ریاضؔ کے ہاں قلم کا اِستعارہ- ریاض حسین چودھریؒ کی نعت نگاری

خالقِ کائنات کا نظامِ لوح و قلم ابتدائے آفرینش سے کائنات کی وسعتوں میں جاری و ساری ہے۔ اس پر قرآن حکیم کی قاطع دلیل سورہ ’’القلم‘‘ کی پہلی آیۂ مبارکہ ’’ن، والقلم وما یسطرون‘‘شاہد ہے۔ یہاں تفسیری مباحث مقصود نہیں مگر مفسرین کی متفقہ آراء میں ’’ما کان وما یکون‘‘ کے مصداق جو لکھائیاں لکھی جا چکی ہیںیا جو احاطۂ تحریر میں لائی جا رہی ہیں اور جو لکھی جانے والی ہیں، ’’ قدرت کا قلم‘‘ اُن سب لکھائیوں کو محیط ہے۔ حکمِ الٰہی کے مطابق سب کچھ لکھا جا چکا اور لکھا جا رہا ہے۔

یہاں ہمیں مطالعہ کرنا ہے کہ جن ارواحِ صالح کو اللہ کے اذن سے تخلیقی قلم عطا ہوتا ہے اُس کی لکھائیوں میں قدرت کے قلم کا فیض کیسے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ علامہ اقبال ؒنے تو وجودِ مصطفی ﷺ کو’’ قلم‘‘ قرار دیتے ہوئے’’ قلم‘‘ کی عظمت کو چار چاند لگا دئیے :

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

اس ایک شعر ہی کو اگر ذہن میں رکھ کر سوچا جائے تو ’’وما یسطرون ‘‘ کے مفاہیم و مضمرات قلب و نظرمیں نورِ ایمان کے ا جالے برساتے نظر آئیں گے۔

قدرت کا نظامِ لوح و قلم اور اس کے مظاہر کو جاننے اور سمجھنے سے ہمیں ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ کی الوہی نعت کی تفہیمات کا ادراک فراوانی سے ملتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے چند مثالیں اس مضمون کے مقصود کو یقیناً آگے بڑھائیں گی۔ خالقِ حرف و نطق نے ’’قلم‘‘ کی قسم کھائی ہے اور پھر اُس کی قسم کھائی ہے جو لکھنے والوں نے لکھ دیا، لکھ رہے ہیں اور لکھتے رہیں گے۔ یہ الوہی نظامِ تحریر کیسے کام کرتا ہے اس کو سمجھنے سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ارواحِ خلاق جنہوں نے قلم کو تھاما، انہوں نے کیا لکھا، کیسے لکھا اور کتنا لکھ دیا اور کیا اس کا لائحۂ عمل ہمارے حیطۂ ادراک میں آتا ہے یا ورائے ادراک ہے۔ ذیل میں اس کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں :

1۔ علامہ اقبالؒ کا شعری تجربہ

علامہ اقبالؒ کے تخلیقی، لسانی، اور شعری الہام کی کیفیات اِس تصور کو سمجھنے کے لیے ایک نہایت خوبصورت مثال ہے۔ اُن کا ذکر فقیر سید وحید الدین نے اپنی معرکہ آراء کتاب ’’روزگارِ فقیر‘‘ کے حصہ اول میں کیا ہے۔ کتاب کے اندر ونی صفحات کے علاوہ بھی یہ واقعہ آغازِ کتاب میں مولانا صلاح الدین احمد کے تبصرے کی شکل میں موجود ہے جو انہوں نے 1950ء میں ریڈیو پاکستان سے پیش کیا تھا۔ یہ واقعہ کچھ یوں ہے :

مصنف لکھتے ہیں : ’’ڈاکٹر صاحب آپ شعر کیسے کہتے ہیں؟ فرمایا : ایک مرتبہ فارمن کرسچن کالج لاہور کا سالانہ اجلاس ہو رہا تھا۔ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر لوکس نے مجھے بھی اس میں شرکت کی دعوت دی۔ پروگرام ختم ہونے کے بعد چائے کا بند و بست کیا گیا تھا۔ ہم لوگ چائے پینے بیٹھے تو ڈاکٹر لوکس میرے پاس آئے اور کہنے لگے چائے پی کے چلے نہ جانا۔ مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ ہم لوگ چائے پی چکے تو ڈاکٹر لوکس آئے اور مجھے اپنے ساتھ ایک گوشے میں لے گئے اور کہنے لگے : اقبال! مجھے بتاؤ کہ تمہارے پیغمبر پر قرآنِ حکیم کا مفہوم نازل ہوا تھااور چونکہ انہیں صرف عربی زبان آتی تھی، انہوں نے قرآن کریم عربی میں منتقل کر دیا یا یہ عبارت ہی اس طرح اتری تھی؟‘‘ میں نے کہا : ’’یہ عبارت ہی اتری تھی۔‘‘ ڈاکٹر لوکس نے حیران ہو کر کہا کہ ’’اقبال! تم جیسا پڑھا لکھا آدمی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ یہ عبارت ہی اس طرح اتری ہے؟‘‘

میں نے کہا :

’’ڈاکٹر لوکس! یقین؟ میرا تجربہ ہے مجھ پر شعر پورا اترتا ہے تو پیغمبر پر عبارت کیوں نہیں پوری اتری ہو گی؟‘‘

یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ جب شعر کہنے کی کیفیت مجھ پر طاری ہوتی ہے تو یہ سمجھ لو کہ ایک ماہی گیر نے مچھلیاں پکڑنے کے لئے جال ڈالا ہے۔ مچھلیاں اس کثرت سے جال کی طرف کھنچی چلی آ رہی ہیں کہ ماہی گیر پریشان ہو گیا ہے۔ سوچتا ہے کہ اتنی مچھلیوں میں سے کسے پکڑوں اور کسے چھوڑدوں؟ نزول کچھ اس رفتار سے ہوتا ہے کہ خدشہ دامن گیر رہتا ہے کہ مبادا ہاتھ ساتھ نہ دے اور کلام کا کچھ حصہ لکھا نہ جا سکے۔‘‘

مَیں نے پوچھا :

’’کیا آپ پر یہ کیفیت ہمیشہ طاری رہتی ہے؟‘‘ وہ کہنے لگے’’، نہیں یہ کیفیت تو مجھ پر سال بھر میں ایک یا دوبار طاری ہوتی ہے لیکن فیضان کا یہ عالم کئی کئی گھنٹے رہتا ہے اور میں بے تکلفی سے شعر کہتا جاتا ہوں۔ پھر عجیب بات یہ ہے کہ جب طویل عرصے کے بعد یہ کیفیت طاری ہوتی ہے تو پہلی کیفیت میں کہا گیاآخری شعر دوسری کیفیت کے پہلے شعر سے مربوط ہوتا ہے۔ گویا اس کیفیت میں ایک تسلسل بھی ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ یہ فیضان کے لمحے در اصل ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب یہ کیفیت ختم ہو جاتی ہے تو میں ایک قسم کی تکان، عصبی اضمحلال اور پژمردگی سی محسوس کرتا ہوں۔‘‘

تھوڑی دیر توقف کے بعد کہنے لگے کہ ایک مرتبہ چھ سال تک مجھ پر کیفیت طاری نہ ہوئی تو میں یہ سمجھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ سے یہ نعمت چھین لی ہے۔ چنانچہ اس زمانے میں مَیں نے نثر لکھنے کی طرف توجہ کی۔ یک بیک ایک روز پھر یہی کیفیت طاری ہو گئی۔ ان لمحوں میں میری طبیعت ایک عجیب لذت محسوس کرر ہی تھی۔ بس ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اشعار کا ایک بحرِ مواّج ہے کہ امڈا چلا آتا ہے، یہ کیفیتِ سرور و نشاط اتنی دیر تک قائم رہی کہ اس نے چھ سات سال کے جمود و تعطل کی تلافی کر دی۔‘‘

یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کے لئے رک گئے۔ ان کے چہرے سے معلوم ہو تا تھا کہ وہ خیالات میں کھوئے ہوئے تھے۔ پھر اچانک کہنے لگے :

’’مشہور جرمن شاعر گوئٹے کے متعلق ایک کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ جب اس نے جرمن زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا تو اس نے اپنے بعض دوستوں سے کہا کہ میں یہ کتاب پڑھتا ہوں تو میری روح میرے جسم میں کانپنے لگتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ شاعر کو بھی ایک قسم کا الہام ہوتا ہے۔ اس لئے وہ جب بھی کوئی الہامی کتاب پڑھتا ہے تو اپنی روح کو اس کی معنویت سے ہم آہنگ پاتا ہے۔ اور اس کی طبیعت ایک خاص اہتزاز محسوس کرتی ہے۔ یہ چیز دوسرے لوگوں کو نصیب نہیں ہو سکتی۔‘‘

علامہ محمد اقبالؒ کے قلم کوحاصل ’’والقلم‘‘ کا فیض اظہر من الشمس ہے۔

2۔ پیر مہر علی شاہ صاحبؒ اور تفسیر نویسی کا چیلنج

پیر مہر علی شاہ ؒ کے حوالے سے بھی ایک واقعہ ’’ن، والقلم وما یسطرون‘‘ کے مصداق قدرت کے قلم کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ کا شمار ان نابغہ روزگار ہستیوں میں ہوتا ہے جو احیائے اسلام اور تجدید دین کے باعث محی الدین تھے۔ آپ علم و عرفان اور شریعت و طریقت، دونوں میں جامع تھے۔ قدرت نے انھیں تحفظ ختم نبوت اور فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے بطور خاص تیار کیا تھا۔ 1890ء میں حضرت قبلہ پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ نے مستقل طور پر مدینہ طیبہ میں سکونت پذیر ہونے کا ارادہ کر لیا۔ لہٰذا اس غرض سے حج کا سفر کیا۔ مدینہ طیبہ میں حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضری کے بعد بہت خوش ہوئے کہ اب زندگی کی باقی تمام بہاریں گنبد خضراء کی ٹھنڈی چھاؤں تلے گزاریں گے۔ اسی روز حضور نبی کریم ﷺ پیر مہر علی شاہؒ کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا : مہر علی ہندوستان میں مرزا قادیانی میری احادیث کو تاویل کی قینچی سے ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے اور تم خاموش بیٹھے ہو۔ واپس جاؤ اور اس فتنہ کا سدباب کرو۔

حضور نبی کریم ﷺ اپنے ایک امتی کو حکم دے کر قادیانی فتنہ کی سرکوبی کے لیے واپس ہندوستان بھیج رہے ہیں۔ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ تحفظِ ختمِ نبوت کا کام ایک ایسے سرمائے کی مثل ہے جو کسی فیض رساں تجارت میں لگا دیا جائے تو اس سے ہمیشہ اس کا منافع ملتا رہے اور دوسری اہم بات یہ کہ تحفظِ ختمِ نبوت کے کام کی سرپرستی اور نگرانی براہ راست حضور نبی کریم ﷺ خود فرماتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر خود راہنمائی بھی فرماتے ہیں۔

چنانچہ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ واپس ہندوستان تشریف لائے اور فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ پیر صاحب نے نہ صرف مسلمانوں کو اس فتنہ کی شر انگیزیوں سے آگاہ کیا بلکہ قادیانیت کی تردید میں کئی ایک کتب بھی تحریر فرمائیں جن میں قادیانی عقائد و عزائم کا منہ توڑ جواب دیا۔ آپ کی بھرپور کوششوں سے مرزا قادیانی حواس باختہ ہو گیا اور کہا کہ بادشاہی مسجد لاہور میں میرے ساتھ تفسیر نویسی کا تحریری مناظرہ کر لیں۔

پیر صاحب نے جواباً فرمایا کہ ممکن ہے اس طرح مناظرہ میں فیصلہ نہ ہو سکے۔ ایک کاغذ پر قلم تم رکھ دو اور ایک کاغذ پر قلم مَیں رکھ دیتا ہوں۔ جس کا قلم خود بخود لکھنا شروع کر دے، وہ سچا اور جس کا قلم پڑا رہے وہ جھوٹا۔ پھر فرمایا کہ اگر یہ بھی منظور نہیں تو تم حسب وعدہ، شاہی مسجد میں آؤ، ہم دونوں اس کے مینار پر چڑھ کر چھلانگ لگاتے ہیں، جو سچا ہوگا، وہ بچ جائے گا اور جو کاذب ہوگا، وہ مر جائے گا۔ مرزا قادیانی نے جواب میں اس طرح چپ سادھی کہ گویا دنیا ہی سے رخصت ہو گیا۔ قلم کا خود تفسیر لکھنا شروع کر دینے کا دعویٰ ایک ولی کامل کی اُس روحانی استعداد کا مظہر ہے جو اُسے رسولِ محتشم ﷺ کے درِ عطا و سخا سے مرحمت کی جاتی ہے اور جو’’ن، والقلم، وما یسطرون‘‘ کے فیضِ ربانی کی حقیقتِ صادقہ ہے۔

