میری آنکھو! مدینے میں برسا کرو- ریاض حمد و نعت

میری آنکھو! مدینے میں برسا کرو
آنسوؤں پر مرا نام لکھا کرو

حاضری کی تمنا بجا سب، مگر
اپنی اوقات میں رہ کے سوچا کرو

نعت پڑھتے ہوئے میرے سرکارؐ کی
خوشبوئو! میری سانسوں میں اترا کرو

زائرو! ڈھونڈنا ہو مجھے تو سنو!
اپنے قدموں تلے مجھ کو ڈھونڈا کرو

اُنؐ کی یادوں کی خوشبو کی محراب میں
پھول بن کر سرِ شام مہکا کرو

میرے بچّو! نبی جیؐ کا ہے یہ عمل
اوڑھ کر عجز بستی میں نکلا کرو

اشک ہائے ندامت کی برسات میں
میل اندر کے انساں کا دھویا کرو

اذنِ ربی سے ہر روشنی کے لیے
جانبِ شہرِ سرکارؐ دیکھا کرو

آنکھ ہو باوضو تو مرے ہمسفر!
شہرِ طیبہ کی گلیوں میں گھوما کرو

اے دلِ مضطرب یہ ہے سوئِ ادب
اس قدر زور سے بھی نہ دھڑکا کرو

خاکِ طیبہ سجا دو ہر اک طاق میں
آج بھی اپنے گھر میں اجالا کرو

تلخ ہیں سب زمینی حقائق تو کیا
زورِ بازو پہ اپنے بھروسہ کرو

کنجیاں ہر خزانے کی رکھے ہیں وہؐ
اپنے آقاؐ سے ہر چیز مانگا کرو

جالیوں سے لپٹ کر جو لوٹے نظر
فرطِ حیرت سے آنکھوں کو چوما کرو

پھول کرنوں کے شاخوں پہ رکھتے ہوئے
جگنؤو! میرے آنگن میں چمکا کرو

مجھ سیہ کار کو، مجھ خطا کار کو
عالمِ بے خودی میں سنبھالا کرو

نعت اترے زباں پر تو ہوتا ہے کیا
چشمِ تر سے مرا حال پوچھا کرو

جاں نثاری کی تاریخ لکھّو نئی
عشق سرکارؐ سے بے تحاشا کرو

ذکرِ میلادِ سرکارؐ کرتے ہوئے
سرمدی کیف و مستی میں ڈوبا کرو

شہرِ طیبہ سے آتی ہوائو ذرا
قصرِ دل کے دریچوں میں ٹھہرا کرو

سر جھکائے ہوئے، منہ چھپائے ہوئے
شہرِ آقاؐ کی گلیوں سے گذرا کرو

احتراماً کبھی اے عروسِ غزل
میرے اشکِ تمنا میں سلگا کرو

تم ریاضؔ اپنے آقاؐ کے ہو نعت گو
پیرہن آرزوئوں کا بدلا کرو

ثلاثی

درست سمت میں جاری رہے سفر، آقاؐ
بھٹک نہ جائوں کسی گم شدہ جزیرے میں
صراطِ عشق پہ چلنا مرا مقدّر ہو

*