انٹرویو کاروان نعت- نعت کے تخلیقی زاویے

ریاض حسین چود ھریؒ کی نعت گوئی کے حوالے سے گفتگو

انٹرویو: محمد طاہر۔ ابرار حنیف مغل

’’کاروانِ نعت‘‘ فروری۔ مارچ 2007ء

٭ آپ نعت گوئی کی طرف کب مائل ہوئے اور اس کی بنیادی محرکات کیا تھے؟ اولین نعت کے چند اشعار عنایت فرمائیں۔

میں نعت گوئی کی طرف شعوری طور پرنہیں آیا، اس لیے بنیادی محرکات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے دنیا میں آنے سے پہلے میری روح فضائے نعت میں سانس لیتی رہی ہے۔ البتہ گھر کا ماحول دینی تھا، عشقِ رسول ﷺ وراثت میں ملا ہے:

مجھے تو یہ سعادت اپنے بچپن ہی سے حاصل ہے
تصور میں درِ اقدس پہ جا کر چشم تر رکھنا

تحدیث نعمت کے طور پر عرض کررہا ہوں کہ نعت گوئی میری سرشت میں شامل ہے، قدرت ہزار زندگیاں بھی دے تو ہر زندگی میں نعت گو بننا ہی پسند کروں گا۔ جہانِ نعت میں زندہ ہوں اور نعت کہتے کہتے ہی دنیا سے رخصت ہونا چاہتا ہوں۔

بچو! دمِ رخصت مرے، کہنا یہ اجل سے،
ابو تو ابھی مدحتِ سرکارؐ میں گُم ہیں

دادا جان مرحوم حاجی عطا محمد ہمیں حضور ﷺ کی باتیں سنایا کرتے تھے۔ آقا علیہ السلام کا نام ہونٹوں پر آتا تو آنکھیں چھلک پڑتیں، آواز رندہ ہوجاتی، بچپن سے یہ عادت ہے کوئی اچھا شعر پڑھتا ہوں تو وہ رسالہ یا اخبار آنکھوں سے لگا لیتا ہوں، سیرت اطہر کے کئی مقامات آنسوئوں میں ڈوب جاتے ہیں۔ اور زبان بیان سے قاصر رہتی ہے۔ یہی آنسو میرا سرمایۂ حیات اور میرا توشہ آخرت ہیں۔

رخصت کے وقت میرے لبوں پر مرے رفیق!
کشتِ ثناء و حمد سے کلیاں اٹھا کے رکھ

لکھوں گا میں لحد میں بھی اپنے نبیؐ کی نعت
میرے قلم کو میرے کفن میں چھپا کے رکھ

اپنے بچپن میں بچوں کے لیے نظمیں لکھیں جن میں نعت بھی سرفہرست تھی، یہ نظمیں بچوں کے مختلف رسائل میں شائع ہوئیں۔ باقاعدہ نعت جسے میں اپنی پہلی نعت کہتا ہوں ’’نوائے وقت‘‘ کے ہفت روزہ ’’قندیل‘‘ میں شائع ہوئی جس کا مطلع یاد آرہا ہے۔

خدا کے جلوؤں میں جلوہ فرما تھے آپؐ شمس و قمر سے پہلے
انہی کا چرچا تھا لامکاں میں ہجوم شام و سحر سے پہلے

٭ آپ نعت کے کن شعرا سے متاثر ہیں؟

اپنے شہر کے مردِ قلندر سے۔ اقبالؒ نے نعت کو جس علمی مقام پر لاکھڑا کیا ہے ابھی تک نعت کا کوئی شاعر اس سے آگے نہیں جاسکا (نعت کے شعرا کی گراں قدر کنٹری بیوشن سے انکار نہیں، مقصود اقبالؒ کی شعری عظمت کا بیان ہے) میں تو اکثر کہا کرتا ہوں کہ ابھی تک پوری اردو شاعری اقبالؒ کے کسی ایک مصرعے کا بھی جواب نہیں دے سکی، مولانا احمد رضا خاں بریلویؒ سے حفیظ تائب تک تقریباً ہر بڑے شاعر کی نعتیہ شاعری نے میرے ذہن میں سوچ اور اظہار کے ان گنت چراغ روشن کئے ہیں، عبدالعزیز خالد،، مظفر وارثی، کس کس کا نام لوں۔ نئی نسل افقِ نعت پر تازگی اور شگفتگی کی نئی لہریں لے کر طلوع ہوئی ہے، راجا رشید محمود، خالد احمد، زاہد فخری، پروفیسر اکرم رضا اور سید صبیح رحمانی کا نام لینا چاہوں گا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ عہد بھی حفیظ تائب ہی کا عہد ہے۔