تحفظِ ختمِ نبوت کے لیے پیر صاحب کی یہ رجز خوانی تیرہ سو سال کے اولیا و مشائخ کی روحانی قوتوں کا فیضان تھا اور نہ جانے کون کون سی ہستیاں آپ کی پشت پناہ تھیں۔ ایک بزرگ حضرت سید چانن شاہ جابہ شریف اس عرصے میں اپنے ایک خواب کی کیفیت بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک فوج کو عَلَم لہراتے دریائے جہلم کے پل پر سے لاہور کی طرف جاتے دیکھا جس میں سے ایک صاحب نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ ہم بغداد شریف سے آ رہے ہیں اور پیر صاحب گولڑہ شریف کی نصرت کے لیے جھوٹے مدعی نبوت مرزا قادیانی کے مقابلے پر لاہور جا رہے ہیں۔

کچھ عرصہ بعد قادیانی جماعت کا ایک وفد حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ ایک اندھے اور ایک اپاہج یعنی لنگڑے کے حق میں آپ دعا کریں، دوسرے اندھے اور لنگڑے کے حق میں مرزا قادیانی دعا کرے۔ جس کی دعا سے اندھا اور لنگڑا ٹھیک ہو جائیں، وہ سچا ہے، اس طرح حق و باطل کا فیصلہ ہو جائے گا۔ پیر صاحب نے جواب دیا کہ یہ بھی منظور ہے۔ مزید مرزا قادیانی سے یہ بھی کہہ دیں کہ اگر مردے بھی زندہ کرنے ہوں تو آ جائے، ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ لیکن مرزا قادیانی کو پیر صاحب کے سامنے آنے کی ہمت نہ پڑی۔

اس پر پیر مہر علی شاہؒ نے فرمایا : یہ دعویٰ میں نے ازخود نہیں کیا تھا بلکہ عالم مکاشفہ میں حضور نبی کریم ﷺ کے جمالِ باکمال سے میرا دل اس قدر قوی اور مضبوط ہو گیا تھا کہ مجھے یقین کامل تھا کہ اگر اس سے بھی کوئی بڑا دعویٰ کرتا تو اللہ تعالیٰ ایک جھوٹے مدعی نبوت کے خلاف ضرور مجھے سچا ثابت کرتے۔ مجھے یقینِ کامل ہے کہ جو شخص تحفظ ختم نبوت کا کام کرتا ہے، اس کی پشت پر نبی اکرم ﷺ کا ہاتھ ہوتا ہے۔

پیر صاحبؒ کا یہ احساس تائیدِ ربانی سے بہرہ ور تھا کیونکہ تحفظِ ختمِ نبوت کی اس جدوجہد میں شروع ہی سے آپ کو حضور سید المرسلین ﷺ کے بے پایاں لطف و کرم کی تجلیات اپنی آغوش میں لیے ہوئے تھیں۔

3۔ وَمَا یَسْطُرُوْن کی مزید وضاحت :

شیخ عبد القادر الجزائری کا درِ رسول پر بلاوا اور قبولیت

حضور نبی کریم ﷺ کے لاکھوں کروڑوں ایسے امتی ہیں جنہیں آپؐ کے درِ رحمت سے نسبت و قربت عطا ہوتی ہے اور وہ انوار و تجلیات کی رم جھم میں زندگی گذارتے ہیں۔ یہ نسبت و ربط و تعلق کیسے وجود میں آتا ہے ہر کسی کے لئے الگ الگ پیمانوں اور الگ الگ صورت احوال میںنمو پاتا ہے۔ شیخ عبدالقادر الجزائریؒ اپنے دور کے بہت بڑے عارف باللہ، عالم، مفسر، شیخ اور انقلابی ہستی ہوئے ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ پر اتنا کرم فرمایا کہ اپنے دور میں ایک ہی وقت میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے قلم میں بھی دسترس عطاکی اور بیان، ابلاغ، فصاحت، انقلابیت، انتظام و انصرام میں بھی۔ وہ مالکی فقہ کے جید علماء میں سے تھے اور تصوف میں شیخ الاکبر محی الدین بن عربیؒ کے پیروکار اور ان کے علوم کے شارح تھے۔ اللہ رب العزت نے شرق اور غرب کو آپ کی سوچ اور فکر پر جمع کردیا تھا۔ آپ کی طبیعت، مزاج اور مشرب کے اندر جامعیت کا فیض تھا جوسرورِ دوعالم ﷺ کے درِ سخا کی خیرات تھا۔ آپ نے اپنے قلم کو دینِ حق کے لئے وقف کر دیا اور علمائے حق میں اپنا نورِ بصیرت بانٹا جب کہ ایک عملی انقلابی مجاہد اور سپہ سالار کی حیثیت سے دشمنان اسلام کے خلاف سالوں بر سرِ پیکار رہے اور فتوحات ان کے قدم چومتی رہیں۔

آپ جذبۂ جہاد کے ساتھ فراست و تدبر کی نعمت سے بھی مالا مال تھے۔ چنانچہ عوام کو اعتماد میں لے کر وسیع ترمشاورت کا سلسلہ قائم کیا۔ اپنی فوج کو وقت کے ہتھیاروں اور جدید ٹیکنالوجی سے مسلح اور منظم کر کے سولہ سال تک فرانسیسی فوجوں کے خلاف بر سر پیکار رہے اور انہیں مسلسل شکست فاش دیتے رہے اور ایک بڑے علاقے کا کنٹرول حاصل کر کے امارت شریعہ کا نظام قائم کیا۔ پھرآپ خلافت عثمانیہ کی ہدایت پر دمشق آ گئے اور وہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ اللہ کریم نے انہیں تحریر و تقریر اور فصاحت و بلاغت کا خزانہ عطا کر رکھا تھا۔ زبان و قلم کے ماہر تھے اور علماء کو قدیمیت اور جدیدیت کے امتزاج پر یکسو رکھتے۔

درِ رسول ﷺ پر حاضری کا بلاوا

امام نبہانی جواہر البحار میں شیخ عبدالقادر الجزائریؒ پر ایک باب قائم کرتے ہوئے ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ آپ کی علمی اور جہادی خدمات کو ایک طویل عرصہ گذر گیا اور آپ امت مسلمہ کی خدمت میں بہت مصروف ہوگئے۔ مگر آپ کا درِ مصطفیٰ ﷺ سے جڑا ہوا دل ترستا رہا کہ بلاوا آئے اور میں بارگاہ رسالت ﷺ میںحاضر ہوجاؤں۔ انتظار میں رہے کہ کبھی تو مجھے بارگاہ مصطفی ﷺ سے سرکار کے در رحمت سے اشارہ ہو گا اور سوچتے تھے کہ جب تک بلاوا نہ آئے میں حاضری دے نہیں سکتا۔ درِ حبیب ﷺ کے ساتھ وہ کچھ یوں جڑے ہوئے تھے کہ انہیں بلاوے کا یقین عطا فرمایا گیا۔

حاضری کا وقت مقرر ہوا۔ بلاوا آگیا اور آپ حاضر ہوگئے۔ مدینہ منورہ رات کو پہنچے۔ غسل کرکے اپنا نیا جبہ نکالا، دستار پہنی اور تیاری کے ساتھ خوشبو لگا کر تہجد کے وقت سرکار دو عالم، سید کون و مکاں ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ روضۂ اقدس پر قدمَین شریف کی طرف سے حاضرہوتے ہوئے آپ رک گئے اور دہلیز مبارک کے اندر قدم نہ رکھا اور وہیں تصویر ادب بن کرکھڑے ہوگئے۔ ہاتھ باندھ کے آنکھیں بند کرکے اس خوبصورت دستارکے ساتھ لباس کے ساتھ کیفِ حضوری میں فی البدیہہ اشعار کہنے لگے۔ راوی کے مطابق ستائش رسولِ محتشم ﷺ کا ایک سمندر تھا جو خوبصورت تراکیب، الفاظ و استعارات کا جامہ پہنے بے کراں ہو رہا تھا۔ عشقِ رسول کا دھارا اشعار مدحت پہن کر ایسی رفتار سے بہہ رہا تھا جیسے توصیف و ستائش کا ایک چشمہ پھوٹ پڑا ہو اور آبشارِ مدحت براہ راست شیخ الجزائریؒ کے ہونٹوں سے رواں دواں ہو۔ ان اشعار کو توقف نصیب نہیں ہورہا تھا اور حضور ﷺ کی مدحت کے سمندر میں ایک تلاطم بپا تھا۔

حاضری کے مناظر

امام عبد القادر الجزائری نے اپنی اس حاضری کے جو مناظر بیان کئے، امام نبہانی نے انہیں (جواھر البحار مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت میں صفحہ 206 پر) اس طرح نقل فرما یا ہے :

أني لما بلغتُ المدینۃ طیبۃ، وقفت تجاہ الوجہ الشریف بعد السلام علیہ ﷺ وعلی صاحبیہ، الذین شرفہما اللہ تعالی بمصاحبتہ حیاۃ وبرزخًا، وقلت : یا رسول اللہ ﷺ، عبدک بباک یا رسول اللہ ﷺ، کلبک بأعتابک، یا رسول اللہ ﷺ، نظرۃ منک تغنیني یا رسول اللہ ﷺ، عطفہ منک تکفینی. فسمعتہ ﷺ یقول لی : أنت ولدي ومقبول عندہ بہذہ السجعۃ المبارکۃ۔

بے شک جب میں مدینہ طبیہ میں پہنچا تو نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صاحبین (یعنی سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر k) پر سلام کرنے کے بعد مواجہ شریف کی جانب کھڑا ہوا، وہ دو ہستیاں جن کو اللہ رب العزت نے نبی اکرم ﷺ سے ظاہری زندگی اور برزخی زندگی میں معیت کے شرف سے ساتھ نوازا ہے۔ میں نے پھر عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ، آپ کا غلام آپ کے دروازے پر آیا ہے، یارسول اللہ ﷺ، آپ کا سگ آپ کی چوکھٹ پر حاضر ہے۔ یا رسول اللہ ﷺ آپ کی ایک نظر مجھے (دنیا ومافیہا) سے غنی کر دے گی۔ یارسو ل اللہ ﷺ، آپ کی طرف سے کرم مجھے کافی ہوگا۔ پس میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سُنا : ’’تو اس مبارک گھڑی میں میرا مقبول بیٹا ہے۔‘‘

امام نبھانی فرماتے ہیں کہ امام عبدالقادر الجزائری کی آنکھیں بند تھیں اور آنسو بہہ رہے تھے کہ آقا ﷺ کی جالی مبارک سے آواز آئی۔ آپ ﷺ کے لحنِ نور کے کلمات یہ تھے :

یا عبد القادر انت مقبول عندنا فی ہذہ السجع۔

اے عبدالقادر! اس مترنم کلامِ توصیف( سجع) میں تم ہماری بارگاہ میں مقبول ہی مقبول ہو۔

امام عبدالقادری الجزائری فرماتے ہیں کہ اس نوید کو سن کر :

ثم جلست تجاہ القدمین الشریفین معتمدا علی حائط المسجد الشرقی أذکر اللہ تعالی فصعقت وغبت عن العالم وعن الأصوات المرتفعۃ في المسجد بالتلاوۃ والأذکار والأدعیۃ. وعن نفسي، فسمعت قائلا یقول : ہذا سیدنا التہامی۔ ۔ ۔ فرفعت بصري في حال الغیبۃ، فاجتمع بہ بصري وہو خارج من شباک الحدید من جہۃ القدمین الشریفین، ثم تقدم إلی الشباک الآخر وخرقہ إلی جہتہ، وفرأیتہ ﷺ فخما مفخّما، بادنا متماسکا، غیر أن شیبہ الشریف أکثر، وحمرۃ وجہہ أشد مما ذکرہ أصحاب الشمائل۔ فلما دنا مني رجعت إلی حسي، فحمدت اللہ تعالی، ثم جعلت أذکر اللہ تعالی فصعقت کالأولی، فورد عليَّ قولہ تعالی : {إِذَا دُعِیتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا} (الأحزاب : 53)

