ریاضؔ کے ہاں غزل کا اَستعارہ اور اُسلوب و معنویت کا فروغ- ریاض حسین چودھریؒ کی نعت نگاری

ریاض حسین چودھری کے طرزِ احساس، حسن کلام اور بھرپور ابلاغ کے وسائل کے حوالے سے اربابِ نقد و نظر اور اساتذۂ فن نے شرح و بسط سے لکھا ہے اور ان کے شعورِ نعت کی تشکیل و تزئین، اسلوب اور فروغِ معنویت کے ان شعوری اور لاشعوری عوامل پر روشنی ڈالی ہے جن کے بارے میں خود اپنی نثر و نظم اور غزل کے کاسۂ اظہار میں صدق و اخلاص کے آفاق سے طلوعِ سحر کے نقشے پیش کئے ہیں۔ مگر پہلا اہم نکتہ یہ ہے کہ آخر اتنا لکھے جانے کے بعد بھی کیا ضرورت ہے کہ اس پر مزید لکھا جائے۔

در اصل غزل کے شاعر اور پھر’’ غزل کاسہ بکف‘‘ کے شاعر حمد و نعت کی جو رم جھم اپنی لسانی جادوگری سے تخلیق کر گئے ہیں اس کی وسعتِ داماں کی ابتدا و انتہا کا اندازہ لگانا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ زرِ معتبر میں اپنی تعارفی تحریر میں ریاض خود لکھتے ہیں :

’’مجھے نہیں خبر کہ کب منصبِ نعت گوئی کا زائچہ ہاتھ پر رقم ہوا، اور کب اور کہاں متاعِ قلب و جگر مکینِ گنبدِ خضرا کے نعلین پاک پر نثار ہوئی۔‘‘

جو بات ریاض کی نعت کا مطالعہ کرنے والے اور ادبِ نعت کا ذوق رکھنے والے ہر قاری نے محسوس کی ہے اس کی مابعد الطبیعات پر مفکرین ادب اور اساتذۂ فن نے خوب لکھا ہے اور یہ بات تسلیم کی ہے کہ نعت توفیق ایزدی ہے اور جو نعت ریاض نے تخلیق کی ہے اور جس اسلوب، لب و لہجے اور شعری لغت کو اپنایا ہے وہ منجانب اللہ ہے۔ یقیناً نعت میں شعریت کی یہ ایک وہبی صورت ہے۔ یہاں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم یہاں ریاض کی نعت کا شعری اور فنی جائزہ لیتے ہوئے یہ بات کہہ رہے ہیں اور یہ ذاتی پسندیدگی یا شہرت کی جستجو کا معاملہ ہر گز نہیں۔ بھلا احمد ندیم قاسمی، حفیظ تائب، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر سید محمد ابو الخیرکشفی، پروفیسرڈاکٹر محمد اسحٰق قریشی، ڈاکٹر ریاض مجید اور ڈاکٹر خورشید رضوی اور دیگر سرکردہ نامور ادیب، شاعر، محققین اور مفکرین ادب کیونکر ریاض کی تخلیق نعت کے ضمن میں ایک ہی مشاہدے کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ دیکھئے جناب محمد افضل فقیر تخلیق نعت کے حوالے سے نعت کے مثالی اسلوب کے ضمن میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ ان کی یہ تحریر جناب صبیح رحمانی کی مرتّبہ کتاب ’’اردو نعت کی شعری روایت‘‘ میں چھپی ہے :

’’دیگر اصنافِ سخن کی طرح نعت اور نعت گو کے باہمی ربط کا تجزیہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ شاعر کے کردار کی پاکیزگی، صفائے باطن اور اخلاصِ عمل کی تاثیرات اس کے پیکرِ نعت میں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ ایک صاحبِ ذوق عارف کسی صنفِ سخن میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کرے، متصوّفانہ نظریات سے اس کا کلام لبریز نظر آئے گا۔ پھر صنفِ نعت تو باطنی ارادت کی عظیم ترین ترجمان ہے۔ ایک مرتبہ مولانا غلام قادر گرامی نے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو لکھا کہ حضرت شاہ نصیر الدین چراغ دہلوی قدس سرہ کی زمین میں شعر لکھنے کے لئے اُن کا وجدان اور تقویٰ کہاں سے لاؤں؟معلوم ہوا کہ عظمتِ تقویٰ اور بلندیٔ کردار شہ پارۂ نظم پر اس طرح متجلّی ہوتے ہیںکہ پھر اس کی تقلید بھی از قبیل محالات ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ عمومی طور پر دیگر نعت گو حضرات بھی ہیں، ان کی کاوش بھی قابلِ ہزار تحسین ہے کہ اُن کے سینوں میں اقرارِ توحید و رسالت موجود ہے، جو معارفِ نعت کا مخزن ہے۔ پھر اس کے ساتھ احساس گنہ گاری بھی ہے جو توبہ و انابت کی اصل ہے اور احساسِ ندامت ایک ایسا لامعہ نیاز ہے جس کی سرحدیں الطافِ ذاتِ لم یزل کو مماس ہیں۔ ویسے بھی ہر کلمہ گو پر واجب ہے کہ اپنے ولیء نعت کا سپاس گزار رہے۔ ہر وہ امتی جس کی زبان یا قلم سے کوئی مدحیہ کلام بہ صورتِ نظم و نثر صادر ہو ایک سپاس گزار ناعت ہے۔‘‘