تائب کو ساتھ لے کر سر حشر مَیں ریاضؔ
آقا حضورؐ کو نئی نعتیں سناؤں گا

٭ نعت کے حوالے سے آپ کی سوچ یا نظریہ کیا ہے؟ تفصیل سے ارشاد فرمائیں۔

نعت درود و سلام کے پیکرِ شعری کا نام ہے اور درود و سلام سنت رب جلیل ہی نہیں حکم خداوندی بھی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ میں اور میرے فرشتے حضور ﷺ پر درود بھیجتے ہیں اور اے ایمان والو! تم بھی حضور ﷺ پر خوب خوب درود و سلام بھیجا کرو، نعت کے حوالے سے میری سوچ یا میرا نظریہ یہی ہے جو ہدایت آسمانی کی آخری دستاویز قرآن حکیم کا ہے:

لب پر ورق ورق کے درود و سلام ہے
لاریب لفظ لفظ خدا کا کلام ہے

ہر سمت ہے محامدِ سرکارؐ کی دھنک
قرآن ایک نعتِ مسلسل کا نام ہے

شعرائے دربار رسالت نے نعت سے دفاع رسول کا کام بھی لیا ہے اس لیے کہ دفاع رسول ﷺ میں دفاع اسلام ہے۔ خود خدا بھی ابولہب جیسے کافر سے کہہ رہا ہے کہ ٹوٹ جائیں تیرے دونوں ہاتھ، اعلیٰ حضرت سے لے کر زاہد فخری تک شعرا نے اپنی اس ذمہ داری کو بدرجہ اتم نبھایا ہے۔ جدید اردو نعت اولاد آدم کو ایک مرکز پر لانے میں بھی بنیادی مگر خاموش کردار ادا کررہی ہے۔ اپنے تمام تر تعصبات کے باوجود مغربی مفکرین اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر نسل آدم کو امن اور سکون کی تلاش ہے تو اسے جھک جانا ہوگا دہلیز مصطفی پر، مکین گنبد خضراکے چوکھٹ کو تھامے بغیر اولاد آدم کا ہر خواب ادھورا رہے گا۔ مصلحتیں پائوں کی زنجیر بن جائیں تو اور بات ہے، آج پورا یورپ قبول اسلام کی دہلیز پر کھڑا ہے۔ مغرب کے ارباب علم و دانش کی راتوں کی نیند حرام ہوچکی ہے۔ یہ جو روس کے ساتھ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دشمنانانِ اسلام کی توپوں کا رخ اسلام اور مسلمانوں کی طرف مڑگیا ہے تو اس کی بنیادی وجہ بھی یہ ہے کہ مغربی مفکرین اسلام سے خوفزدہ ہیں اس لیے ہر سطح پر اسلام کا راستہ روکنے کی تیاریاں ہورہی ہیں لیکن دشمنانانِ اسلام کی ننگی جارحیت کے باوجود اسلام کرہ ارض پر بسنے والے انسانوں کی نگاہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ نائن الیون کے بعد مغرب کی بوکھلاہٹ اس کے اندرونی خوف کی چغلی کھا رہی ہے۔ مغرب کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔ دراصل امریکہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ وہ وقت اب زیادہ دور نہیں جب سوویت روس کی طرح امریکہ بھی تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گا اور پوری دنیا سر جھکائے حضور ﷺ کی دہلیز پر کھڑی ہوگی اور درِ اقدس کو تھام کر نظر کرم کی بھیک مانگے گی، اس ضمن میں نعت آگے چل کر اور بھی بھرپور کردار ادا کرے گی اس لیے آج کے نعت نگار پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نعت کے حوالے سے اولاد آدم کی شیرازہ بندی کا فریضہ بھی سرانجام دے۔نعت کائنات ہے اور ہمیں کائناتِ نعت میں زندہ رہنا ہے۔

