوانات(عشق رسول، احترام و ادب رسول، اتباع و اطاعت رسول اور نصرت رسول ﷺ ) جن کا اوپر ذکر ہوچکا ہے۔ نعت گو محسوس کرے کہ وہ دست بستہ حضورؐ کی بارگاہ اقدس میں سلام پیش کررہا ہے۔ حضورؐ کی گلیوں کے کتوں کی رضا کا بھی جویا رہے۔ اس تصور میں گم رہے کہ

مرے حضورؐ مری نعت سن رہے ہیں ریاضؔ
چمک رہا ہے ستارا مرے مقدر کا

کوئی لفظ کوئی خیال تاجدارِ کائنات ﷺ کی شانِ اقدس سے فروتر نہ ہو، دراصل جب تک لفظ احرام باندھ کر نہ نکلے اور خیال باوضو نہ ہو، ذہن نعت کا مضمون سوچ ہی نہیں سکتا۔ سانسوں میںعقیدت کے آبگینے پھوٹیں، دل کی ہر دھڑکن حرف سپاس بن جائے۔ لہو کی ایک ایک بوند وجد میں آجائے۔ چشم تر طوافِ گنبد خضرا میں مصروف ہو، حضورؐ کے نقشِ پا کے تصور سے حرمِ دل کی گلیاں ہر آن آباد رہیں۔ پلکیں بھیگتی رہیں۔ ساعتیں درود پڑھتی رہیں۔ حریم دیدہ و دل میں چراغاں ہوتا رہے اور قلم کے ساتھ سر بھی ورق پر جھکا رہے۔

5۔ درست نعت گوئی دو دھاری تلوار پر چلنا ہے۔ یہاں تو آنسوئوں کا رقصِ بے حجاب بھی سوء ادب میں شمار ہوتا ہے، نعت گو کے لیے ہر آن احتیاط لازمی ہے۔ ذرا سی بھی شوخی، گستاخی سمجھی جائے گی۔ ان کی آواز سے اپنی آواز بلند کرنے کی بھی ممانعت ہے۔ یہ بے تکلفی کی جا نہیں، یہاں تو یزید و جنید بھی نفس گم کردہ آتے ہیں۔ اسی حوالے سے یا کسی دوسرے حوالے سے اپنی نعتیہ شاعری کا جائزہ لینے یا کوئی تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔

6۔ نعت کے سلسلے میں جدید و قدیم کی اصطلاحات سے اتفاق نہ کرنے کی کوئی وجہ میری سمجھ میں نہیں آتی، نعت نگاری ایک صنف سخن ہے اور دیگر اصناف سخن کی طرح اس میں بھی فنی ارتقا ممکن ہے بلکہ ہوتا ہے۔ جدید نعت قدیم نعت سے کئی حوالوں سے مختلف ہے۔جدید نعت میں سوچ اور اظہار کے بھی نئے آفاق مسخر ہورہے ہیں۔ بعض لوگ بغیر کسی استدلال کے کہہ دیتے ہیں کہ ہم نعت میں جدید و قدیم کے قائل ہی نہیں۔ حسنِ کرشمہ ساز جو چاہے کرتا پھرے بھلا اسے روکنے والا کون ہے۔ جدید نعت تاجدار کائنات کی سیرت اطہر سے بھی اکتساب شعور کرتی ہے اور جذباتی سطح پر ہی نہیں عقلی اورلاشعوری سطح پر بھی حضور کی ذات اقدس کے حوالے سے اپنی اور اپنے عہد کی پہچان چاہتی ہے۔ جدید نعت کا کینوس بہت وسیع ہوچکا ہے۔ اب نعت شہر آشوب کے پیرائے میں بھی لکھی جارہی ہے۔ مسائل و مصائب کی آگ میں جلتا ہوا انسان اپنے سارے دکھ اپنے سارے کرب تاجدار مدینہ کی بارگاہ بیکس پناہ میں پیش کررہا ہے۔جدید نعت میں استغاثے کا رنگ بھی نمایاں ہے۔

اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

جدید شعراء مولانا حالیؒ کی اتباع اور اقبالؒ کی تقلید میں اسی رنگ کو نمایاں کررہے ہیں۔ بے جہت منزلوں کی طرف رواں دواں نسل انسانی کو اگر ہوائے خنک کا جھونکا نصیب ہوسکتا ہے تو صرف اور صرف بطحا کی وادی سے مل سکتا ہے۔