یہی وہ صفائے باطن اور اخلاصِ عمل کی تاثیرات ہیں جنہوں نے ریاض کی باطنی ارادت کو جنم دیا۔ پھر کچھ بھی ان کے بس میں نہ رہا۔ تخلیق نعت کا شعور انہیں کب ودیعت ہوا، یہ انہیں معلوم نہیں، البتہ وہ اپنی سوچ کے حوالے سے یہی جانتے ہیں :

میں تو کیا سوچیں بھی میری دست بستہ ہیں ریاض
جب بھی سوچوں گا نبی کی نعت ہی سوچوں گا مَیں

یہ وہ منفرد نعت نگاری ہے جو ریاض کو ودیعت ہوئی اور جس کے لئے انہیں اسلوب و معنویت وہبی طور پر عطا ہوا۔ ان کی نعت اسلوب و معنویت کی ایسی وحدت کو جنم دیتی ہے جسے ریاض کے طرز احساس کا کرشمہ ہی کہا جاسکتا ہے۔

ریاضؔ کے اسلوب کے تشکیلی مراحل

شعر کا معرضِ وجود میں آنا الفاظ کے حُسنِ انتخاب اور استعمال کے سلیقے پر موقوف ہے اور یہ حسنِ انتخاب اور سلیقہ اس طرزِ احساس سے پھوٹتا ہے جسے شاعر یا ادیب کے ذہن میں زندگی کا ہر لمحہ، ہر دن، زندگی کی ہر نئی صورتحال اور ہر نیا دور اور زمانہ پیدا کرتا ہے۔ یعنی جب کسی صاحبِ طرز ادیب یا شاعر کا احساس اظہار کے سانچے میں ڈھلتا ہے تو اسلوب وجود میں آتا ہے۔ گویا اُسلوب وہ پیرایہ اظہار ہے جو حسی لغت کی معنوی تہوں کو جوڑنے سے متشکل ہوتا ہے اور یہ فن کار کی تخلیقی شخصیت اور فن کارانہ مہار ت کا نتیجہ ہوتا ہے، جیسے کوئی مرصّع ساز الفاظ کے نگینے یوںجوڑتا چلا جائے کہ اگر کوئی لفظ ہٹا کر اُسی کا ہم معنیٰ دوسرا لفظ رکھ دیا جائے تو ساری عبارت روکھی، پھیکی اور بدمزہ ہو جائے۔

ابو الاعجاز حفیظ صدیقی نے کشاف تنقیدی اصطلاحات مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد سے 1985ء میں شائع کی۔ وہ اس میں اسلوب کی وضاحت ا س طرح کرتے ہیں :

اسلوب سے مراد کسی ادیب یاشاعر کاوہ طریقۂ ادائے مطلب یا خیالات و جذبات کے اظہار و بیان کا وہ ڈھنگ ہے جو اس خاص صنف کی ادبی روایت میں مصنف کی اپنی انفرادی خصوصیت کے شمول سے وجودمیں آتاہے اور چونکہ مصنف کی انفرادیت کی تشکیل میں اس کاعلم، کردار، تجربہ، مشاہدہ، افتادِ طبع، فلسفہ حیات اور طرزِ فکر واحساس جیسے عوامل مل جل کر حصّہ لیتے ہیں اس لیے اسلوب کو مصنف کی شخصیت کاپرتو اور اس کی ذات کی کلید سمجھا جاتاہے۔

حفیظ صدیقی، ابو الاعجاز، مرتب، کشاف تنقیدی اصطلاحات، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، 1985ء، ص 13