پھر میں آپ ﷺ کے قدمین شریفین کی طرف شرقی مسجد کی جانب ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور اللہ رب العزت کا ذکر کرنے لگا۔ پس میں نے ایک چیخ ماری اور بیہوش ہوگیا اور پھرجہاں جہاں کی آوازیں جو مسجد میں تلاوت، اذکار اور دعاؤں کے ساتھ بلند ہورہی تھیں، وہ مجھ سے غائب ہوگئیں۔ پس میں نے کسی کو کہتے ہوئے سنا : یہ ہمارے آقا و مولا ہیں۔ پس میں نے عالَم غیبی میں ہی اپنی نظروں کو اٹھایا۔ میری نظریں اُن پر ٹھہر گئیںحالانکہ وہ قدمین شریفین کی طرف سے لوہے کی کھڑکی سے باہر کی طرف تھے۔ پھر وہ ہستی دوسری کھڑکی کی طرف تشریف لائے اور اس کو ایک طرف سے چاک کیا۔ پس میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ بڑی شان والے اور معتدل جسمِ اَقدس والے ہیں اور آپ ﷺ کا بڑھاپا زیادہ ہے اور آپ کا چہرہ مبارک اُس سے بھی زیادہ سُرخ ہے جو اصحابِ شمائل و سیر نے (اپنی کتب) میں ذکر کیا ہے۔ پس جب آپ میرے قریب ہوئے، میں (عالم رؤیت سے) عالم شہود میں آگیا اور میں نے اللہ رب العزت کا شکر ادا کیا، پھر میں اللہ رب العزت کا ذکر کرنے لگا اور پہلے کی طرف پھر چیخ ماری اور بے ہوش ہوگیا۔ پھر مجھ پر اللہ رب العزت کا یہ قول وارد ہوا۔ (جب تم بلائے جاؤ تو (اس وقت)اندر آیا کرو پھر جب کھانا کھا چکو تو (وہاں سے اُٹھ کر) فوراً منتشر ہوجایا کرو)

دیدارِ مصطفی ﷺ کا لمحۂ جاں فروز

حضوری کے عالم میں اضطراب کی کیفیت بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ وہ اپنے آپ سے گم ہوگئے۔ شیخ الجزائریؒ فرماتے ہیں : ’’میں مچل گیا اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکا۔ پیارے آقا ﷺ کی تشریف آوری اور اپنی بارگاہ اقدس میں قبولیت کا مژدہ! مَیں بے تاب ہوگیا! میرے اندر محبت کے ایک طوفان نے مجھے گھیر لیا۔ کیفیت کی شدت اِس آرزو میں بدل گئی کہ حضور ﷺ تشریف لائے ہیں بڑھ کر آپ ﷺ کے نعلین پاک کو چوم لوں۔ میں کبھی آقا علیہ السلام کا سرِ اقدس دیکھ رہا تھا کبھی دستِ اقدس دیکھ رہا تھا۔ کبھی قدمین شریفین دیکھتا اورکبھی لباس مبارک، کبھی دستار مبارک دیکھتا تھا اورکبھی چہرہ والضحٰی، کبھی طہٰ، مزمل اور مدثر کے نورِ رسالت ﷺ کو اپنے قلب و نظر اور روح کی پہنائیوں میں جذب کررہا تھا۔ جیسے ہی بڑھا تو منظر ہٹا لیا گیا۔ پھر یہ آیاتِ قرآنی قلبِ مضطر کو سہلانے گئیں : اذا دعیتم فادخلوا واذا طعمتم فانتشروا : جب دعوت دی جائے، بلاوا آجائے بلا لیا جائے تو اے غلامو! آجایا کرو اور جب ٹکڑے کھلادیئے جائیں تو پھر منتشر ہوجایا کرو، جم کرنہ بیٹھا کرو، یہ بے ادبی ہے۔‘‘

اس کی تفسیر میں یہ سمجھا کہ عبدالقادر جتنے ٹکڑے تیرے نصیب میں تھے اسی میں تیری معرفت تھی، اسی میں تیری بقا تھی، اسی میں ارتقاء اور قبولیت تھی، ادراک تھا، اشاعت تھی، اور اسی میں تیری خدمت دین مصطفی ﷺ تھی۔ جو تجھے ٹکڑے مل گئے سمیٹ لے، سنبھال لے اور اب اسے امت میں تقسیم کر۔ میں اسی لمحے سمجھ گیا کہ میری حاضری قبول ہوگئی۔ یارسول اللہ جو ٹکڑے مل گئے ساری زندگی انہی ٹکڑوں کو امت میں تقسیم کرتا رہوںگا۔

یہ ٹکڑے عشق مصطفیٰؐ کی خیرات تھی جس کے ابلاغ و ترویج کے لئے انہیں طلسمِ نطق بھی عطا ہوا اور قلم کی نعمت بھی۔ جہاد بھی کیا، فرانس کی فوجوں کو بھی تہس نہس کیا، پھر درس و تدریس کی، ایک بڑے علاقے میں امارتِ شریعہ قائم کی، امیر المومنین کا مقام پایا اور دین حق کا پرچار کیا۔ تحمل، یگانگت، عدل و انصاف اور اسلام کی دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ ہم آہنگی اور ان کے مسائل کے حل کے لئے تعلیمات کا عملی نمونہ پیش کیا اوروما یسطرون اور درِ نبی ﷺ سے جو فیض ملا، زبان و قلم سے امت میں بانٹتے رہے۔ اس کا راز صرف عشقِ مصطفیٰ ﷺ ہے جسے نصیب ہو جائے۔

4۔ نعت رنگ اور ’’وما یسطرون‘‘ کے نظارے

’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ کے فرمان کی وسعتوں کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ عصرِ حاضر میںمدح النبی ﷺ ایک روایت سے ایک تحریک اور تحریک سے ایک ایسا تخلیقی انقلاب بن چکی ہے جس کے لئے پوری کائناتِ حرف و صوت کو جولاںگاہ بنایا گیا ہے اور قدرت کا قلم تخلیقِ نعت کے جہانِ تازہ کی آفرینش میں مصروف ہے۔

بیسویں صدی کے آخری ربع کو نعت کے تخلیقی امکانات کا عہد کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس عہد میں نہ صرف تخلیقی امکانات کو فروغ حاصل ہوا بلکہ نعت کے تنقیدی رجحان اور مطالعاتی منہج نے بھی نمایاں طور سے فروغ پایا ہے۔ خصوصاً نعت کی فنی و فکری پرکھ کے لیے برسوں سے مروّج تنقیدی اصولوں کی جگہ نئے تنقیدی نظریات کے تناظر میں مطالعہ نعت کی ضرورت واہمیت کا احساس اجاگر ہوا ہے۔

اس نئے جہان نقد و نظر کو جن عوامل نے وجود بخشا ’’نعت رنگ‘‘ ان سب میں سرِ فہرست ہے۔ سید صبیح رحمانی کی کاوشوں سے شائع ہونے والا یہ شمارہ محض ایک جریدہ نہیں بلکہ فروغ و اشاعتِ نعت کی ایک عالمی تحریک ہے جس کا فروغ و ارتقا منشائے قدرت ہے اور اس کے پھیلاؤ میں اُس غیر مرئی قلم اور ’’ومایسطرون‘‘ کی مشئیت کار فرما ہے جس کی بدولت لوحِ محفوظ کے فیصلے از خود ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں اورزبان و قلم اور حرف و صوت کا طلسم نئے آفاق پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔

گزشتہ دو عشروں سے’’ نعت رنگ‘‘، نعت کے ادبی فروغ کے لیے ہمہ جہت خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ ’’ نعت رنگ‘‘ کی تحریک کے نتیجے میں صنفِ نعت کی تنقید و تحقیق اور تدوین و تخلیق کے حوالے سے جو وقیع کام ہوا ہے وہ اردو زبان و ادب کی تاریخ میں عقیدت نگاری کے باب میں اب تک کی جانے والی متفرق کوششوں کو ایک واضح اور منفرد جہت عطا کرتا ہے۔

پروفیسر اکرم رضا نے صبیح رحمانی کی نعت شناسی کے موضوع پر اپنے جامع مفصل اور مدلل مقالے میں لکھا ہے :

’’سید صبیح رحمانی کا شمار ان خوش بختوں میں ہوتا ہے جنہیں فکر وشعور کی پختگی کی دہلیز پر قدم کھتے ہی حضور رحمتہ للعالمین ﷺ کی تعریف و توصیف کی تجلیات کے وفور سے ذہن و قلم کے ضوبار ہونے کا احساس ہونے لگتا ہے۔ افکار کی گہرائیاں انہیں لا متناہی عالمِ نور میں دیوانہ وار بڑھنے کا حوصلہ بخشتی ہیں۔ آہستہ آہستہ رحمتِ کونین اورسرور کائنا ت ﷺ کا حصارِ نور اپنے وجود میں کھو جانے کا حوصلہ عطا کرنے لگتا ہے۔ صبیح رحمانی کا قلم اور زبان دونوں کہیں رکنے کا نام نہیں لیتے۔ اشہبِ قلم کی روانی ’’والقلم‘‘ کی قسم کے فیض سے مہکنے لگی۔ نئے جزیرے دریافت ہوئے۔

صبیح رحمانی کے حوصلوں میں غیرمعمولی فراخی، فروغِ نعت کے حوالے سے نئی جودت، مستقبل شناس فکر میں نئی گہرائی اپنی جگہ بنا چکی تھی۔ اس لئے آگے بڑھتے گئے اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ توصیف جب توفیق خداوندی بن کر ان کے باطن میں ظہور پذیر ہوئی تو فروغ و اشاعتِ نعت کا چشمہ پھوٹ پڑا اوراحساسِ مدحت ایک چنگاری سے الاؤ کی صورت اختیار کر گیاجس پراِس مردِ باخدا نے’’نعت رنگ‘‘ کے عنوان سے ایک شمع نور فروزاں کی جس کی ضو سے پاک و ہند کے بے شمار کوربختوں کو عشق و عقیدتِ حضور کا سلیقہ عطا ہوا اور نعتِ رسول ﷺ کا ایک عہدِ نو طلوع ہو گیا۔

نعت رنگ ہی کی تحریک کا نتیجہ ہے کہ نعت کو نہ صرف ایک باقاعدہ صنفِ سخن تسلیم کیا گیا بلکہ اہلِ علم و دانش نے اس کا اعتراف بھی کیا۔ 19اکتوبر 2014ء کو آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے زیراہتمام ساتویں عالمی اردو کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں پہلی بار نعت پر بطور صنفِ سخن ایک اجلاس منعقد کیا گیا جس کا عنوان اردو زبان اور نعتیہ ادب تھا۔ جب کہ 17جنوری 2015ء کو انجمن ترقی اردو، کراچی نے پہلی مرتبہ ایک مذاکرہ بعنوان صنفِ نعت، ادبی اور ثقافتی ورثہ منعقد کیا۔

مدیر نعت رنگ سید صبیح الدین صبیح رحمانی رقم طراز ہیں :

’’نعت رنگ میں تنقیدی مباحثوں اور مکالموں کے روشن ہونے سے آدابِ نعت گوئی کے باب میں شعرا کا احساسِ ذمہ داری بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ نعت کو تنقیدی کسوٹی پر پرکھنے میں جو اندیشے مانع تھے وہ دور ہوئے ہیں اور علمی، لسانی، عروضی اور تنقیدی زاویوں سے بے لاگ گفتگو کی ایک ایسی فضا قائم ہوئی ہے جس سے ادبی سطح پر نعت کی مقبولیت میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ نعت کو دانستہ یا نادانستہ نظرانداز کرنے والے حلقوں میں بھی اس کو بطورِ صنفِ سخن دیکھنے اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں۔‘‘

نعت رنگ کے بحیثیتِ مجموعی تنقیدی، تحقیقی، تخلیقی اور دیگر شعری و ادبی معیارات اور میراث نے نعتیہ ادب کے خزانے میں گراں قدر اضافے کیے ہیں۔ نعت رنگ نے تنقید ِ نعت کو ایک باوقار سمت عطا کی ہے۔ اس کا معیارِ تحقیق اور مزاجِ تنقید سب سے منفرد ہے۔ اس کے مشمولات اور معمولات میں بیداریٔ نعت کی تحریک شامل ہے۔ اس میں عصر حاضر کے معتبر لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ نعت رنگ میں مشاہیرِ نعت کی تحریروں کے علاوہ اردو ادب کے ثقہ، انتہائی معتبر اور قابلِ ذکر حضرات کی تحریریں بھی نمایاں ہیں۔ ڈاکٹر سید محمدابوالخیر کشفی کے مطابق’’ نعت رنگ‘‘ فروغِ نعت کی ایک پُر قوت تحریک ہے۔ ’’ نعت رنگ‘‘ نے پہلی بار نعت پر تنقید کو ایک مستقل حیثیت دلائی ہے۔ نعت کے ادبی پہلوؤں کو مطالعے کا ایک مستقل میدان بنا دیا ہے اور نعت کے سماجی، عمرانی اور تہذیبی پہلوؤں کی نشان دہی کی ہے۔ مدحت نگاری کی مختلف جہتوں کو محیط حرف و قلم کا یہ جہانِ نو یقیناً سید صبیح رحمانی کی صورت میں عصرِ حاضر کے لئے خالقِ لوح و قلم کی وہ عظیم نعمت ہے جس پر تقدیسی ادب لکھنے والے ہر صاحب جنوں کے لئے سجدۂ شکر واجب ہے۔