٭ آپ کے خیال میں نعت گو کو بطور خاص کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟

نعت گو کو قرآن سے نعت گوئی سیکھنا چاہیے۔ رب کائنات قرآن میں اپنے بندوں کو اپنے محبوب ﷺ کی بارگاہ کے آداب سکھاتا ہے۔ خبردار! میرے نبی ﷺ کی آواز سے تمہاری آواز بلند نہ ہونے پائے، ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال پر پانی پھر جائے اور تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو، نعت گو کو باادب ہونا چاہیے، اس کے تمام حروف احرام باندھ کر بارگاہ نبوی ﷺ میں حاضر ہوں تو اسے نعت کے لیے قلم اٹھانا چاہیے، مجھے جب حضور ﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی تو میں اپنے قلم کو بھی ساتھ لے گیا تھا کہ یارسول اللہ ﷺ رات کے پچھلے پہر ہم دونوں مل کر آپ کی یاد میں آنسو بہایا کرتے ہیں۔ حسان بن ثابتؓ، کعب بن زبیرؓ، عبداللہ بن رواحہؓ اور دوسرے شعرائے دربارنبوی ﷺ کے نقوش ادب کی تلاش آج کے نعت گو کا اولین فریضہ ہونا چاہیے۔ یہ احساس ہر طور زندہ رہنا چاہئے کہ وہ وحدہٗ لاشریک ہے، اس کی الوہیت اور ربوبیت ہر لمحہ پیش نظر رہے، قلم ورق پر سجدہ ریز رہے۔

٭ ’’نعت گوئی تلوار کی تیز دھار پر چلنا ہے‘‘، اس کی روشنی میں آپ اپنی نعتیہ شاعری کو کس طرح پرکھتے ہیں؟

خالق اور مخلوق کے فرق کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہیے، یہ خیال رہے کہ عظمتِ رسول کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے، بعض لوگ کم علمی کی بنا پر اپنے سیاسی رہنمائوں کو بھی انسان کامل لکھ دیتے ہیں، وہ مدینہ منورہ کا نام اس طرح لیتے ہیں جیسے کراچی اور لاہور کا ذکر کررہے ہیں۔ لوگو! ادب،حضور ﷺ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کا ادب، اپنی شاعری کے بارے میں کچھ عرض کرنا میرا منصب نہیں، یہ نقاد کا کام ہے، تاہم اتنا عرض کرنا چاہوں گا کوئی لفظ حضور ﷺ کی شان سے فروتر نہیں ہونا چاہیے، کوشش کرتاہوں کہ کسی حوالے سے بھی غلط مفہوم اخذ نہ کیا جاسکے، یہی خوف دامن گیر رہتا ہے کہ قلم کہیں بے قابو ہوکر حدود سے تجاوزنہ کر جائے کیونکہ بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں ذرا سی بھی شوخی سوء ادب میں شمار ہوگی۔ ابھی تک نعت میں کوئی لفظ بھی حضور ﷺ کے شایانِ شان تخلیق نہیں ہوسکا۔ ہر لفظ حصارِ عجز میں ہے اور ہر نعت گو بلکہ ہر امتی کو اسی حصار عجز میں زندہ رہنا چاہیے۔ اگر کوئی صاحبِ علم یا عام قاری بھی کسی سہو کی نشاندہی کرتا ہے تو فوراً اس شعر یا لفظ کو قلمزد کردیتا ہوں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بارگاہ میں معافی کا طلب گار ہوتا ہوں۔

٭ نعت کے سلسلے میں جدید نعت اور قدیم نعت کی اصطلاحات سے آپ کہاں تک اتفاق کرتے ہیں آپ کے نزدیک جدید نعت کیا ہے؟