ریاض جیسے تخلیق کاروں کو یہ صلاحیتیں بغیر اکتساب کئے ان کے نفس ناطقہ میں تفویض کر دی جاتی ہیں جس کے مظاہر ان کی وہ لسانی و کیفیاتی نغمگی اور جذباتی اور تصوراتی بلند پروازی ہوتے ہیں جو ان کے بس میں نہیں ہوتے اور خود رو تخلیقی عمل کے پیرہن میں نمو پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ ان کے اظہار کے پیمانے کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں:

کاسۂ سر ہو کہ ہو ساغرِ افلاک اصغرؔ
آج کی رات رہی گردشِ ہر جام دراز

(اصغر سودائی)

مسلسل اور بھرپور نعت

احمد ندیم قاسمی نے1995ء میں شائع ہونے والے ریاض حسین چودھری کے پہلے مجموعۂ کلام کا سر ورق لکھتے ہوئے انہیں ''اس دور کے سب سے بڑے نعت نگار حفیظ تائب اور ایک اور نعت نگار حافظ لدھیانوی کی صف میں شمار کرتے ہوئے تحریر کیا :

’’ریاض چودھری اس دور کا ایک بھرپور نعت نگار ہے۔ ''بھرپور'' کا لفظ مَیں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے، اس نعت نگار کے کلام میں محبت کی سرشاری بھی ہے، لفظ اور لہجے کی موسیقی بھی ہے اور پھر وہ حدِ ادب بھی ہے جو نعت نگاری کی اولین اور بنیادی شرط ہے۔‘‘

اپنے تخلیقی عمل کو انجام تک پہنچانے کو جی نہ چاہنے کی کیفیت اور بھرپور نعت نگار ہونے کے مشاہدات ریاض کی نعت نگاری کی معنوی اور فنی وسعتوں کی سیربین ہے، اس حقیقت کے شواہد خود ریاض کے کلام میں موجود ہیں۔ اپنے پندرھویں مجموعہ کلام میں لکھتے ہیں :

مجھے کامل یقیں ہے موسمِ مدحت کی رم جھم میں
وفورِ نعت کے لب پر رہے گی انتہا رقصاں

اسی طرح اپنے 22ویں نعتیہ مجموعے ''وردِ مسلسل'' میں لکھتے ہیں :

سر پر ہے ثنا خوانی کی دستار مسلسل
کھلتے ہیں مری شاخوں پہ افکار مسلسل

’’مسلسل‘‘ کا لفظ ان کے ہر مجموعہ کلام میں مختلف صورتوں میں کئی بار استعمال ہوا ہے۔ نعتِ مسلسل کی ترکیب بھی استعمال ہوئی ہے۔ پہلے ہی مجموعے ’’زرِ معتبر‘‘ میں یہ لفظ کوئی سولہ مرتبہ آیا ہے اور نعتِ مسلسل، کیفِ مسلسل، اضطرابِ مسلسل اور فیضانِ مسلسل جیسی تراکیب استعمال کی گئی ہیں، جہاں وہ لکھتے ہیںکہ قرآن ایک مسلسل نعت ہے اور خود اسمِ محمد ﷺ ایک مسلسل نعت ہے :

ریاضؔ اسمِ محمدؐ تو خود اِک نعتِ مسلسل ہے
ترے الفاظ کیا، تیرا قلم، تیری زباں کیا ہے

یوں ریاض نے’’بھرپور‘‘ نعت لکھی اور مسلسل لکھی۔ ریاض جب نعت لکھنے لگتے ہیں تو لکھتے چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک مجموعہ نعت کا نام ہی’’ ورد مسلسل‘‘ رکھا ہے۔ اس مجموعہ نعت کے حوالے سے ریاض کی نعت کے فنی پہلوؤں کا جائزہ اس کتاب کے آخری صفحات میں الگ سے ایک مضمون میں لیا گیا ہے۔ اس سے تکرار کا احساس تو ہوتا ہے مگر نفس مضمون مختلف ہے۔

ریاضنے جو طویل نعت نگاری کی، اس کی مثال ایک خود رو چشمے کی طرح ہے جو پھوٹ پڑتا ہے اور بہنے لگتا ہے اور بہتا چلا جاتا ہے اور اسے ''زم زم'' کہنے والا کوئی نہیں۔ اس طوفانی چشمے کے پیچھے کون سا تخلیقی عمل کارفرما ہے اسے ریاض ازل سے نعت گوئی کا تخلیقی تجربہ قرار دیتے ہیں جس کا اظہار ان کے تمام مجموعہ ہائے نعت میں ملتا ہے۔ وہ'' متاعِ قلم'' مطبوعہ 2001ء میں لکھتے ہیں :