ریاضؔ کا قلم اور کتابِ ارتقاء

اب ہم دیکھتے ہیں کہ عصر حاضر کے صف اول کے عظیم مدحت نگار ریاض حسین چودھری نے جہانِ نعت کی کن وسعتوں کو کیسے فتح کیا اور اس امتیازی شان کے حصول میں ’’قلم‘‘ کے ساتھ ان کا اور قلم کا ان کے ساتھ کیسا تعلق رہا۔

اپنے حمدیہ مجموعۂ کلام ’’ ـلامحدود ‘‘ میں خالقِ ارض و سما کی حمد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

یہ زمیں، یہ آسماں، یہ چاند تارے ہیں ترے
ذرّہ ذرّہ کل جہانوں کا ہے مصروفِ ثنا

وقت کی رفتار ہے پابند تیرے حکم کی
تو نے لکھی ہے خلاؤں میں کتابِ ارتقا

ریاض نے کلامِ الٰہی پڑھا اور سنا ہی نہیں اسے اپنے قلب و نظر میں بسایا ہے اور ایک حسی تجربے کے ذریعے کتاب ارتقاء کے انوار کو اپنی روح کی گہرائیوں میں اتارا اور سمویا بھی ہے۔ وہ صاحبِ نظر اور صاحبِ بصیرت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خلاؤں میں کتابِ ارتقاء کو لکھا دیکھ رہے ہیںاور جب حیاتِ انسانی کو دیکھتے ہیں تو کرب میں مبتلا ہوجاتے ہیں کیونکہ یہاں انہیں وہ ارتقائے اطاعت و محبت نظر نہیں آتا جس میں کائنات کا ذرہ ذرہ مستغرق ہے :

راکھ میں ہم ڈھونڈتے رہتے ہیں چنگاری کوئی
ہم جلا بیٹھے ہیں مقتل میں نصابِ ارتقا

تاہم کائنات میں نصابِ ارتقاء کی ترویج و تکمیل بہرحال جاری و ساری ہے :

یہ زمیں ساری کی ساری ایک مسجد ہے ریاضؔ
لازماً اوپر بلندی پر خلا سجدے میں ہے

ارتقا کے حوالے سے وہ نئی نسل کے مستقبل کے بارے میں دل کی گہرائیوں میں پیوست ایک تشویش رکھتے ہیں اور اس کا اظہار اس طرح کرتے ہیں :

ستاروں پر کمندیں ڈالنے کا دے ہنر ان کو
مرے بچوں کی تختی پر حروفِ ارتقا لکھنا

ریاض کو نعت کی جو وسعتیں عطا ہوئیں انہیں لکھنے کے لئے وہ خدا سے ایک کاتبِ ارتقا اور عاشقِ رسولؐ قلم کی دعا کرتے ہیں جسے در رسول ﷺ کی حضوری حاصل ہو۔ انہوں نے التجا کی :

کچھ اور لکھ نہ سکے نعتِ مصطفیٰؐ کے سوا
مرے خدا! مجھے ایسا قلم عطا کر دے

اور یہ قلم انہیں عطا کر دیا گیا۔

عالمِ ارواح میں مجھ کو قلم بخشا گیا
عشق کے رکھے گئے میری جبلت میں چراغ

یہی قلم ان کے تقدیسی کلام میں ایک جامع استعارہ کے طور پر اسلوب و معنویت کا جہانِ طلسم آباد کئے ہوئے ہے اور وسعتِ ارض و سما کو محیط ایسی نعت مسلسل لکھنے میں فنا ہے جس کی وسعتوں کا احاطہ ادراک میں نہیں آتا۔

ریاض کے نزدیک انسان کا ارتقا مدح النبی ﷺ سے جڑا ہوا ہے۔ نعت سیرتِ پاک کو اپنے کردار میں سمونے کا نام ہے۔ چنانچہ وہ نعتِ رسول ﷺ کو کتاب ارتقا کا عنوان قرار دیتے ہیں :

محمدؐ نام لکھّا سر ورق پر نور و نکہت سے
خدائے مصطفی ﷺ نے جب کتابِ ارتقا لکھّی

اسی طرح ’’رزقِ ثنا‘‘ میں لکھتے ہیں :

اُنؐ کو پڑھے بغیر ادھورے ہیں سب علوم
ہر دورِ ارتقاء کا مقدّس نصاب وہؐ

نعت لکھتے رہنے کو ہی وہ اپنا ارتقا جانتے ہیں اور وقت کے ہاتھوں اس کے رک جانے کا خوف رکھتے ہیں جبکہ نزولِ نعتِ پیمبر ﷺ پر وہ اپنے قلم کو ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں :

نزولِ آیتِ عشقِ نبیؐ مبارک ہو
کئی دنوں سے قلم تھا بجھا بجھا میرا

مجھے یہ خوف مسلسل جگائے رکھتا ہے
حضورؐ روک نہ دے وقت ارتقا میرا

یہ کیفیت ان کی زود گوئی اور بسیار گوئی کا بھی سبب ہو سکتی ہے تا کہ وہ ارتقائی منزل پر ہی متمکن رہیںجب کہ اس کی وجوہات میں مؤثر ترین ان کا جوشِ جنوں، وہبی عنایات اور ’’وما یسطرون‘‘ کا فیض ہے۔ انہیں اپنے وفورِ نعت کا احساس ہے اور بھرپور نعت کی انتہائیں ان کے قلم کی نوک پر محوِ رقص رہتی ہیں۔

مجھے کامل یقیں ہے موسمِ مدحت کی رم جھم میں
وفورِ نعت کے لب پر رہے گی انتہا رقصاں

ریاضؔ کی منفرد اور طویل نعت نگاری

ریاض حسین چودھری کی نعت نگاری کا ایک اجمالی جائزہ لیا جائے تو حیرت و استعجاب کا ایک بحر بیکراں امڈتا چلا جاتاہے۔ ذیل میں مختلف زاویوں سے اس منفرد نعت نگاری کا ایک جائزہ پیش کیا جا رہاہے :

1۔ طوالت کی ایک صورت یہ ہے کہ پندرہ یا بیس سے زیادہ اشعار پر مشتمل نعت لکھتے لکھتے اسی قافیہ اور ردیف میں دو نعتیہ، سہ نعتیہ اور چہار نعتیہ کلام تخلیق کیا جو پچاس، ساٹھ یا سینکڑوں اشعار پر مشتمل ہوتا۔ ’’ غزل کاسہ بکف‘‘ کی پہلی غزل ہشت نعتیہ ہے جو 400 اشعار پر مشتمل ہے۔ معریٰ نظم میں نعت لکھتے ہوئے 2014ء میں 518 صفحات کی ’’طلوعِ فجر‘‘ پانچ سو بندوں پر مشتمل طویل نظم لکھی جبکہ ہر بند 12 مصرعوں اور پوری نظم 6000 مصرعوں پر مشتمل ہے۔ یہ ان کا نواں مجموعہ ہے۔

2۔ ان کی طویل نعت نگاری کی دوسری صورت ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ ان کا کلام پانچ، دس یا پندرہ نہیں بلکہ25 نعتیہ مجموعوں پر مشتمل ہے جب کہ ہر مجموعہ دو سو یا اڑہائی سو یا تین سو صفحات پر مشتمل معقول ضخامت رکھتا ہے :

(1)پہلا مجموعہ’’زرِ معتبر‘‘ 1995ء میں شائع ہوا۔

(2) 1999ء میں ’’رزقِ ثنا‘‘ دوسرا مجموعہ شائع ہوا جسے صدارتی اور صوبائی ایوارڈز دئیے گئے۔

(3)’’تمنائے حضوری‘‘ تیسرا مجموعہ2000ء میں آیا جسے 20ویں صدی کی آخری طویل نعتیہ نظم ‘‘ سے موسوم کیا گیا۔

(4) 2001ء میں ’’متاعِ قلم‘‘ ان کا چوتھا مجموعہ شائع ہوا۔

(5)اگلے سال 2002ء میں’’ کشکولِ آرزو‘‘پانچواں مجموعہ منظر عام پر آیا۔

(6)، 2004ء میں’’ سلامُ علیک‘‘ چھٹا مجموعہ شائع ہوا۔

(7) 2009ء میں’’ خلدِ سخن‘‘ ساتواں مجموعہ چھپا جسے صدارتی ایوارڈ دیا گیا۔

(8) صدارتی ایوارڈ یافتہ آٹھواں مجموعہ’’غزل کاسہ بکف‘‘ 2013ء میں طبع ہوا جس سے انہوں نے اردو ادب کی تاریخ میں پہلی بار نعت کو غزل سے بالاتر صنف ادب کے طور پر پیش کیا اور ثابت کیا کہ نعت مذہباً ہی نہیں بلکہ جبلتاً لکھی جائے تو یہ اعلیٰ تر صنفِ ادب ہے۔

(9) اگلے برس2014 میں نعتیہ ادب میں پانچ سو بنود پر مشتمل نظم معریٰ ’’طلوع فجر‘‘ کے نام سے نویں مجموعے کا اضافہ ہوا۔

(10)2014ء صدارتی ایوارڈ یافتہ دسواں مجموعہ’’آبروئے ما‘‘ شائع ہوا۔

(11) 2015ء میں سیرت ایوارڈ یافتہ گیارہواں مجموعہ’’زم زم عشق‘‘ منظر عام پر آیا۔

(12) 2015ء ہی میں صدارتی ایوارڈ یافتہ 12واں مجموعہ ’’تحدیثِ نعمت‘‘ شائع ہوا۔

(13) 2017ء جو کہ ان کا سالِ وصال ہے، اس سال ان کا 13واں نظمِ معریٰ کا شاہکار مجموعہ’’دبستانِ نو‘‘ چھپا جو کہ نعتیہ ادب کے فنی ارتقا کے نقطۂ نظر سے اگلی صدی کی نعت ہے۔

(14)ان کا 14واں مجموعہ ’’لامحدود‘‘ جو حمدیہ کلام پر مشتمل ہے۔

(15) ’’ کائنات محو درود ہے‘‘ حمد و نعت پر مشتمل 15واں مجموعہ ہے۔ یہ آخری دونوں (چودھواں اور پندرھواں) مجموعے ان کی علالت کے دوران پریس میں جا چکے تھے۔

(16)ان کی وفات کے بعد ان کا 16واں مجموعہ کلام ’’برستی آنکھو، خیال رکھنا‘‘ 2018ء میں شائع ہوا۔ یہ سولہ مطبوعہ مجموعہ ہائے نعت ان کی ویب سائٹ riaznaat.com اور Android App پردیکھے جا سکتے ہیں۔

ریاض حسین چودھری کے کل 25 مجموعہ جات میں سے تاج مدینہ، کتاب التجا اور اکائی حال ہی میں نعت ریسرچ سنٹر کراچی نے شائع کی ہیں اور باقی مجموعوں کی اشاعت پر بھی نعت ریسرچ سنٹر کراچی میں کام ہو رہا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ریاض نے کوئی ساٹھ ہزار(60000) نعتیہ اشعار تخلیق کئے۔ ان میں وہ کلام شامل نہیں جو انہوں نے ملی شاعری یا غزل کی صورت میںلکھا یا جو ابھی تک ان کی ڈائریوں میں لکھا ہے۔

ریاضؔ کی تحدیثِ نعمت

ریاض اپنے پہلے مجموعہ حمد و نعت ’’زرِ معتبر‘‘ میں تحدیث نعمت کے عنوان سے اپنی کلکِ بامراد کو عطائے مدحت یوں بیان کرتے ہیں :

’’ مجھے نہیں معلوم کہ کب خلعتِ انوارِ عشق مصطفیٰ کلکِ بامراد کو عطا ہوئی، میں نہیں جانتا کہ کب سے نزولِ آیتِ عشقِ نبی کی بادِ بہاری گلشنِ ہستی کی روش روش پر مہک رہی ہے، مجھے نہیں خبر کہ کب منصبِ نعت گوئی کا زائچہ ہاتھ پر رقم ہوا، اور کب اور کہاں متاعِ قلب و جگر مکینِ گنبدِ خضرا کے نعلین پاک پر نثار ہوئی۔ مجھے تو یوں لگتا ہے، جیسے ازل سے درودوں کے گجرے اور سلاموں کی ڈالیاں لیے غریبوں کے والی اور یتیموں کے مولا کے حضور دست بستہ کھڑا ہوں اور حکمِ خداوندی بجا لا رہا ہوں۔ ذاتِ باری تعالیٰ خود نبی مکرم پر درود بھیجنے کا اعلان کر رہی ہے اور ایمان والوں کو حضور رحمتِ عالم ﷺ پر کثرت سے درود و سلام بھیجنے کا حکم دے رہی ہے۔‘‘