بعض لوگ کہتے ہیں کہ نعت نعت ہوتی ہے، جدید و قدیم نہیں ہوتی۔ یہ منطق آج تک میری سمجھ میں نہیں آسکی۔ نعت واقعی نعت ہی ہوتی ہے اور اسے نعت ہی ہونا چاہیے لیکن مضامین نو پر تخلیق کے دروازے کیسے بند کیے جاسکتے ہیں، نعت میں آقائے محتشم ﷺ کے شمائل، خصائل، فضائل اور خصائص کا ذکر بے حد ضروری ہے۔ ان کے ذکر جمیل کے بغیر بات نہیں بنتی لیکن حضور ﷺ رسول کائنات بھی ہیں اس لیے کائنات کے تمام مسائل اور مصائب کا ذکر بھی نعت میں ہونا ایک فطری سی بات ہے، کیا اعلیٰ حضرت کی نعت آج کی نعت سے مختلف نہیں؟ ہر دور اور عہد کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں اور مختلف خطوں میں بسنے والے لوگوں کے معمولاتِ شب و روز بھی مختلف ہوتے ہیں۔ تہذیبی اور ثقافتی پیمانے بھی مختلف ہوتے ہیں، سوچ اور اظہار کے معیارات بھی جدا ہوتے ہیں۔ کیا آج بھی سو سال قبل ہائیکو یا سانیٹ میں نعت کہی جارہی تھی؟ یقینا جواب نفی میں ہوگا۔ ہمیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوچکے ہیں۔ اکیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں یہ تقاضے اور احوال آج کے تقاضوں اور احوال سے مختلف ہوں گے۔ آج نعت کا کینوس بہت وسیع ہوچکا ہے۔ مولانا حالی نے نعت میں استغاثے کا جو انداز اپنایا تھا اس کی باز گشت آج بھی سنائی دے رہی ہے لیکن اس کی صورت یقینا مختلف ہے۔ جدید اردو نعت تاجدار کائنات حضور رحمت عالم ﷺ کے شمائل، خصائل اور خصائص سے بھی اکتساب نور کرتی ہے اور زمینی حقائق سے بھی اپنا نصابِ نعت مرتب کرتی ہے۔ آشوب ذات سے آشوب عہد بلکہ آشوب کائنات تک تمام مسائل اور مصائب کا احاطہ کرکے جدید اردو نعت بارگاہ نبوی ﷺ میں نظر کرم کی ملتجی ہوتی ہے۔ جدید اردو نعت کو اپنے اس اعزاز لازوال پر بجا طور پر ناز ہے کہ اس کی سوچ کا مرکز و محور رسول کائنات ﷺ کی ذات اقدس ہے اور وہ آج کے انسان کے تہذیبی، تمدنی، معاشی مسائل کو انفرادی اور اجتماعی حوالوں سے نظر انداز نہیں کرتی۔ یہی آج کی نعت کا اساسی رویہ ہے۔ جدید اردو نعت صرف غزل کی ہیئت تک ہی محدود نہیں بلکہ آزاد نظم، نظم معریٰ، قطعات، ہائیکو، سانیٹ ثلاثی اور پابند نظم غرض ہر صنف سخن میں نئے نئے تجربات ہورہے ہیں۔ تازگی اور شگفتگی نے نعت گو کے ذہن کے گرد ایک ہالہ نور بنارکھا ہے اور وہ مسلسل کشتِ ثنا میں صلّ علیٰ کے پھول اگا رہا ہے۔ سیرت اطہر کی خوشبو جدید اردو نعت کا نمایاں وصف ہے،نعت کے حوالے سے گلوبل ویلج کا خواب شرمندہ تعبیر ہورہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضور ﷺ ﷺ کی ذات اقدس کا مرکز و محور تسلیم کئے بغیر نہ افق عالم پر دائمی امن کی بشارتیں تحریر ہوسکتی ہیں اور نہ اولاد آدم کو ایک مرکز پر جمع کیا جاسکتا ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کو روکنے میں بھی نعت حضور ﷺ ہی مرکزی کردار ادا کرسکتی ہے۔

٭ عام شاعری کی طرح نعت میں بھی معریٰ نظم، آزاد نظم، نثری نظم، ہائیکو وغیرہ کی صورت میں نئے شعری تجربے ہو رہے ہیں، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