روزِ ازل سے مجھ پہ کرم ہے حضور ﷺ کا
ورنہ ریاضؔ کیا مری اوقات اور مَیں

دیدارِ مصطفیٰ ﷺ کی تمنّا لئے ہوئے
روزِ ازل سے ایک پرندہ سفر میں ہے

خلدِ سخن میں لکھتے ہیں :

ازل سے روشنی خلدِ سخن میں رہتی ہے
ازل سے چاند ستارے ورق پہ ملتے ہیں

ان کی نعت کے مضامین متنوع اور اَن گِنت ہیں اور زندگی کے جملہ معاملات و مسائل کو محیط ہیں۔ یہ تنوع صرف مضامین کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ وسائلِ اظہار کے حوالے سے بھی ہے۔ انہوں نے تشبیہات، استعارات، تراکیب، رعایات اور نعتیہ لغت کے معانی کو بھی وسعتیں عطا کی ہیں اور نئی تراکیب اورنئے استعارات تخلیق کئے اور شعری روایت میں گراں بہا اضافے کئے ہیں جس سے زیبائشِ اظہار کے حوالے سے اردو کے نعتیہ ادب میں لغوی حسن کو فروغ ملا ہے۔ ریاض نے زندگی کے جدید حوالوں کے مطالب و مفاہیم روائتی نعت کے دامن میں ڈال کر ایک نئی دنیائے معانی اور ایک نیا جہانِ حرف و صوت تخلیق کیا جو صرف ریاض کا جہانِ نعت ہے۔

روشنی کا شاعر

انہیں روشنی کا شاعر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ غزل کاسہ بکف میں 47 اشعار پر مشتمل سہ نعتیہ لکھتے ہیں :

شہرِ حضورؐ کا ہے تصوّر بھی چاند رات
شہرِ حضورؐ کی ہے تمنا بھی روشنی

عرضِ دعا میں جس کے ہیں دیوار و در ابھی
طیبہ میں میرے گھر کا وہ نقشہ بھی روشنی

سورج اگے ہوئے ہیں حروفِ سپاس میں
نعتِ نبیؐ کا مصرعِ تنہا بھی روشنی

نعتِ حضورؐ چشمۂ انوار ہے مگر
ہے لفظ لفظ نعت کا تنہا بھی روشنی

توصیفِ مصطفی کی کتابِ سخن ہے نور
لوحِ ثنا کے لفظ کا نقطہ بھی روشنی

جو روشنی فصیل ہے شہرِ حضورؐ کی
اُس روشنی کو دیکھنے والا بھی روشنی

اتنی سی بات ہوتی نہیں منکشف، حضورؐ
ہے بے غرض عمل کا نتیجہ بھی روشنی

چومے ہیں اس نے نقشِ کف پائے مصطفیٰ
اس پھول سی زمین کا چہرہ بھی روشنی

الفاظ محترم ہیں کہ نعتِ نبیؐ کے ہیں
اوراق اور قلم مرے سب روشنی کے ہیں

مصروف ہے طوافِ مسلسل میں روشنی
یہ روضۂ نبیؐ ہے نگاہو! ادب ادب

اس پھول سی زمین کا چہرہ بھی روشنی
الفاظ محترم ہیں کہ نعتِ نبیؐ کے ہیں

اوراق اور قلم مرے سب روشنی کے ہیں
مصروف ہے طوافِ مسلسل میں روشنی

یہ روضۂ نبیؐ ہے نگاہو! ادب ادب

’’کائنات محو درود ہے‘‘ میں لکھتے ہیں :