7۔ جی ہاں، نعت میں ہیئت اور مضامین دونوں حوالوں سے کامیاب تجربے ہورہے ہیں۔ نظم معریٰ، آزاد نظم، نثری نظم، ہائیکو میں نئے شعر نے اظہار کے نئے پیکر تراشے ہیں۔ بعض شعرا نے نعتیہ قطعہ نگاری کی طرف بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ ہائیکو اورنعتیہ قطعات پر مشتمل شعری مجموعے بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔ اب نعت کا مضمون صرف نعتیہ غزل کی اصطلاح میں مقید نہیں، میں فنی حوالے سے بات کررہا ہیں۔ نعت کاظاہر و باطن اس طرح نکھر رہا ہے کہ روح کی بالیدگی کے ساتھ ساتھ ذوق کی آبیاری بھی ہورہی ہے۔ خود میں نے نظم معریٰ اور قطعہ نگاری میں نعت کہی ہے۔ ’’غبار جاں میں آفتاب‘‘ ایک طویل نعتیہ نظم ہے اور یہ نعتیہ نظم، نظم معریٰ میں ہے۔ اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ یہ خوشگوار تجربات نعت کو محض ’’تبرک‘‘ کے دائرے سے نکال کر وسیع تر پیرایہ اور مفہوم عطا کریں گے اور نعت ذہنوں کی تہذیب اور قلوب کی تطہیر کا فریضہ پہلے سے بھی زیادہ موثر انداز میں سرانجام دے گی۔

8۔ جی ہاں، بعض لوگ دور حاضر کو نعت کا دور کہتے ہیں لیکن یہ درست نہیں۔ اس لیے کہ تخلیق کائنات سے لے کر آج تک روئے زمین پر کوئی ایسا لمحہ نہیں گذرا جس کی ہتھیلیوں پرمحامد سرکارؐ کی قندیلیں فروزاں نہ ہوں۔ آج تک کوئی ایسی ساعت کائنات کا مقدر نہیں بنی جو خوشبوئے اسم محمد ﷺ سے نہ مہک رہی ہو۔ہر لمحہ حضورؐ کے تذکار کا لمحہ ہے۔ ہر دور نعت کا دور ہے۔ ہر عہد نعت کا عہد ہے۔ ضیاء الحق مرحوم کے عہد میں نعت کو ایک حد تک فروغ دیا گیا، پس پردہ کیا سیاسی محرکات تھے؟ کچھ نہیں کہا جاسکتا بہر حال نیتوں کا حال اللہ جانتا ہے۔

9۔ نعت کے حولے سے تنقید و تحقیق کا جو کام ہوا ہے وہ حوصلہ افزا ضرور ہے لیکن اس سلسلے میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے بعض حلقے آج بھی نعت کو محض ثواب کمانے کی چیز سمجھتے ہیں۔وہ لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ نعت کو تنقید کی کسوٹی پر بھی پرکھا جاسکتا ہے۔ ان کے جذباتِ محبت و عقیدت کی نفی مقصود نہیں۔ حضورؐ کی یاد میں بہنے والے ایک آنسو کی بھی کوئی قیمت نہیں چکا سکتا۔ بہر حال سوچ کے دھارے تنقید، تحقیق اور جستجو کی طرف مڑ رہے ہیں جو ایک خوش آئند بات ہے۔

10۔ شاید اس کا تعین کرنا بھی میرے لیے ممکن نہ ہو،غالباً بیدم وارثی نے کہا تھا:

عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسول
کہاں کہاں لیے پھرتی ہے جستجوئے رسول

مدینہ منورہ سے دوری کی کیفیت؟ لیکن کون کافر حضورؐ کے قدموں سے دور رہتا ہے۔

تجھے تو یہ سعادت اپنے بچپن ہی سے حاصل ہے
تصور میں درِ اقدس پہ جاکر چشم تر رکھنا

یہ تو وجدان کی بات تھی، میں نے اپنے پہلے نعتیہ مجموعے کا نام ’’زرِ معتبر‘‘ رکھا ہے۔ یہ در اقدس کی حاضری تک کا کلام ہے۔ دوسرا مجموعہ ’’غبار جاں میں آفتاب‘‘ یہ درِ اقدس کی حاضری کے بعد کا کلام ہے۔