بڑی خوش آئند بات ہے میں عرض کرچکا ہوں کہ نعت کا کینوس وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے، ایک زمانے میں صرف غزل کی ہیئت میں نعت کہی جارہی تھی لیکن اب ہر صنفِ سخن میں نعت کہی جارہی ہے۔ خود میں نے نظم معریٰ میں بطور خاص نعت کہی ہے۔ اللہ کے فضل و کرم اور آقائے محتشم ﷺ کی خصوصی توجہات سے ’’طلوعِ فجر‘‘ کے نام سے میں نے طویل نعت کہی ہے۔ یہ نعت 500 بندوں پر مشتمل ہے۔ یہ طویل نعت بھی نظم معریٰ میں ہے۔ میں نے نظم معریٰ کے آخری دو مصرعوں کو ہم قافیہ اور ہم ردیف بنانے کی طرح ڈالی ہے۔ اس طرح موضوع کو سمیٹنے میں مدد ملی ہے۔ امید ہے یہ تجربہ پسند کیا جائے گا۔ میری ایک اور طویل نعت ’’غبارِ جاں میں آفتاب‘‘ بھی نظم معریٰ میں ہے۔ ’’نئے دن کا سورج‘‘ آزاد نعتیہ نظم ہے۔

٭ دورِ حاضر کو نعت کا دور کہا جاتا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس دور میں نعت کو زیادہ فروغ حاصل ہوا ہے۔ آپ ان آراء سے کہاں تک اتفاق کرتے ہیں؟

اس میں شک نہیں کہ اس دور میں نعت کو زبردست فروغ حاصل ہوا ہے۔ یہ فروغ قیامِ پاکستان کا منطقی نتیجہ بھی ہے۔ اس لیے کہ تحریک پاکستان اسلامی تشخص کی تلاش کا دوسرا نام ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہر دور نعت کا دور ہے۔ آج تک روئے زمین پر ایک بھی ساعت ایسی نہیں اتری جس کے ہاتھ میں ثنائے رسول اللہ ﷺ کا پرچم نہ ہو۔ رب کائنات حضور ﷺ کا ذکر بلند کررہا ہے۔ ہم غلامانِ رسول تو اپنے خالق کے حکم کی بجا آوری میں مصروف ہیں۔

٭ نعت کے باب میں تنقید و تحقیق کے حوالے سے جو کام ہوا ہے۔ آپ کے خیال میں اس کی حیثیت و افادیت کیا ہے؟ کیا مزید کام کی ضرورت ہے؟ آپ اس سلسلے میں کیا خدمات سرانجام دے سکتے ہیں یا دے رہے ہیں؟

اب علمی و ادبی سطح پر یہ تسلیم کرلیا گیا ہے کہ نعت ایک صنف سخن ہے۔ یہ وہ صنف سخن ہے جو کسی ایک ہیئت تک محدود نہیں، اس کا حیطۂ ادراک لامحدود ہے اس لیے تنقید و تحقیق کا دائرہ بھی ممکن حد تک پھیلنا چاہیے۔ اس سے نعت کی ضمنی حنا بندی میں بھی مدد ملے گی اور نعت گو شعرا کی ضمنی اور فکری رہنمائی کا فریضہ بھی سرانجام پائے گا۔ اگر ہم نے نعت کو محض ثواب کمانے کی چیز سمجھ لیا (اگرچہ نعت کے اس پہلو سے انکار ممکن نہیں بلکہ میں تو نعت کو اپنا توشہ آخرت اور وسیلہ نجات سمجھتا ہوں) تو اس کا فنی ارتقا رک جائے گا بیسویں صدی کی آخری دو تین دہائیوں میں نعت کی تنقید و تحقیق کی طرف خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ تنقید و تحقیق کے شجر سایہ دار پر ابد تک موسم بہار سایہ فگن رہے گا۔ راجا رشید محمود، سید صبیح رحمانی، پروفیسر اکرم رضا، طاہر سلطانی، شفقت رضوی، عزیز احسن، جعفر بلوچ، پروفیسر محمد فیروز شاہ، ڈاکٹر ریاض مجید، پروفیسر غفور شاہ قاسم، قیصر نجفی گراں بہا خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، پروفیسر محمد جاوید اقبال، ڈاکٹر عاصی کرنالی، ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی کی خدمات آب زر سے لکھی جائیں گی۔ ’’نعت رنگ‘‘ کا بطور خاص ذکر کرنا چاہوں گا۔ تنقید و تحقیق کی افادیت سے کون انکار کرے گا؟ فروغ نعت کے لیے تنقید و تحقیق کے کام کی رفتار سے مطمئن ضرور ہوں لیکن اس حوالے سے ابھی پورے انہماک اور عرق ریزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے اپنی علمی کم مائیگی کا احساس ہے۔ کاش، سوت کی اٹی ہی میسر آجائے اور روز محشر یوسفِ نعت کے خریداروں میں نام ہی شامل ہوجائے۔