’’تحدیثِ نعمت ‘‘میں لکھتے ہیں :

نہیں مَیں جانتا شہرِ قلم کے سرمدی لمحو!
جبلّت میں زرِ مدحت نگاری کب سے شامِل ہے

قلم کی روضۂ اطہر پہ حاضری

ریاض کا قلم عاشقِ رسول ﷺ ہے۔ ازل سے ابد تک مدینے کے ساتھ رابطے میں ہے۔ یہ سرورِ دوعالم ﷺ کی نظرِ کرم کا فیض ہے کہ قلم ہر وقت نشۂ مدحت کے سرور میں گم رہتا ہے۔ اسے دعائے رسول ﷺ کی برکات حاصل ہیں اور وہ ’’وما یسطرون‘‘ کی قسم کے فیض سے نعت لکھتا ہے تولکھتا ہی چلا جاتا ہے :

ازل سے نسبتِ نقشِ قدم رہی حاصل
قلم کا ربط ابد تک رہا مدینے سے

ریاض اپنے ’’سفرنامۂ حجاز‘‘ میں ’’لبیک یا رسول اللہ ﷺ لبیک‘‘ کے باب میں اپنے قلم کی کیفیتِ عشق اور مدحت نگاری کا مواجہہ شریف کے سامنے بصد ادب ذکر کرتے ہیں اور بحضور سید المرسلین ﷺ قلم کی طرف سے صلوٰۃ و سلام پیش کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں :

’’ آج میں اپنے آقا ﷺ کے قدموں میں کھڑا تھا۔ لبوں پر درود و سلام کے زمزمے مچل رہے تھے..... اور پھر وہ لمحہ بھی آگیا جسے حاصل زندگی بھی کہوں تو کم، یوں لگا جیسے انوار کی چادر سی میرے سامنے تان دی گئی ہو، شاداب ساعتوں کے موسم نے مجھے اپنی بانہوں میں لے لیا ہو، آہستہ آہستہ نظریں اٹھائیں۔ سامنے رنگ و نور کا ایک سمندر موجزن تھا۔ چند لمحوں کے لیے نجانے کہاں کھوگیا، روضۂ اطہر کی سنہری جالیاں سامنے تھیں، وہ جالیاں جنہیں میں نے چشمِ تصور میں بارہا بوسہ دینے کی سعادت حاصل کی تھی۔ سینے سے ایک طوفان اٹھا، میں دیوانہ وار پکار اٹھا : ’’لبیک یارسول اللہ لبیک!‘‘، میں بے ساختہ پکار رہا تھا۔

سوچا تھا حضور ﷺ کی بارگاہ اقدس میں وطن کی ہواؤں کا سلام پیش کرنے کے بعد گھر کے ایک ایک فرد کا نام لے کر سلام عرض کروں گا کہ یارسول اللہ میرے گھرانے کا ایک ایک بچہ دونوں ہاتھ اٹھا کر سلام کہہ رہا تھا۔ حضور ﷺ آپ کی کنیزیں گلاب کی سرخ پتیاں لے کر دست بستہ کھڑی تھیں۔ آقا ﷺ، غلام زادے سر تاپا حرفِ سپاس بن کر سلام پیش کررہے تھے، حضور ﷺ میرے گھر کے در و دیوار بھی سلام کہتے تھے۔

حضور ﷺ میرا قلم، میری تنہائیوں کا ساتھی، حضور ﷺ ہم دونوں مل کر آپ کی محبت کے چراغ جلایا کرتے تھے، اور قلم آپ کے درِ سخا کی دہلیز پر سجدہ ریز ہونے کے لئے مچلتا رہتا تھا۔ حضور ﷺ اس ٹوٹے ہوئے قلم کو بھی اپنے ساتھ لے آیا ہوں، ورق ورق پر سجدے لٹانے والا قلم، حضور ﷺ سلام عرض کرتا ہے۔‘‘

ریاض کا شعورِ نعت اور قلم کا استعارہ

ہم نے دیکھا ہے کہ قدرت کا قلم جس کی خالقِ قلم نے قسم کھائی ہے اور ’’جو لکھا گیا، لکھا جا رہا ہے اور لکھا جائے گا‘‘ کی بھی قسم کھائی ہے وہ سب ’’کل یوم ھو فی شان ‘‘ کو محیط ہے۔ اس قلم کا غیر مرئی وجود مظاہرِ تخلیق کو جنم دیتا چلا جا رہا ہے اور’’ ورفعنا لک ذکرک ‘‘ کا قولِ حق متحقق ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اگر مالک الملک کسی کو یہ نعمت عظمیٰ عطا کر دے تو یہ اس کی شانِ مشیت ہے۔

’’وردِ مسلسل‘‘ میں لکھتے ہیں :

عالمِ ارواح میں مجھ کو قلم بخشا گیا
عشق کے رکھے گئے میری جبلت میں چراغ

ثنائے مرسلِ آخرؐ میں کب تھکا ہے، ریاضؔ
قلم کے روپ میں اللہ نے دی ہے کیا نعمت

قلم ہے وادیٔ حیرت میں گُم تخلیق کے دن سے
مَیں کیا لکھّوں ورق پر رحمتوں کے تاج والے کو

اس واسطے خدا نے قلم ہے عطا کیا
جب بھی لکھیں نبیؐ کا قصیدہ لکھا کریں

تا حشر قلم چلتا رہے شہرِ ثنا میں
تا حشر تلاطم رہے جذبات کے اندر

قلم، چراغِ حرم

جو صرف نعت لکھے وہ قلم تلاش کرو
غبارِ شب ہے، چراغِ حرم تلاش کرو

ریاض کے قلم کی شخصیت

ریاض کا قلم خوش نصیب ہے کہ اسے نگاہِ مصطفیٰ ﷺ کی تجلیاتِ دعا میسر ہیں :

اُٹھے گا نعت لکھتے ہوئے روزِ حشر بھی
حاصل مرے قلم کو دعائے رسولؐ ہے

اس قلم کو حضوری کی کیفیات میسر ہیں :

ابھی تو گنبدِ خضرا نظر نہیں آیا
ابھی سے وجد کا عالم قلم پہ طاری ہے

ریاض کے قلم کا اپنا ایک تشخص ہے اور وہ اسی قلم کی معیت میں یک جان و دو قالب بن کر رہتے ہیں۔

حرم کے پھول کِھلے ہیں ورَق ورَق پہ ریاضؔ
قلم کے ساتھ شبِ آگہی میں رہتا ہوں

مَیں چاند نعت کے اوراق پر سجاتا ہوں
مَیں پھول بن کے قلم کی رگوں میں رہتا ہوں

چونکہ ان کا قلم پیارے آقا ﷺ سے حسنِ کلام کی التماس کرتا رہتا ہے اس لئے ریاض اپنے قلم کو اپنی ندرت افکار کی وجہ قرار دیتے ہیں :

مانگتا رہتا ہے آقاؐ سے قلم حسنِ کلام
اس لئے میرے زرِ افکار کو ندرت ملی

’’زرِ معتبر ‘‘میں لکھتے ہیں :

محیط ہونے لگی ہے شبنم، حدودِ شہرِ صدا پہ پھر سے
سرورِ نعت نبیؐ سے کلکِ ریاض نشے میں جھومتی ہے

وردِ مسلسل میں لکھتے ہیں :

اکثر یہ پوچھتا ہے لغت کا ورق ورق
تیرے قلم کو کس نے دھڑکنا سکھا دیا

اترا ورق پہ چاند ستاروں کا جب ہجوم
رعنائیِ خیال قلم سے لپٹ گئی

ہر شب میں نعت لکھتا ہوں گلشن کی تتلیو!
ہر شب طواف میرے قلم کا کیا کرو

ریاض تتلی کا استعارہ بھی خوب لاتے ہیں جس سے مراد خوبصورت حروفِ ستایش اور لب کشا الفاظ و تراکیب اور دل کو موہ لینے والی بندشیں ہیں جو لکھتے وقت قلم کا طواف کرتی ہیں۔ یہی ان کے گلشنِ نعت کی تتلیاں ہیں جو ان کے اشعار میں دھنک رنگ بکھیر کر کلام کے حسن کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔

سرمدی قلم

کتابِ عشق کے اوراق سب منّور ہیں
ضمیرِ شہرِ قلم، نورِ سرمدی کا ہے

پھول کھلنے لگے ہیں صدا میں حرف ڈھلنے لگے ہیں دعا میں
یہ زباں بھی عطا ہے خدا کی، یہ قلم بھی مرا سرمدی ہے

ریاض کا سرمدی قلم حرف کے کینوس پر گنبدِ خضراء کا مسحور کن عکس اس لئے پیش کرتا ہے کہ وہ بھی ذوقِ نمو رکھتا ہے اور یہ ذوق وہ مدینے سے لایا ہے۔ دیکھیں یہاں قلم معنویت کی کتنی تہیں ترتیب دے رہا ہے۔ ورق پر گنبد خضرا کے عکس دلربا لانے کا معاملہ ’امشب‘ قلم کے ذوقِ نمو کی بدولت معرض، وجود میں آیا ہے، امشب کی ردیف نے معاملے کو مفہوم کی گہرائی عطا کی ہے جب کہ قلم کا ذوق نمو کے لئے طیبہ سے رابطہ حسن معنویت کو پہنائیاں عطا کر رہا ہے :

ورق پر گنبدِ خضرا کا عکسِ دلربا دیکھو!
اٹھا لایا ہے طیبہ سے قلم ذوقِ نمو امشب

قلم نعت نگاری سکھاتا ہے

سکھا جائے قلم اشکوں کو نعتِ مصطفیؐ لکھنا
سپردِ حرفِ نو، سرکارؐ کے آداب کر جائے

اِقرا کی روشنی میں ہے لپٹا ہوا قلم
امیدوار عِلم کی دستار کا ہوں مَیں

ریاض کے قلم کے اجزائے ترکیبی

الفاظ محترم ہیں کہ نعتِ نبیؐ کے ہیں
اوراق اور قلم مرے سب روشنی کے ہیں

اسمِ نبیؐ کی خُلدِ محبت میں گم ہوں مَیں
میرے قلم سے پھوٹتی رہتی ہَے روشنی

ورق پر آرزو کی روشنی بہتی رہے آقاؐ
قلم کی روشنی بھی زم زمِ عشقِ رواں میں ہے

خلدِ طیبہ سے اٹھا کر رات خوشبو کا قلم
میَں نے لکھّا ہَے وثیقہ صبح کے آثار کا

مسجدِ نبوی میں خوشبو کے قلم سے رات دن
ہر کسی کے ہاتھ پر میں دوستی لکھتا رہا

حرفِ ادب کی جس پر بکھری ہوئی ہے شبنم
کلکِ ثنا یقیناً اُس پھول سے بنی ہے

ہر ایک لفظ کے باطن میں کہکشاں سمٹے
قلم ریاضؔ کے ہاتھوں میں چاندنی کا ہے

تصّوُر میں مدینے کی فضا میں اڑتا رہتا ہوں
قلم خاکِ مدینہ سے بنا ہَے یارسول اللہ

سرور نعتِ نبیؐ ریاض کے قلم کی اشکبار شخصیت کی تشکیل کرتا ہے۔ مگر یہ سب حکمِ خداوندی سے ہو رہا ہے :

مجھے یہ حکم ہے میرے خدا کا
لکھوں نعتیں بہ کلکِ آبدیدہ

یہ مقلدِ کلکِ حسانؓ و رضاؒ ہے :

مجھے نعت گوئی کا منصب ملا ہے
بپا جشنِ بختِ رسا کر رہا ہوں

فرشتے مِرے نُطق کی لیں بلائیں
میں حسانؓ کی اقتدا کر رہا ہوں

وہی کیفِ پیہم کا عالم مجھے بھی
میں تقلیدِ کلکِ رضاؒ کر رہا ہوں

یہ قلم اپنا ایک طرزِ احساس رکھتا ہے۔ جب اسے اذن مدحت کی طلب ہو تو ریاض کی طرح ان کا قلم بھی افسردگی کے عالم میں ہوتا ہے، شاعر ہے اور حسن حسیت کا ادراک رکھتا ہے :

ورق کا چاک ہے دامن، قلم ہے افسردہ
حضورؐ! اپنی ثنا کی مجھے اجازت دیں

ریاض اپنے قلم کا مقدر پہچانتے ہیں اور اس پر سلام بھیجتے ہیں :