11۔ جون 1985ء (رمضان المبارک کا آخری عشرہ) قسمت نے یاوری کی، مقدر کا ستارا چمکا، آرزوئوں اور تمنائوں کی کھیتی شاداب ساعتوں سے ہمکنار ہوئی۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری قافلۂ محبت لے کر عمرہ کی ادائیگی اور حضور کی بارگاہ بیکس پناہ میں حاضری کے لیے جارہے تھے، سوت کی اٹی لے کر میں بھی یوسف کے خریداروں میں نام لکھوانے کی تمنا کر بیٹھا، اجتماعی طور پر ویزا نہ لگ سکا، دل پر کیا قیمت گذری کچھ نہ پوچھئے۔ انفرادی کوششوں سے ویزا لگوایا اور تن تنہا اس شہر خنک کو چل پڑا۔

رستہ کسی سے پوچھنا توہین ہے مری
ہر رہگذار شہر پیمبرؐ کو جائے ہے

سفرِ رحمت شروع ہونے سے پہلے میری عجیب حالت تھی۔ جب بادِ صبا حضوری کا پروانہ لے کر پہنچی، روح جھوم اٹھی، وجدان وجد میں آگیا۔ جی چاہتا تھا حضوری کا پروانہ لے کر گلیوں میں نکل جائوں، دیوانہ وار رقص کروں۔

میں تصور میں در اقدس پہ جا پہنچوں ’’ریاض‘‘
لوگ کہتے ہی رہیں گلیوں میں دیوانہ مجھے

یہ چاند رات تھی، عمرہ کی ادائیگی کے بعد عید حضور کے قدموں میں گزارنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ آنکھیں حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھیں،آنکھوں میں چمکنے والے آنسو بھی جذبوں کو زبان دینے سے قاصر تھے۔ جذبات و احساسات کی تمام بیساکھیاں ٹوٹ گئیں۔ سامنے حضور کی سنہری جالیاں تھیں، پلکیں بہر سلامی جھکی ہوئی تھیں۔ ہونٹ کپکپارہے تھے۔ بدن پر لرزہ طاری تھا۔ ایک نعت کہہ رکھی تھی۔ ’’حضور حاضر ہے ایک مجرم‘‘۔ میں ستونوں کے پیچھے چھپتا رہا۔ کہیں حضورؐ کی نظر مجھ گنہ گار پر نہ پڑ جائے کہ یہ روسیاہ منہ اٹھائے کہاں چلا آیا۔ ندامت سے جسم پسینے میں شرابور تھا۔ لیکن ایک عجیب سکون دل و نظر پر محیط تھا۔ جیسے کوئی بچہ روتے روتے ماں کی آغوش میں گہری نیند سوجائے، اضطراب نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد میں نے کہا تھا:

جی چاہتا ہے گنبد خضرا کے سامنے
ٹوٹے ہوئے وطن کی کبھی داستاں کہوں

حضور کی بارگاہ میں وطن کی ہوائوں کا سلام پیش کیا۔، عرض کی، یارسول اللہ! میں غلاموں کے اس وطن سے آیا ہوں جہاں سے آپ کو ٹھنڈی ہوا آیا کرتی تھی۔ آقاؐ میرا وطن دو لخت ہوگیاہے، عرض کی آقاؐ گھر کی کنیزیں سلام کہتی تھیں، بچے دونوں ہاتھ اٹھا کر سلام کرتے تھے۔ بہر سلامی اٹھئے ننھے منے ہاتھوں کا سلام قبول کیجئے۔ غلام گھرانے کے ہر فرد کی درخواست گزاری۔ مؤذن کی اذان پر چونکا۔ پونے دو گھنٹے پلک جھپکتے گذر گئے۔

12۔ نعت میں جمال مصطفی اور سیرت رسول ﷺ دو اہم ترین موضوعات واقعی دو رویے ہیں لیکن میں انہیں دو مختلف رویے نہیں کہوں گا، یہ دونوں رویے حضور کی ذات اقدس سے شروع ہوکر حضورؐ کی ذات اقدس پر ہی ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک ہی ہستی کے گرد عقیدت کے دو ہالے ہیں جنہیں جدا کیا ہی نہیں جاسکتا۔ دونوں ہی موضوعات میں سے کبھی جمال کی کیفیت کا غلبہ زیادہ ہوجاتا ہے اور کبھی سیرت کی روشنی قرطاس و قلم کی راہداریوں کو وجد آفریں لمحوں سے ہمکنار کرتی ہے، اس کا انحصار نعت گو کے باطنی اور وجدانی سفر پر ہوتا ہے۔ سوال کے دوسرے حصے کا جواب بھی پہلے حصے کے جواب میں پنہاں ہے۔البتہ یہ دو رویے جدید و قدیم نعت کی حدود متعین کرتے ضرور دکھائی دیتے ہیں لیکن جدید تر نعت میں ان دونوں رویوں کا حسین امتزاج دیکھ رہا ہوں۔

