دے مجھے آبِ خنک، آبِ رواں، آبِ شفا- لامحدود (2017)

مَیں ترے در پہ ہوں مانندِ حروفِ التجا
اس مصیبت کی گھڑی میں کر مدد، میرے خدا

بجھ گئے ہیں آسمانوں پر ستاروں کے چراغ
اس اندھیری رات میں، یارب، مجھے رستہ دکھا

ساحلوں کی روشنی مجھ کو نظر آتی نہیں
کاغذی کشتی ہے میری، سر پہ ہے کالی گھٹا

اک بھروسہ ہے تری ذاتِ مقدس پر مجھے
مَیں مصائب کے گھنے جنگل میں تنہا ہوں کھڑا

تشنگی ہونٹوں پہ جم کر رہ گئی ہے آج بھی
دے مجھے آبِ خنک، آبِ رواں، آبِ شفا

میرے سجدوں میں گداز و سوز کی مشعل جلے
دے شعورِ بندگی کی ابتدا و انتہا

لائقِ سجدہ تری ہی ذات ہے ربِ کریم!
حمد کرتے ہیں تری ہر وقت یہ ارض و سما

تو خدائے مہرباں ہے تو خدائے لا شریک
ہر ہتھیلی پر دیے تُو آرزوئوں کے جلا

بت پرستی کی نئی شکلیں بکیں بازار میں
شرک کی یلغار سے تُو اپنے بندوں کو بچا

ہاتھ اٹھّے ہیں مرے بچّوں کے بھی تیرے حضور
چل رہی ہے میری بستی میں ہوائے ناروا

کب تلک محرومیوں کی آگ میں جلتا رہوں
میری کشتِ آرزو میں چاند تارے بھی اگا

رزق پر قابض مہاجن لے اڑے گندم مری
میرے اشکوں سے بھرے رہتے ہیں دامانِ صبا

دے مجھے صدقہ رسولِ محتشمؐ کا آج بھی
دے مجھے اُنؐ کی محبت کے چمن زارِ وفا

سرحدِ ادراک پر ہو آفتابوں کا ہجوم
کر شعور و آگہی سے میری کھیتی کو ہرا

التجا ہے تیرے دربارِ مقدس میں مری
خاکِ طیبہ سے کفن میرا بنے میرے خدا

امن کی اک فاختہ بھی آشیانوں میں نہیں
خون آلودہ، شبِ مقتل کا ہے بندِ قبا

اجتماعی خود کشی کے ہیں رضا مندی کے دن
ہوش کے ناخن امیرِ قافلہ کو کر عطا

درد و غم کی ایک دنیا ہے تعاقب میں مرے
میں اذیّت کی ہوں اس گھاٹی میں کب سے بے ردا

بہہ رہے ہیں میرے دریا کب سے پانی کے بغیر
خشک سالی کے سمندر میں ہے ہر حرفِ دعا

کل بھی مَیں محتاج تھا اور آج بھی محتاج ہوں
کیا مری اوقات، یارب! کیا مری جھوٹی انا

کب مجھے معلوم تھا شہرِ سیاست کے یہ لوگ
جرمِ ناکردہ کی بھی اتنی کڑی دیں گے سزا

در مقفل کر لئے ہیں پادشاہوں نے مگر
تیری رحمت کا ہے دروازہ ہمیشہ سے کھُلا

مَیں مفاداتِ جدیدہ کے ہوں زنداں میں ابھی
مَیں ریاضِ بے نوا شاعر ترے محبوبؐ کا

اُنؐ کے در کا ایک ادنیٰ سا بھکاری ہے ریاضؔ
نعمتیں تقسیم تیری کر رہے ہیں مصطفٰےؐ

٭

نئے چراغ ہتھیلی پہ آج بھی دھر دے
مرے خدا مرے آنگن میں روشنی بھر دے