قلم کے مقدّر کا کیا پوچھتے ہو
قلم کا سفر ہے ثنائے محمدؐ

ہر ایک لفظ میں رکھتا ہے آئنوں کا دماغ
مرے قلم کا مقدر ہے وصفِ زیبائی

اے قلم، میرے قلم، تیرے مقدر کو سلام
نعتِ پیغمبرؐ کے ہر حرفِ مصوَّر کو سلام

ریاض قلم کو محفلِ نعت کی کہکشاں میں محوِ وجد دیکھنا چاہتے ہیں اور اسے ایک تشخص عطا کرتے ہیں اور پھر اس کے دامن میں چاند ستاروں کے جھرمٹ کا نظارہ کرنے لگتے ہیں۔ ریاض نے قلم کے استعارے کو اتنا بلیغ بنا دیا ہے کہ اس کی کاوشِ تخلیق میں ’’وما یسطرون‘‘ کی تفسیر دکھائی دینے لگتی ہے، ’’خلد سخن‘‘ میں لکھتے ہیں :

اپنے بختِ رسا کی بلائیں بھی لے، شہرِ طیبہ کی ٹھنڈی ہوائیں بھی لے
میری کلکِ ثنا، وَجد میں آج آ، محفلِ نعت کی کہکشاں میں اُتر

دل میں خیالِ خلدِ مدینہ ہے اس لیے
دامن قلم کا چاند ستاروں سے بھر گیا

ابرِ رحمت میں لپٹا ہوا ہے قلم، آبِ کوثر میں ڈوبی ہوئی ہے زباں
شہرِ حرف و بیاں کے مضافات میں پیڑ صلِّ علیٰ کے لگائیں گے ہم

ریاض اپنے قلم کے لئے بارگاہِ رسالت میں ملتمس ہیں :

اُگے فصلِ قلم کشتِ ثنا میں، یارسول اللہ
گدازِ عشق ہو حرفِ دعا میں، یارسول اللہ

’’نصابِ غلامی‘‘ میں لکھتے ہیں :

مرے ہر لفظ کی معراج ہے اُنؐ کی ثنا کرنا
یہی میرے قلم کی ابتدا بھی، انتہا بھی ہے

ریاض نے قلم کے استعارے کو اپنی شعری لغت میں کچھ اس طرح سے اپنی صنائع کا مرکز و محور بنایا ہے کہ بہاریں، خوشبوئیں، چاندنی، کہکشائیں درودوں کے گجرے لئے قلم کے طواف میں مصروف نظر آتی ہیں اور ہمیں سجی سجائی اظہار کی جنتیں دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں اسالیب و معنویت کے ابلتے ہوئے چشمے نعت کی رم جھم کا ترنم بکھیر رہے ہیں۔ اس کے لئے ریاض ’’نوکِ قلم‘‘ یا ’’قلم کی نوک‘‘ کو ایسی مہارت سے کام میں لاتے ہیں کہ یہ انہی کا حصہ ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :

نوکِ قلم

نوک قلم نظامِ اظہار کا نیوکلیئس (nucleus) یا مرکزی کلیدی خلیہ ہے جو ریاض کے جملہ جگنوؤں، تتلیوں، معطر اور معنبر لب کشا لفظوں، چاند ستاروں کے پھولوں، چشمِ تر میں روشن کہکشاؤں اور حسنِ تغزل کی خلد سخن کے وجد انگیز نظاروں کا امین ہے جن سے ان میں مدحت نگاری کی فردوسِ بریں وجود پاتی ہے۔ اس نوک قلم پر کبھی توصیف و ستایش کے سورج اترتے ہیں اور کبھی رات کے پچھلے پہر اشکوں سے گنبدِ خضرا کی شبیہ مصور ہوتی ہے۔ کبھی اس پرشعورِ نعت کے موسم اترے ہیں اور کبھی نور کے دھارے قلب و نظر کی تنویر کا سامان کرتے ہیں۔ غرض ریاض کے کلام کے عمل تخلیق میں ’’نوک قلم‘‘ وہ روحانی مرکزیہ ہے جس میں ریاض پھول بن کر قلم کی رگوں میں رہتے اور قلم کے ساتھ مل کر مدینے کی ہواوؤں سے سرگوشیاں کرتے ہیں اور قلم حرفِ مدحت کے ساتھ ہمکلام رہتا ہے۔

نوکِ قلم پہ موسمِ گل کا رہے خمار
نعتِ حضورؐ لب پہ سجاتی رہے گلاب

خوشبو کے ساتھ رَقصِ مسلسل میں بھی رہے
نوکِ قلم پہ حرفِ معطر تمام شب

قلم کی نوک پہ سورج اُتارنے کے بعد
زباں پہ چاند ستاروں کے پھول رکھتا ہوں

ورق پہ رات کے پچھلے پہر میں اشکوں سے
شبیہہِ گنبدِ خضرا بناتا رہتا ہوں

نوکِ قلم پہ نور کے دھارے اُتار دیں
موسم شعورِ نعت کے سارے اُتار دیں

مجھے یقین ہے اِمشب بھی میرا ہر آنسو
قلم کی نوک سے لپٹے گا خواہشوں کی طرح

ثنا کے رزق کا طشتِ ہنر ہے ہاتھوں میں
قلم کی نوک پہ رہتی ہیں سبز سی کرنیں

میرا قلم بھی مرکزِ انوار ہے، ریاضؔ
ہر وقت جیسے مہرِ منوّر سرِ ورق

ثنا کے پھول کھلاتی ہوئی رتوں کا ہجوم
قلم کی نوک پہ مچلا ہے رم جھموں کا ہجوم

آج بھی نوکِ زباں پر ہے ستاروں کا ہجوم
آج بھی ہے خوشبوؤں، رنگوں کے پیکر میں قلم

مہکا رہا ہے آج بھی شب بھر بفیضِ نعت
نوکِ قلم پہ حسنِ گلستاں قدم قدم

قلم پر نگاہِ مصطفیٰؐ

اُٹھے گا نعت لکھتے ہوئے روزِ حشر بھی
حاصل مرے قلم کو دعائے رسولؐ ہے

قلم کے لئے دعائیں

اُگے فصلِ قلم کشتِ ثنا میں، یارسول اللہ
گدازِ عشق ہو حرفِ دعا میں، یارسول اللہ

نعتِ نبیؐ کا نور سپردِ قلم کریں
اوراقِ جاں پہ چاند ستارے رقم کریں

قلم کا نورِ نعت

نصاب غلامی میں لکھتے ہیں :

گذشتہ شب چراغِ نعت جب روشن ہوئے گھر میں
در و دیوار انوارِ قلم میں جگمگا اٹھّے

کشکولِ آرزو میں لکھتے ہیں :

درِ حضورؐ سے رعنائیوں کے جھرمٹ میں
شعور و آگہی کا نور لے رہا ہے قلم

میں جب بھی قصد کرتا ہوں ثنا کے پھول چننے کا
لپٹتی ہیں قلم سے کہکشائیں یارسول اللہ

اس کے کشکولِ ادب میں ہَے جلالِ خسروی
یہ قلم منگتا مدینے کے گلی کوچوں کا ہَے

خیر البشرؐ کے عشق میں سرشار ہے قلم

ریاض کی طرح ریاض کا قلم بھی رسولِ محتشمؐ کا عاشقِ صادق ہے، اس کا بھی ہجر و فراق ہے، کیفیات ستایش و توصیف میں گم رہنے والا ہے اور ریاض کی نعت کے عملِ تخلیق کا ایک زندہ و پائندہ ستون ہے :

وقف ثنائے احمد مختارؐ ہے قلم
خیر البشرؐ کے عشق میں سرشار ہے قلم

ہجرِ نبیؐ میں اشک بہاتا ہے رات دن
طیبہ کی حاضری کا سزاوار ہے قلم

کل ہی نہیں تھی اس کے مقدّر میں روشنی
اوراقِ جاں پہ آج بھی ضوبار ہے قلم

دامن میں آنسوؤں کے سجا کر گہر ہزار
خاکِ درِ نبیؐ کا طلب گار ہے قلم

ہر وقت جیسے موسمِ گل ہمرکاب ہے
لمحاتِ دلکشا کا چمن زار ہے قلم

محشر کے دن بھی دیکھنا میدانِ حشر میں
توصیفِ مصطفیٰؐ کا علمدار ہے قلم

صاحب کردار قلم

نسبت اسے ہے والیٔ بطحا سے اس لیے
ہر عہدِ شر میں صاحبِ کردار ہے قلم

عَص رِ نو میں ہر طرف اہلِ ہوس کی تیرگی
شکر ہَے میرا قلم پاکیزگی لکھتا رہا

ریاض نے اپنے بارے میں تو یہ کہا ہے کہ

جب بھی سوچوں گا نبیؐ کی نعت ہی سوچوں گا میں

تو وہ اپنے قلم کو بھی توصیف مصطفیٰ ﷺ کی سوچ میں گم دیکھتے ہیں :

ثنائے مصطفیٰؐ کے بعد اوراقِ تمنّا پر
قلم اِس سوچ میں گم ہے کہ لکھّے بھی تو کیا لکھّے

کہیں خاتم، کہیں افضل، کہیں عادل، کہیں صادق
کتابِ آسمانی میں انہیں میرا خدا لکھّے

قلم کے احساسات

ورق کا چاک ہے دامن، قلم ہے افسردہ
حضورؐ! اپنی ثنا کی مجھے اجازت دیں

لب بہ لب تحریر ہیں حرفِ ادب کی ہچکیاں
مظہرِ عشقِ پیمبرؐ ہیں قلم کی سسکیاں

کہیں سوءِ ادب ٹھہرے نہ شوخی حرفِ روشن کی
قلم اس واسطے چپ چپ درِ آقاؐ پہ رہتا ہے

بوقتِ نعت گوئی احتراماً لب نہیں کھْلتے
شرف اشکوں کو ملتا ہَے قلم سے ہمکلامی کا

اس سے بڑھ کر خوش نصیبی اور کیا ہوگی ریاضؔ
حرفِ مدحت سے قلم رہتا ہے میرا ہمکلام

حصارِ اشکِ ندامت میں ہَے قلم میرا
گداز و سوز مرے حرفِ لب کشا کا ہے

چشمِ تر برسات کا موسم بنی رخصت کے وقت
کس قدر دہلیزِ اطہر پر قلم رویا کیا

نوائے لوح و قلم

مرے رسولؐ، مرے پیشواؐ، مرے ہادیؐ
مری نوا کو عطا ہو نوائے لوح و قلم

کتابِ زندگی کے ہر ورق پر ہیں دیے روشن
اُنہیؐ کا نور ہے لوح و قلم کے آبگینے میں

لوح و قلم کا موسم

لوح و قلم کا موسمِ ادراک و آگہی
خلدِ ثنائے سرورِ کون و مکاں میں ہے

اُس عارضِ حسیں کی لیتا رہے بلائیں
لپٹا ہوا قلم سے صورت گری کا موسم

لکھا ہے اسمِ حضورؐؐ جس پر قلم وہ ایسا خرید کر لوں
میں اُنؐ کے دامن سے آج بھی کچھ حسین موسم کشید کر لوں

چوم کر ماتھا مرا کہنے لگے لوح و قلم
جو ملا موسم ہمیں موسم وہی سجدوں کا ہَے

شہرِ طیبہ کی ہواؤں سے ہَے میری دوستی
جو مدینے کا ہَے موسم وہ مرے اندر کا ہے

یہ قلم بھی ریاض کے ساتھ سرکار دو عالم ﷺ کا غلام ہے :

اس کے برہنہ سر پہ بھی چادر شعور کی
یہ بھی غلام آپؐ کا سرکارؐ ہے قلم

ریاض کے قلم کا اسلوب

ریاض کے قلم کو اسلوبِ مدحت بارگاہِ رسالت ﷺ سے عطا ہوا ہے :

سانس لے شہرِ محمدؐ کی فضاؤں میں قلم
میرے اُسلوبِ ثنا کو نورِ قرآنی ملے

قلم کو جو ملا ہَے آپؐ کے دربارِ اقدس سے
اُسی اسلوبِ مدحت کا ہَے چرچا آسمانوں میں

حضورؐ، میرا قلم گو بہت پرانا ہے
مگر میں لایا ہوں اسلوب مدحتوں کا جدید

اپنے سامانِ سفر میں رکھ رہا ہوں اس لئے
گنبدِ خضرا کی دیکھے گا قلم بھی تابشیں

کہکشائیں وَجْد کے عالم میں پڑھتی ہیں درود
پھول جھڑتے ہیں قلم سے رات بھر، آقا حضورؐ