یہ مدینے کے در و دیوار کا فیضان ہے
میرے دستِ بے ہنر میں روشنی ہے روشنی

کسی شاعر یا ادیب کی شخصیت کی تشکیل و ترتیب اور اٹھان کسی مخصوص عہد اور ماحول کی دین ہوتی ہے۔ موضوع کا انتخاب بھی اپنے عہد کے تقاضوں سے مشروط ہوتا ہے جب کہ مقاصد کے ابلاغ میں مخاطب کی ذہنی سطح او رپسند و ناپسند کو بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ شاعر ہو یا ادیب وہ اس ادبی روایت کا بھی پروردہ ہوتا ہے جو اسے ورثے کے طور پر ملتی ہے۔ وہ جس کے سہارے اپنے جمالیاتی ذوق کو نکھار عطا کرتا ہے، مرصّع کاری کے نئے انداز اپناتا اور خصوصی لسانیاتی مہارت پیدا کرتا ہے تاکہ ماضی میں کہی ہوئی باتوں کو بہ اندازِ دگر پیش کر سکے اور اپنی انفرادیت کا نقش جما سکے اور اپنے فن میں آفاقی شان پیدا کر سکے۔ [نبیلہ ازہر، مقالہ برائے پی ایچ ڈی، کلام غالب کا لسانی و اسلوبیاتی مطالعہ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد]

اس طرح اسلوب خارجی حالات یا ماضی اور حال کا عکس ہونے کی صورت میں سامنے آتا ہے اور ہر نیا اسلوب اظہار کے ایک نئے مستقبل کو دریافت کر رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہماری اردو زَبان، ادب اور اس کے اسالیب ایسے زمانے کی پیداوار ہیں جب ہندوستان میں مسلمانوں کا خارجی اقتدار ختم ہو رہا تھا مگر قوم نے ایک نیا اسلوبِ بیان ایجاد کر کے اپنے کردار اور اپنے وجود کو ازسرِ نو ترتیب دیا اور نئے ذریعہ اظہار کی ایجاد قوم کے لیے نئی زندگی کی تخلیق تھی۔ یوں اگر نئے اسالیبِ بیان تلاش کرنے سے دلچسپی نہ رہے تو ادبی سطح پر جمود اور تعطّل پیدا ہو جاتا ہے۔ [محمد حسن عسکری، تخلیقی عمل اور اسلوب، مرتبہ : محمدسہیل عمر، نفیس اکیڈمی اردو بازار، کراچی، 1989ء، ص187]

ان خارجی عوامل کے ساتھ ساتھ تشکیلِ اسلوب کے داخلی مظاہر میں مصنف کا مزاج، اس کی شخصیت، اس کا ذہن و کردار، اس کی علمیت کا معیار اور رُجحانِ طبع مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی لیے اسلوب کو فن کار کی شخصیت کا پَرتو اور ذات کی کلید سمجھا جاتا ہے۔ اردو افسانے میں اسلوب اور تکنیک کے تجربات میں تشکیل اسلوب کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ اسلم لکھتی ہیں :

اسلوب ایک ادیب کی مسلسل ریاضت سے، اس کی ذات کا حُسن، اس کی مخصوص لفظیات، کمپوزیشن کا مخصوص طرز، اس کے اطوار، ایک خاص طرز کے فقرے، اس کی موضوع کے ساتھ وابستگی(Committment) اور پھر بار بار اس کا استعمال رفتہ رفتہ ایک طرز کو جنم دیتا ہے اور یہی اسلوب بن کر اس کی شخصیت کے ظہو رکا سبب بن جاتا ہے۔ [فوزیہ اسلم، ڈاکٹر، اردو افسانے میں اسلوب اور تکنیک کے تجربات، پورب اکادمی، اسلام آباد، 2007ء، ص : 30]

فروغِ معنویت کا راستہ

شیخ اکبر محی الدین بن عربی فی معرفۃ أسرار أہل الإلہام (اہل الہام کے اسرار کی معرفت) کے باب میں حواس پر سیر حاصل بحث کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ہر چیز تہ در تہ ہوتی ہے۔ کچھ چیزیں حواس سے معلوم ہوتی ہیں اور کچھ اشیاء حواس کے ادراک سے بالا ہوتی ہیں۔ مگر عقل وہی کچھ جانے گی جو اُسے حواس سے معلوم ہوگا۔

حواس خمسہ کا ایک عمل (process) ہے۔ جب تک حواس ظاہری صورت اور باطنی معانی عقل کو نہیں پہنچاتے، اُس کا عمل (process) شروع ہی نہیں ہوتا۔ عقل کا کارخانہ اس وقت تک بند پڑا رہتا ہے جب تک حواس اسے خام مال مہیا نہ کریں۔ ہم کبھی تنہا حواس پر بھروسہ نہیں کر سکتے، کیونکہ وہ کسی نتیجے پر پہنچانے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور نہ ہی تنہا عقل پر بھروسہ کر سکتے ہیں، اس لیے کہ عقل کا اپنا بھروسہ حواس پر ہے۔ لیکن عقل کے اپنے باطنی حواس ہیں۔