13۔ تخلیق کار اور نقاد کی راہیں غالباً جدا جدا ہوتی ہیں گو ہر تخلیق کار کے اندر ایک نقاد بھی ہوتا ہے لیکن یہ نقاد خود احتسابی کے عمل سے گزرنے کے لیے ہوتا ہے۔ نعت میں موضوع یا فن کے حوالے سے اب اپنی نعت کے بارے میں کیا کہوں، شاید یہ میرا منصب بھی نہیں۔

14۔ نعت خوانی اور نعت گوئی میں خوبصورت تخلیقی رشتوں کے باوجود یہ دونوں جدا جدا فن ہیں۔ مجھے نعت خوانی کی سعادت حاصل نہیں لیکن یہ کمی شعوری سطح پر کبھی احساس کمتری کا باعث نہیں بنی، میں نے نعت گو کی حیثیت سے اپنی پہچان کی آرزو کی تھی۔

ہو تری ذات کے اب حوالے سے طے
میری پہچان کا مرحلہ یا نبیؐ

میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ جس آرزو کا اظہار میں نے اپنے آقا کی بارگاہ میں کیا تھا وہ میری زندگی میں ہی پوری ہوگئی ہے۔اس خواہش کے بعد اب کوئی دوسری خواہش نہیں، اس حوالے کے بعد شاید کسی دوسرے حوالے کی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی۔ البتہ ایک تمنا ہے کہ

میرے بچوں کو وراثت میں ملے حبِ رسولؐ
یہ اثاثہ بعد میرے بھی تو گھر میں چاہیے

میرے بیٹے مدثر سے (جب وہ ابھی چھوٹا سا تھا) کسی نے پوچھا تھا کہ تمہارے ابو کیا کرتے ہیں تو اس نے جواب دیا تھا نعت لکھتے ہیں۔ اب پچھلے دنوں نرسری کلاس میں داخلے کے وقت میری چھوٹی بچی شفق نے اپنی میڈم کو بھی یہی جواب دیا تھا، میرے لیے یہی سند بہت ہے۔

15۔ فروغِ نعت کے لیے شہر اقبال میں نعت اکیڈمی بنائی تھی۔ لیکن بوجوہ تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ سیالکوٹ میں نعتیہ مشاعروں کی روایت کو آگے بڑھانے کی سعی کی۔ ان مشاعروں کے لیے ان لوگوں نے بھی نعتیں لکھیں جو صرف شہر غزل میں فصاحت و بلاغت کے دریا بہایا کرتے تھے۔ افسوس کوئی قابل ذکر کام نہیں کرسکا۔ دامن آرزو میں ندامت کے آنسوئوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔

اقبال کی زمیں سے حرم کی زمین تک
اشکوں نے جو کیا ہے چراغاں قبول ہو

16۔ نئی نسل سے یہی کہنا چاہوں گا کہ حضورؐ کی غلامی کا پٹکا اگر گلے میں نہ ہو تو جبینوں پر سجنے والے محراب بھی ریا کاری کے مترادفات میں شمار ہوتے ہیں۔ غبار راہ مدینہ سے دامن شوق اگر مصور نہ ہو تو ایمان کے راستوں پر تشکیک کی دھول اڑتی رہتی ہے۔ اس لیے حضورؐ کی ذات گرامی کواپنی عقیدتوں اورمحبتوں کا مرکز و محور بناکر اسلامیان عالم کو بے توقیری کے بھنور سے نکالنے کے لیے عالمی سطح پر اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کا دیوانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے احیائے اسلام، اتحاد امت،غلبۂ دین حق کی بحالی اور عظمت رفتہ کی بازیابی کے لیے اپنی صلاحیتوں کو وقف کردیں، پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلام کا قلعہ بنائیں اور مصطفوی انقلاب کے سپاہی بن کر قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد کے حصول کے لیے انقلابی جدوجہد کا آغاز کریں۔ اور اپنے قول و عمل سے اس نعرہ کو کہ دنیا بھر کے مسلمانو! ایک ہوجائو، ایک تحریک بنادیں۔ فرقہ واریت کے بتوں کو پاش پاش کرکے حضورؐ کی ساری امت کے لیے ایک باعزت اور با غیرت مستقبل کے لیے کوشش تیز کردیں کہ نسل نو کے مقدر میں روشنی ہی روشنی ہے۔o