کتابِ مدحتِ سرکارؐ پر ابرِ کرم برسے
ورق کا چوم کر ماتھا محبت کا قلم برسے

ریاض اپنے قلم کو اپنے وجود کا حصہ سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ پھر جو احساسات ان کے ہیں وہی ان کے قلم میں بھی حسیاتی کیفیات کو جنم دینے لگتے ہیں اور تخلیق نعت کے تجربے کا حصہ بن جاتے ہیں۔ :

سمیٹ لیتا ہوں لفظوں کو اپنے دامن میں
قلم، حضورؐ، ہے ہاتھوں کی انگلیوں کی طرح

قلم اور ریاض کا دل

نعت کے مطلع سے لے کر نعت کے مقطع تلک
رقص میں رہتا ہے میرا دل قلم کے روبرو

روز الست کا نور

عالمِ ارواح میں معلوم تھا مجھ کو ریاضؔ
مَیں قلم رکھ دوں گا آقاؐ کے نقوشِ پاک پر

روزِ الست آنکھ جو کھولی شعور نے
قدرت نے ایک نور سا ہاتھوں میں رکھ دیا

(ق)

میں نے بڑے خلوص سے چوما اسے ریاضؔ
اور پھر قلم حضورؐ کے قدموں میں رکھ دیا

عالمِ ارواح میں بھی رقص کرتا تھا قلم
یہ وفورِ نعت میری روح کے اندر کا ہَے

ازل سے ابد تک

جیسا کہ ریاض نے ’’زر معتبر‘‘ میں ’’تحدیث نعمت میں اپنی نعت گوئی کے حوالے سے اپنے منصب نعت گوئی کو ازلی قرار دیا ہے، وہ اپنے قلم کے منصب کو بھی ازلی قرار دیتے ہیں :

قلم ازل سے مقرر مرا ثنا پر ہَے
کرم، رسولِ مکرمؐ کا بے نوا پر ہے

ازل سے نسبتِ نقشِ قدم رہی حاصل
قلم کا ربط ابد تک رہا مدینے سے

ریاض کی مدحت نگاری ایک مسلسل عمل ہے جسے ان کے مطابق روز محشر کے بعد بھی جاری رہنا ہے۔ چنانچہ ان کا قلم قبر میں بھی ان کے ساتھ ہو گا اور نعت لکھتا رہے گا اور روز محشر بھی اسے نعت ہی لکھنا ہے :

بعدِ محشر بھی رہے سنگت خداوندِ جہاں
یا نبیؐ کہہ کر سرِ محشر اٹھے میرا قلم

دونوں مل کر نعت لکّھیں گے نئے انداز کی
روزِ محشر میرے سینے پر سجے میرا قلم

اپنے 15ویں مجموعہ نعت ’’کائنات محوِ درود ہے‘‘ میں لکھتے ہیں :

با ادب روشن فضاؤں میں رہے میرا قلم
خوشبوئے خلدِ مدینہ میں کھِلے میرا قلم

ایک اک نقطے سے پھوٹے چاند تاروں کی پھوار
تختیٔ عشقِ پیمبرؐ پر چلے میرا قلم

چوم لوں بڑھ کر اِسے فرطِ محبت سے ریاضؔ
جب لحد میں ہاتھ پر کوئی رکھے میرا قلم

قلم کا ذوقِ عبادت

ریاض کا قلم حالت سجدہ ہی میں رہتا ہے، نمازی ہے اور نعت لکھتا ہے :

قلم کو سجدہ ریزی سے نہ تھی فرصت مدینے میں
ورق پر اس کا بھی ذوقِ عبادت دیکھ آیا ہوں

خاص نسبت ہَے قلم کو آفتابِ نور سے
ایک میلہ سا مرے کمرے میں بھی کرنوں کا ہَے

چوم کر ماتھا مرا کہنے لگے لوح و قلم
جو ملا موسم ہمیں موسم وہی سجدوں کا ہَے

آخری سجدے کی مہلت دے اسے میرے خدا!
التجاؤں کے مصلّے پر گرے میرا قلم

حالتِ سجدہ سے اٹھّے جب مصلّے سے کبھی
نعتِ سرکارؐ مدینہ ہی لکھے میرا قلم

خلدِ طیبہ کے در و دیوار پر شام و سحر
رتجگے ہی رتجگے لکھتا رہے میرا قلم

سجود ثبت ہیں جن کے حرم کے دامن میں
مرا قلم بھی ہے ایسے نمازیوں کی طرح

توبہ گذار قلم

اجڑی ہوئی ہَے مانگ ورق پر حروف کی
خلدِ بریں کے لالہ و گل کا نزول ہو

کتنے ہی بت تراشتا رہتا ہے رات دن
یارب! مرے قلم کی بھی توبہ قبول ہو

لحد اور برزخ میں

قلم ازل سے ریاض کے ساتھ ہے، روضہ رسولؐ پر بھی آپ کے ساتھ ہے، لحد اور برزخ میں بھی آپ کے ساتھ ہے اور روز محشر بھی قلم ریاض کی معیت میں مدحت نگاری کے سرور میں کیفیت وجد میں ہے :

حشر تک چین سے سو جاؤ فرشتوں نے کہا
دیکھ کر قبر میں بھی صلِ علیٰ کا موسم

وہ لحد میں بھی مدحت نگاری کی حضوری میں رہنا چاہتے ہیں :

رخصت کے وقت میرے لبوں پر مرے رفیق
کشتِ ثنا و حمد سے کلیاں اٹھا کے رکھ

لکھّوں گا مَیں لحد میں بھی اپنے نبیؐ کی نعت
میرے قلم کو میرے کفن میں چھپا کے رکھ

ریاض کا قلم لحد اور عالمِ برزخ میں توصیف رسول ﷺ کا اذن ملنے پر شکر گذار ہے :

اذنِ ثنا ملا جو خدا کے حضور سے
برزخ میں یہ قلم مرا سجدے میں گر گیا

خدا کرے کہ لحد میں بھی ناز فرمائے
قلم وقار سے رہتا ہے گل رخوں کی طرح

اپنے قلم کو اپنے کفن میں چھپاؤں گا
مَیں بھی لحد میں نعت کی محفل سجاؤں گا

ریاض اور ان کا قلم محکم ارادے کے ساتھ لحد میں بیاض نعت مکمل کرنے کی نیت کر رہے ہیں :

قلم لحد میں کھلائے گا پھول لفظوں کے
بیاضِ نعت مکمل کریں گے مر کر بھی

روزِ حشر

روز حشر بھی ریاض کے قلم کا منصب مدح النبیؐ ہی ہے۔

لکھّے گا روزِ حَشر قصیدے حضورؐ کے
میرا قلم ہَے جامِ محبت پئے ہوئے

مَحشر کے بعد بھی قلم آنکھیں بچھائے گا
مَحشر کے بعد بھی مجھے نعتیں سنائے گا

بعدِ مَحْشر بھی مجھے تخلیق کا منصب ملے
بعدِ مَحشر بھی نہ ہرگز ہو قلم میرا علیل

21 ویں صدی کی پہلی طویل نظم ’’سلامٌ علیک‘‘ کے کئی بند ایسے ہیں جن میں روز حشر قلم کی مدحت نگاری کی تخلیقی کاوش سامنے آتی ہے۔

شریک سفر حشر میں بھی قلم ہو
قیامت کے سورج کی حدت بھی کم ہو

قلم حشر کے روز بھی گلفشاں ہو
ورق پر رقم عشق کی داستاں ہو

قلم حرف توصیف سے آشنا ہو
پرندہ تخیل کا بھی پرکشا ہو

درِ نور صل علیٰ کا کھلا ہو
لکھے وقت پھر روشنی کا وثیقہ

سلامٌ علیکَ، سلامٌ علیکَ
سلامٌ علیکَ، سلامٌ علیک

محشر کے بعد

اور بعد حشر کے حوالے سے لکھتے ہیں :

محشر کے بعد بھی جو رہے گا محیطِ جاں
میرا قلم کرم کے اُسی سائباں میں ہے

خلدِ بریں میں :

یارب! قلم مرا یہ مرے ہاتھ میں رہے
خلدِ بریں میں لکھّوں گا مدحت حضورؐ کی

ریاض عمر بھر نعت لکھتے رہے اور ریاض کا قلم ریاض کا محرم راز بن کر عشق مصطفیٰ ﷺ کی سرمدی کیفیات کا امین حرف و صوت کو ادب کی چاندنی میں گوندھ کر سمائے توصیف پر کہکشائیں بکھیرتا رہا۔ ریاض نے قلم کو اپنا تشخص دے رکھا تھا۔ اور اس استعارے میں مزیدکئی استعاروں کی بہاروں کو پرو رکھا تھا۔ دمِ آخر بھی نعت ہی میں محو فرشتۂ اجل کے ہمراہ ہو لئے۔

تتلیاں، جگنو، دھنک، شبنم، صبا، خوشبو، چراغ
دامنِ لوح و قلم میں استعارے ہیں بہت

’’اور اُس کی قسم جولکھتے ہیں‘‘ :

ریاض کہتے ہیں ’’یہ وفورِ نعت میری روح کے اندر کا ہے‘‘۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں ’’مَیں پھول بن کے قلم کی رگوں میں رہتا ہوں‘‘۔ روح کے اندر کا یہ وفورِ نعت قلم کو بھی تفویض ہو گیا اور ’’ومایسطرون‘‘ کی قسم کا فیض ریاض کے قلم کو بھی عطا ہوا اور کیفِ عشق میں ڈوبا ہوا قلم لکھتا چلا گیا :

مجھ سے پوچھا تھا کسی نے امنِ عالم کا نصاب
آخری خطبہ قلم سے خود بخود لکھّا گیا

اگرچہ یہاں ’قلم‘ ریاض کا مخصوص استعارہ ہی ہے مگر کہنے میں کچھ اسی طرح کی بات ہے جیسے پیر مہر علی شاہ گولڑوی ؒ نے مرزا قادیانی کو للکارتے ہوئے فرما دیا تھا کہ تفسیر ہم خود نہیں لکھیں گے قلم لکھے گا؛ اگر یہ شرط منظور ہے تو آ جاؤ مقابلے میں۔ یہ حسنِ اظہار کا کمالِ ’مایسطرون‘ ہے۔

تمنائے حضور میں ’’لمحاتِ حاضری کی تمنا لئے ہوئے‘‘ دیباچے میں لکھتے ہیں :

’’سکون اور اطمینان کا دریا میرے چاروں طرف موجزن تھا۔ عشقِ مصطفیٰ کے پانیوں میں تر اپنے ہونٹوں کو چوم رہا تھا۔ وہ ہونٹ جنہوں نے مجھے فکر و نظر کے شاداب موسموں اور مخمور ساعتوں کے گدازِ جاں سے ہمکنار کیا ہے۔ میں نے اپنے ہاتھوں کے ساتھ اپنے قلم کو بھی بوسہ دیا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔‘‘

تب وہ اپنے قلم کی حرفِ صداقت سے ضیافت کرتے ہیں :

لوحِ جاں پر مَیں رقم حرفِ صداقت کر لوں
کلکِ مدحت کی سرِ شام ضیافت کر لوں

قلم کے بوسے

پھر قلم کو بوسے ملتے رہے اور جہانِ حرف و صوت نے ریاض کے قلم کو چوما اور اپنی روح میں سمو لیا :

لکھتا ہوں لوحِ دل پہ ثنائے رسولؐ جب
بوسے قلم کے لیتی ہے خوشبو بھری ہوا

لکھّی ثنا تو لوح و قلم جھومنے لگے
فرطِ ادب سے ہونٹ مرے چومنے لگے

لکھنے لگا ہوں نعت رسالت مآبؐ کی
میرے قلم کو چومتے لفظو! ادب ادب

اصحابِؓ مصطفیٰؐ کے قدم چومتے چلو
تم بھی ریاضؔ اپنا قلم چومتے چلو

مدحت کی وادیوں میں صبا جھومتی رہے
میرے قلم کے ہونٹ سدا چومتی رہے

اس برس بھی رتجگے حمد و ثنا کے ہیں ریاضؔ
تم قلم کے ساتھ اپنے ہاتھ بھی چوما کرو

قلم کو چوم لے خوشبو دیارِ طیبہ کی
لکھوں مَیں نعتِ پیمبرؐ ادب کے ریشم سے

چومنے میں حسیّت اور لمس کی تجلی کا نظارہ تو کوئی اہلِ نظر ہی کر سکتا ہے۔ لمس، حسیّت اور ایمان و محبت کی چاندنی کی خنک موجیں روح کو کیسے سرشار کرتی ہیں یہ کوئی ریاض کے قلم سے پوچھے!