٭ نعت لکھتے ہوئے آپ کے دل میں روضۂ رسول پاکؐ پر حاضری کی تمنا کب پیدا ہوئی، آپ مدینہ منورہ سے دوری کی کیفیت کن حالات میں شدت سے محسوس کرتے ہیں؟

روضۂ رسول ﷺ پر حاضری کی تمنا کسی خاص وقت کی محتاج نہیں البتہ نعت کہتے وقت یہ تمنا دو چند ہوجاتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ نعت لکھتے وقت روح بھی حضوری کی کیفیتوں میں سرشار رہتی ہے۔ مدینہ منورہ سے دور کون ہے؟ حضور ﷺ کے غلام تو دوری میں رہ کر بھی حضوری کی کیفیتوں میں ڈوبے رہتے ہیں۔

کتنا بڑا کرم ہے یہ میرے حضورؐ کا
پورا غریبِ شہر کا ارمان ہوگیا

شہرِ سیالکوٹ میں رہتے ہوئے ریاضؔ
ہر روز حاضری کا بھی سامان ہوگیا

ایک اور شعر عرض کرتا ہوں:

دیدارِ مصطفیؐ کی تمنا لیے ہوئے
روزِ ازل سے ایک پرندہ سفر میں ہے

زمینی فاصلوں کی اگرچہ کوئی حیثیت نہیں تاہم جب حوادث چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں، اپنوں کی ناانصافیاں اور چیرہ دستیاں حد سے تجاوز کرنے لگتی ہیں اور تضحیک و تحقیر کے نشتر روح میں اتر جاتے ہیں تو نظریں جانب مدینہ اٹھ جاتی ہیں، دل پکار اٹھتا ہے:

بے حد اداس آپؐ کا شاعر ہے یانبیؐ
اس مخمصے میں ہے کہ کرے بھی تو کیا کرے

آنگن کے زرد پیڑوں کی شاخوں پہ رات دن
آقاؐ! شفیق لمحوں کی بارش خدا کرے

کیا آپ کو حرمین شریفین اور روضہ رسول ﷺ پر حاضری کی سعادت حاصل ہوئی؟ کیا مدینہ منورہ میں حاضری کے موقعہ پر آپ نے نعت لکھی یا پیش کی؟ اس لمحۂ خاص کے محسوسات سے مستفید فرمائیں۔

جی ہاں، 1985ء میں مجھے عمرہ کی ادائیگی کی سعادت حاصل ہوئی اور عمرہ کی ادائیگی کے بعد اپنے آقا کی بارگاہ میں حاضری کا اعزاز ملا۔ مدینہ منورہ کا سفر میں نے ہوائی جہاز کے ذریعہ طے نہیں کیا، سر کے بل حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہونے کی آرزو تھی لیکن اپنا یہ مقدر کہاں! مدینہ منورہ کا سفر بذریعہ بس طے ہوا۔یہاں عطا الحق قاسمیؒ کا یہ شعر یاد آرہا ہے۔

