ہوس کی آگ کو گوٹھوں گرائوں سے پرے رکھنا- لامحدود (2017)

یزیدِ عصرِ نو کی کربلائوں سے پرے رکھنا
مصائب کے جلے پیڑوں کی چھائوں سے پرے رکھنا

سرِ بازار بولی میرے ایماں کی لگائیں گے
خدائے مصطفی! جھوٹے خدائوں سے پرے رکھنا

مجھے پھر روشنی کے سات رنگوں کی ضرورت ہے
مرے جلتے چراغوں کو ہوائوں سے پرے رکھنا

تلاشِ امن میں نکلا ہوا ہے قافلہ میرا
اسے کاغذ کی نیلی فاختائوں سے پرے رکھنا

نہیں جن میں خلوصِ دل کی شامل روشنی، یارب!
منافق رہبروں کی اُن دعائوں سے پرے رکھنا

میرے پیارے وطن کی خاک میں لاکھوں جواہر ہیں
ہوس کی آگ کو گوٹھوں گرائوں سے پرے رکھنا

انہیں اذنِ سفر بنجر زمینوں کی طرف دے کر
غریبوں کے گھروندوں کو گھٹائوں سے پرے رکھنا

شگفتہ پھول مہکیں ان کے آنگن کی فضائوں میں
مری بستی کے لوگوں کو وبائوں سے پرے رکھنا

جہاں سنگین سنّاٹے ہمیشہ چھائے رہتے ہیں
مری آبادیوں کو اُن خلائوں سے پرے رکھنا

شعور و آگہی آدم کی نسلوں کا مقدر ہے
انہیں اوہام اور کالی بلائوں سے پرے رکھنا

جزیروں میں مقید ہو رہی ہے ملتِ بیضا
اسے، یارب، مسلسل انخلائوں سے پرے رکھنا

مرے بچوں کے اس چھوٹے سے گھر کو اے خدا میرے
کسی مجہول انساں کی انائوں سے پرے رکھنا

مجھے پہلے ہی کچلا جا چکا ہے قید خانے میں
عدوئے جاں کی مقتل میں جفائوں سے پرے رکھنا

مرے افکارِ تازہ کو بھی ربِ حرفِ تابندہ!
غبارِ شام میں جلتی چتائوں سے پرے رکھنا

مجھے شفاف موسم میں عطا کرنا نئے سورج
کسی تاریک جنگل کی فضائوں سے پرے رکھنا

سماعت پر ازل سے سنگ باری ہوتی رہتی ہے
کسی جنگل کی آوارہ صدائوں سے پرے رکھنا

عدو کے سامنے جو رقص کرتے ہیں عقیدت سے
مرے لوگوں کو اُن خواجہ سرائوں سے پرے رکھنا

نظامِ کفر اپنے ہی صنم خانوں میں جل جائے
بتانِ عصرِ نو کی التجائوں سے پرے رکھنا