قلم کی سلامی

آقاؐ، مرے قلم کی سلامی کریں قبول
لوحِ ادب پہ حرفِ غلامی کریں قبول

خلاصۂ کلام

اللہ نے اپنے اس قلم اور قلم کی قسم کا فیض ہر دور کو دے دیا اور یہ فیض حضور علیہ السلام کے نعلین پاک کے صدقے سے ہر صاحبِ قلم کو اس کے حسبِ شان اور حسبِ استعداد مل رہا ہے۔ یہ فیض سیدنا عبدالقادر الجزائریؒ کو ملا، ہر مجدد کو ملا۔ امام شافعی کو ملا عمر بن عبدالعزیز کو ملا۔ امام فخرالدین رازی کو ملا، امام ابوالحسن اشعری کو ملا، امام ماتریدی کو ملا، امام سیوطی کو ملا، امام غزالی کو ملا، امام شوکانی کو ملا، ابن الجوزی کو ملا اور اگر دورِ حاضر میں دیکھا جائے تو یہ فیض اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی سے ہوتا ہوا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری تک پہنچا جنہوں نے ایک ہزار کتابیں لکھ دی ہیں جب کہ ان کا قلم لکھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ یہ ’’ن والقلم ‘‘ کا معجزہ ہے۔ اسی طرح دیگر مصنفین بھی اپنے اپنے نصیب کے مطابق ’’والقلم‘‘ کا فیض پا رہے ہیں۔ اس قلم کی دوات عشقِ مصطفیٰؐ ہے، نسبتِ مصطفی ہے، بارگاہِ اہلِ بیت اطہار کی خدمت ہے، محبتِ سیدہ کائنات ہے، محبت حسین کریمین ہے، محبت علی المرتضیٰ ہے، خدمتِ شیخین ہے اور اس قلم کی دوات محبتِ سیدنا غوث الاعظم ہے۔

ربِ نعت نے مدح النبیؐ کے فروغ اور اپنے محبوب ؐکے ذکر کی رفعت و اشاعت کے لئے عصر حاضر کو حافظ محمد مظہرالدین مظہر، حافظ سراج الحق لدھیانوی، حفیظ تائب اور ریاض حسین چودھری جیسے شعرائے رسول ﷺ عطا کئے اور انہیں مدحت نگار قلم عطا کر دیا اور نعت رنگ پر انوارِ توصیفِ مصطفیٰ ؐ کا ساون اتار دیا جس کی رم جھم نے پوری کائناتِ حرف میں تقدیسی کلام کا وہ موسم برپا کر دیا ہے جس کی لطافتوں میں انوارِ گنبد خضرا کی ترشحات کا لامتناہی سلسلہ رواں دواں ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :

أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللہ الْقَلَمَ، ثُمَّ خَلَقَ النُّوْنَ وَہِیَ الدَّوَاۃُ۔ قَالَ : وَذٰلِکَ فِی قَوْلِ اللہ عَزَّ وَجَلَّ : {نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَo}۔ ثُمَّ قَالَ لَہٗ : اُکْتُبْ۔ قَالَ : وَمَا أَکْتُبُ؟ قَالَ : مَا کَانَ وَمَا ہُوَ کَائِنٌ مِنْ عَمَلٍ أَوْ أَجَلٍ أَوْ أَثَرٍ۔ فَجَرَی الْقَلَمُ بِمَا ہُوَ کَائِنٌ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، ثُمَّ خَتَمَ عَلَی فِی الْقَلَمِ، فَلَمْ یَنْطِقْ وَلَا یَنْطِقُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، ثُمَّ خَلَقَ الْعَقْلَ۔ فَقَالَ الْجَبَّارُ : مَا خَلَقْتُ خَلْقًا أَعْجَبَ إِلَیَّ مِنْکَ، وَعِزَّتِیْ لَأُکْمِلَنَّکَ فِیْمَنْ أَحْبَبْتُ، وَلَأُنَقِّصَنَّکَ فِیْمَنْ أَبْغَضْتُ۔

[ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 56 : 208]

سب سے پہلے اللہ رب العزت نے قلم کو پیدا کیا، پھر اُس نے نون کو پیدا کیا اور وہ دوات ہے اوروہ اللہ تبارک وتعالی کا یہ قول ہے : {نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَo} ’نون (حقیقی معنی اللہ اور رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں) قلم کی قسم اور اُس (مضمون) کی قسم جو (فرشتے) لکھتے ہیںo‘۔ پھر اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا : (اے قلم!) تو لکھ۔ قلم نے عرض کیا : میں کیا لکھوں؟ اللہ رب العزت نے فرمایا : جو کچھ ہوچکا ہے اور جو کچھ عمل، موت یا اَثر سے (قیامت تک) ہونے والا ہے وہ سب لکھو۔ قلم نے لکھنا شروع کر دیا (یہاں تک کہ) قیامت تک کے ہونے والے تمام (واقعات و حوادث) لکھ دیے۔ پھر اللہ تعالی نے قلم پر مہر لگا دی اور پھر نہ وہ بول سکا اور نہ ہی قیامت تک بول سکے گا۔ پھر اللہ رب العزت نے عقل کو پیدا فرمایا اور ربِ جبار نے فرمایا : میں نے تجھ سے زیادہ عجیب شے پیدا نہیں کی۔ مجھے میری عزت کی قسم! میں ضرور ضرور تجھے اُس میں کامل کردوں گا جس سے میں راضی ہوں، اور میں ضرور ضرور تجھے اُس میں ناقص کر دوں گا جس سے میں ناراض ہوں گا۔‘‘

تفسیر میں آتا ہے کہ پھر جو کچھ اللہ نے تاقیامت علم دینا تھا قلم نے وہ بھی لکھا اورجو کچھ اللہ نے اسباب عطا کرنا تھے وہ بھی لکھ دئیے۔ جو اللہ رب العزت نے آثار پیدا کرنے تھے وہ بھی لکھے جو مخلوقات بھیجی تھی وہ بھی لکھیں اور تاقیامت ان کی آجال و اموات بھی لکھیں۔ اللہ رب العزت کے ہر دور کے ہر نشان اور ہر علامت کو بھی وہ قلم لکھ گیا۔ ہر دور کی نشانیوں کو بھی وہ قلم لکھتا رہا۔

یہ قدرت کا وہ قلم ہے جو مسلسل لکھتا چلا جا رہا ہے اور جس کے ساتھ ہم آہنگی اور تخلیقی نسبت، ربط اور تعلق رب کریم کی وہ نعمت عظمیٰ ہے جو روز محشر ہماری بخشش، نجات اور قدمَین پاک سے قربت کی ضمانت ہے۔ ریاض کے قلم کا منصب بھی قدرت کے قلم سے مدحت نگاری کی اسی ہم آہنگی سے وجود میں آیا ہے :

لکھّے گا روزِ حَشر قصیدے حضورؐ کے
میرا قلم ہَے جامِ محبت پئے ہوئے

مَحشر کے بعد بھی قلم آنکھیں بچھائے گا
مَحشر کے بعد بھی مجھے نعتیں سنائے گا

ریاض حسین چودھریؒ نے تقدیسی شاعری کا دامن فنی حسن سے بھی مالا مال کیا ہے۔ غزل کے علاوہ نظم کی جملہ ہیئتوں میں نعت لکھی ہے۔ اس ضمن میں ان کا مجموعہ کلام ’’نظم کی ہیئتوں میں حمد و نعت‘‘ خصوصی اہمیت کا حامل ہے اور جہانِ فن میں حسنِ شعری کا ایک انوکھا اضافہ ہے۔ ریاض تصدیقِ حسنِ رسالت ﷺ میں جہانِ سخن میں خوبصورت تجربات کرنے کا بڑا شوق رکھتے تھے۔ چنانچہ ’’یک مصرعہ‘‘ نظم کی ہیئت کو بھی نیا شعری حسن عطا کر کے کئی نظمیں لکھیں اور اس ہیئت کا نام ’’اکائی ‘‘ رکھا۔ چنانچہ ایسی تمام نظموں کو انہوں نے ’’اکائی‘‘ کے نام سے اپنے ایک نئے مجموعے میں شامل کیا۔ یہ کتاب حال ہی میں نعت ریسرچ سنٹر کراچی نے شائع کی ہے۔ ’’قلم ‘‘ کے عنوان سے اس کتاب میں اکائی کی ہیئت میں ایک خوبصورت نظم ملاحظہ فرمائیں :

قلم

قلم
حضورؐ ثنا کے دیے جلاتا ہے

قلم
ہے شہرِ محبت کا ایک باشندہ

قلم
ہوائے مدینہ کا ایک شیدائی

قلم
کو مشعلِ مدحت خدا نے بخشی ہے

قلم
حروفِ ثنا کا شعور رکھتا ہے

قلم
ہے علم کی بنیاد ہر زمانے میں

قلم
ہے حکمت و دانش کا ہمسفر لوگو!

قلم
بنا ہے ثنائے رسولؐ کی خاطر

قلم
حضورؐ کی گلیوں کی دلکشی مانگے

قلم
ورق پہ ستارے بکھیر دیتا ہے

قلم
کہ شہرِ پیمبرؐ کا ہے تمنائی

قلم
ادب کے مصلّے پہ سجدے کرتا ہے

قلم
کو نعتِ پیمبرؐ کا نامہ بر لکھوں

قلم
چراغ جلاتا ہے اُنؐ کی مدحت کے

قلم
گلاب کھلاتا ہے صحنِ گلشن میں

قلم
غبارِ مدینہ سے پھول چُنتا ہے

قلم
ہمارے بھی اشکوں کا ترجماں ٹھہرے

یہ ہے ریاض حسین چودھریؒ کی خلد سخن میں قلم کے استعارے کا وہ حسنِ فن جو انہیں خالقِ حرف و صوت نے عالمِ ارواح میں ہی ودیعت کر دیا اور آپ نے اسے بڑے خلوص سے بوسہ دے کر رسولِ محتشم ﷺ کے قدمَین پاک میں وقفِ ثنا کر دیا۔ ربِ کریم نے عشقِ مصطفیٰ ﷺ کی دوات اور قلم کی قسم کھائی اور ان سب مضامین کی قسم کھائی جو قلم سے نوریوں نے لکھے اور مسلسل لکھے جا رہا ہیں۔ اللہ رب العزت نے اپنے جس دوست کے لئے قلم سے جو لکھوا دیا وہ اُس صحابی، محدث، مجدد، غوث، ابدال اور شاعرِ رسول ﷺ کے قلم سے ظہور پذیر ہونا ہے کیونکہ اللہ الصمد نے اس کی قسم کھا رکھی ہے۔ ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ کی شان والے نبی آخرالزماں ﷺ کی مدح و ثنا کے آبخورے زمزمِ عشق سے بھرے ہوئے ہیں اور نوکِ قلم پر توصیفِ مصطفیٰ ﷺ کی کہکشاؤں کا ہجوم ہے، نور کے دھارے اتر رہے ہیں، جس سے عشقِ رسول ﷺ کا موسم لپٹا ہوا ہے، مدینے کی خوشبو کے پھریرے جس کا طواف کرتے رہتے ہیں اور جو ثنائے خواجہ ﷺ کے نشاط و سرور کا ریشم اوڑھ کر، حرفِ ثنا کی تتلیوں کے پیرہن میں تقویٰ اور اخلاص کے مصلے پر ہمہ وقت سربسجود ہے۔ قدرت کے قلم کا فیض پا کر ریاض کا قلم مضامینِ مدح و ثنا کے ساون میں بھیگا رہتا ہے۔ یہ جنونِ نعت نگاری جو ان کے قلم کا مقدر ہے، ریاض اسے سلام پیش کرتے ہیں :

اے قلم، میرے قلم، تیرے مقدر کو سلام
نعتِ پیغمبرؐ کے ہر حرفِ مصوَّر کو سلام

ریاض مدح النبی ﷺ کو ارتقا کا زینہ قرار دیتے ہیں اور دورِ فتن کے خطرات جو اس ارتقا کے راستے مسدود کر سکتے ہیں ان سے بچاؤ کے لئے چوکس اور بیدار رہتے ہیں :

مجھے یہ خوف مسلسل جگائے رکھتا ہے
حضورؐ روک نہ دے وقت ارتقا میرا

لہٰذا وہ التجا کرتے ہیں :

نعتِ حضورؐ جس کی زباں پر نہیں رقم
مولا! قلم سے وہ زرِ زیبائی چھین لے

مگر وہ مطمٔن ہیں کہ ان کا قلم خوش نصیب ہے کہ اسے نگاہِ مصطفیٰ ﷺ کی تجلیاتِ دعا میسر ہیں :

اُٹھے گا نعت لکھتے ہوئے روزِ حشر بھی
حاصل مرے قلم کو دعائے رسولؐ ہے