تو نے کچھ بھی تو دیکھنے نہ دیا
اے مری چشم تر مدینے میں

حضور رحمت عالم ﷺ کی بارگاہ بیکس پناہ میں حاضری سے قبل ایک نعت ’’حضور ﷺ حاضر ہے ایک مجرم‘‘ یہ نعت میرے اولین نعتیہ مجموعے ’’زرِ معتبر‘‘ میں شامل ہے۔مواجہہ شریف میں دست بستہ کھڑے ہوکر آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں یہ نعت پیش کی، در اقدس پر میں نے تو الفاظ کی بیساکھیاں بھی ٹوٹتے ہوئے دیکھی ہیں۔ میں ستونوں کے پیچھے چھپ رہا تھا۔ جالیوں کے سامنے آنے کی جرأت نہیں ہورہی تھی۔ اشک احتراماً زمین پر گرنے نہیں پارہے تھے۔ یہ نعتیہ نظم ہی نہیں، آنے والے دنوں میں ’’زر معتبر‘‘ میں شامل تقریباً سارا کلام حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ میں اپنے ساتھ تقریباً ساڑھے تین سو شعرا کا ایک ایک نعتیہ شعر ڈائری میں لکھ کر اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ یہ تمام اشعار شعرا کا نام لے لے کر آقا حضور ﷺ کی بارگاہ میں پیش کیے۔ چاند رات مدینہ منورہ پہنچا تھا۔ صبح عیدالفطر تھی، نماز عید کی ادائیگی کے بعد آقائے کائنات ﷺ کی بارگاہ میں حاضری ہوئی۔ ایک روز باب جبریل کے باہر حضور ﷺ کے قدمین شریفین کی طرف بیٹھا تھا۔ ایک نعت ہوئی جس کی ردیف ہے ’’قدموں میں بیٹھ کر‘‘۔ میرے ساتھ ایک بزرگ بھی تشریف فرما تھے، لباس اور چہرے مہرے سے پاکستانی نظر آرہے تھے،ان کی ہچکی بندھی ہوئی تھی۔ میری آنکھیں بھی چھلک پڑیں۔ میں نے ان کے گھٹنے پر ہاتھ رکھتے ہوئے رندھی ہوئی آواز میں آہستہ سے کہا بابا جی! ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ اپنے حضور ﷺ کے قدموں میں بیٹھے ہیں۔ میرا یہ کہنا تھا کہ ضبط کا ہر بندھن ٹوٹ گیا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ کر دیر تک روتے رہے۔ یا اللہ! کیا ہم واقعی گنبد خضرا کی چھائوں میں بیٹھے ہیں۔ اے بخت رسا! آ میں تیری بلائیں لوں، آتجھے میں اپنے سینے سے لگا لوں، آ مل کر حضور ﷺ کے قدموں میں اپنا سب کچھ نثار کریں۔ میں اپنا سفر نامہ ’’لبیک یارسول اللہ لبیک‘‘ کے نام سے لکھ رہا ہوں۔ اس کے بعض حصے نوائے وقت اور دیگر جرائد میں شائع بھی ہوچکے ہیں۔

٭ نعت میں سیرت نگاری اور سراپا نگاری دو اہم ترین موضوع ہی نہیں بلکہ دو مختلف رویے بھی ہیں۔ آپ دونوں میں سے کس کے حق میں ہیں یا اعتدال کو کیسے محسوس کرتے ہیں؟

سیرت نگاری اور سراپا نگاری نعت کے دو اہم ترین موضوع ضرور ہیں لیکن یہ دو مختلف رویے ہرگز نہیں، ایک ہی ذاتِ اقدس کے ظاہری اور باطنی اوصاف کا بیانِ دل پذیر ہے۔ دونوں میں سے ایک کا انتخاب؟ بات سمجھ میں نہیں آسکی۔ مجھے دونوں موضوعات عزیز ہیں۔ اعتدال والی بات بھی سمجھ میں نہیں آسکی۔

٭ آپ نے نعت میں موضوع یا فن کے حوالے سے جو نیا کام کیا ہے۔ وضاحت سے بیان کریں۔

اپنے بارے میں کیا عرض کروں، بھائی! یہ میرا منصب نہیں، اظہارِ عجز کے سوا کیا عرض کرسکتا ہوں۔

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

عمر بیت چلی ہے لیکن کوئی کام بھی ڈھب سے نہ کرسکا۔ اظہار کے لیے غزل کی ہیئت کو اپنایا ہے، نظم معریٰ میں بھی خاصے تجربے کئے ہیں، آزاد نظم کی ہیئت میں بھی نعت کہی ہے۔ قطعہ نگاری کی طرف بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ نعت میں ہر قسم کے موضوع کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ بیسویں صدی کی آخری طویل نعتیہ نظم (تمنائے حضوری) اور اکیسویں صدی کی پہلی طویل نعتیہ نظم (سلامٌ علیکَ) کہنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ یہ دونوں نظمیں الگ ایک کتابی صورت میں شائع ہوچکی ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی مسائل و مصائب جدید اردو نعت کا موضوع ہیں اور میری نعت بھی انہی حوالوں کی آئینہ دار ہے اور یوں ان گنت موضوعات اقلیم نعت میں در آئے ہیں۔

٭ آپ نعت خوانی اور نعت گوئی میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟ کیا آپ کو نعت خوانی (ترنم سے) کی سعادت بھی حاصل ہے۔ اگر ایسا نہیں تو اس کمی کو آپ کیسے محسوس کرتے ہیں؟

نعت خوانی اور نعت گوئی دو الگ الگ فنون ہیں اگرچہ ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔نعت سرائی یا نعت خوانی ترنم سے نعت پڑھنے کو کہتے ہیں اور نعت گوئی نعت کہنے کو کہتے ہیں۔ بعض خوش قسمت افراد کو دونوں فنون پر عبور حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً اعظم چشتی، محمد علی ظہوری، مظفر وارثی، سید صبیح رحمانی وغیرہ لیکن نعت کے اکثر شعرا تحت اللفظ ہی پڑھتے ہیں، ترنم سے نعت پڑھنے کی کمی کبھی محسوس نہیں ہوئی۔

٭ فروغ نعت کے حوالے سے آپ نے ذاتی یا اجتماعی سطح پر کیا خدمات انجام دی ہیں؟

تہی دامنی کے احساس کے سوا دامن میں کچھ بھی نہیں۔

٭ نعت گوئی کی وجہ سے کسی بھی سطح پر کوئی ایوارڈ ملا ہو تو بتائیں۔

میرے دوسرے نعتیہ مجموعہ ’’رزق ثنا‘‘ پر حکومت پاکستان نے صدارتی اور حکومت پنجاب نے سیرت ایوارڈ دیا تھا۔ اس کے علاوہ سیرت سٹڈی سنٹر سیالکوٹ، تحریک منہاج القرآن اور دیگر تنظیمات کی طرف سے مختلف اوقات میں ایوارڈز ملتے رہے۔ بعض ایوارڈز کی اطلاع تو بذریعہ اخبار ملتی ہے۔لیکن اصل ایوارڈ تو وہ ہے جو دربار رسالت مآب ﷺ سے عطا ہو۔ اہل محبت کی محبتوں کا اظہار بھی تو کسی ایوارڈ سے کم نہیں۔

٭ نعت گوئی کے حوالے سے اپنے اساتذہ کرام کے بارے میں بتائیں؟

استاد مکرم حضرت آسی ضیائی، ان سے نیاز مندی اور شاگردی کا عرصہ تقریباً 45 برسوں پر محیط ہے۔ مرے کالج سیالکوٹ میں ہم ان سے ’’طلسم ہوشربا‘‘ سبقاً سبقاً پڑھا کرتے تھے۔ آج کل لاہور میں منصورہ کے قریب رہائش پذیر ہیں۔ میں ان سے مسلسل رابطے میں ہوں اور ان سے باقاعدہ اصلاح لیتا ہوں۔ لاء کالج لاہور میں جب شبیر انصاری اب مولانا شبیر انصاری میرے ہم جماعت بنے تو کچھ عرصہ آغا صادق مرحوم سے بھی فنی مشورے لیتا رہا ہوں۔

٭ نعت گوئی کے حوالے سے اپنی زندگی کا ایسا واقعہ جسے آپ بیان کرنا چاہیں؟

خواب میں دیکھا کہ میں شہرِ حضور ﷺ میں ہوں۔ علامہ محمد یعقوب خان کے بیٹے مختار احمد میرے ساتھ ہیں اور ہم اس شہرِ خنک کی گلیوں میں گھوم پھر رہے ہیں۔ خواب کے عالم میں نعت کا ایک شعر ہوا۔ جب بیدار ہوا تو وہ شعر میری زبان پر تھا جسے میں نے فوراً نوٹ کرلیا:

جی بھر کے ترے شہر کی گلیوں کو تو دیکھا
پر آنکھیں مری پیاسی کی پیاسی رہیں پھر بھی

٭ نسل نو کے لیے اپنے پیغام سے نوازیں؟

حضور ﷺ کے در سے ٹوٹے ہوئے غلامی کے رشتے کو از سرِ نو استوار کرلیجئے عظمتِ رفتہ کی بحالی کا خواب خود بخود شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