1۔ حسِّ مشترک : جو چیز ہم نے دیکھی، سُنی یا چُھوئی اس کی ظاہری صورت اور اس کا ادراک حسِ مشترک میں جاتا ہے۔ گویا انسانی عقل کا یہ گوشہ حواسِ ظاہری کے تاثرات وصول کرتا ہے۔

2۔ حسِّ خیال : یہ حس حسِّ مشترک میں پہنچنے والی مدرکات اور محسوسات کی تصاویر اور اشکال کو ظاہری صورت میں اپنے اندر محفوظ کر لیتی ہے۔

3۔ حسِّ واہمہ : حسِ واہمہ بھی وصول کرنے کا ایک دفتر ہے۔ جس طرح کسی لفظ، کسی شے اور ادراک کی ظاہری صورت حسِ مشترک میں وصول ہوئی تھی، اس طرح حسِ واہمہ اُس صورت کا معنیٰ و مفہوم وصول کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں حسِ مشترک نے اُس صورت کو وصول کیا جب کہ حسِ خیال نے اسے محفوظ کر لیا۔ یہ اس کا اسٹور ہے۔ تیسرے شعبہ حسِ واہمہ نے اُس صورت کے معنیٰ کو وصول کیا۔

4۔ حسِّ حافظہ : حسِّ واہمہ نے جو معنیٰ وصول کیا تھا، اُسے حسِ حافظہ نے محفوظ کرلیا۔ یہ اُس شے کے معنیٰ کو اسٹور کرتا ہے، اس خوبی پر اسے حافظہ کہتے ہیں۔

5۔ حسِّ متصرّفہ ؍ متخیّلہ ؍ مفکّرہ : پانچواں شعبہ حسِ متصرّفہ ہے، جسے متخیلہ اور متفکرہ بھی کہتے ہیں۔ اس کا کام ’حسِ مشترک‘ میں آنے والی ظاہری صورت کو ’حسِ واہمہ‘ میں حاصل ہونے والے معنیٰ سے اور’ حسِ خیال‘ میں محفوظ شکل و صورت کو ’حسِ حافظہ‘ میں محفوظ مفہوم کے ساتھ جوڑ دینا ہے۔ یوں مختلف الفاظ کے انسلاکات جنم لیتے ہیں، ان کی معنوی تہیں وجود میں آتی ہیں، شعری رعایتیں، استعارات، کنایے، مجاز مرسل اور دیگر معنوی صنعتیں اسی’ حس متصرفہ‘ کا کمال ہے۔

معنویت کے ارتقائی عوامل

تمام معقولات کی بنیاد محسوسات پر ہے۔ عقل کے سارے تصورات اور معلومات کا سارا انحصار مدرکات پر ہے۔ جو کچھ حواس بھیجتے ہیں عقل اسی مواد کو باہم مربوط کرتی اور منظم کر کے علم کی شکل دیتی ہے۔

شیخ اکبر محی الدین ابن عربی فی معرفۃ أسرار أہل الإلہام (اہل الہام کے اسرار کی معرفت) کے باب میں لکھتے ہیں :

وَہٰذَا مِنْ أَعْجَبِ الْأُمُوْرِ عِنْدَنَا أَنْ یَکُوْنَ الإِنْسَانُ یُقَلِّدُ فِکْرَہ، وَنَظَرَہ، وَہُوَ مُحْدَثٌ مِثْلُہ۔ [ابن عربی، معرفۃ أسرار أہل الإلہام (اہل الہام کے اسرار کی معرفت)]

ہمارے نزدیک یہ بڑی عجیب چیز ہے کہ انسان اپنے فکر و نظر کا مقلّد بنتا ہے حالانکہ عقل بھی اُسی طرح حادث ہے جیسے خود سارا اُس کا وجود ہے۔

شیخ اکبر فرماتے ہیں کہ عقل خود انہی قواء کی محتاج ہے، جس کا انحصار اُسی محدود جسم کے اپنے حواس کی معلومات پرہے۔ بندہ اپنی محدود عقل کو لامحدود سمجھ کر اُس کے فیصلوں کا مقلّد اور پیروکار بننا چاہتا ہے۔ انہوں نے مزید فرمایا ہے :

جَعَلَ الْعَقْلَ فَقِیْرًا إِلَیْہِ یَسْتَمِدُّ مِنْہُ مَعْرِفَۃُ الْأَصْوَاتِ۔ وَلَیْسَ فِی قُوَّۃِ الْعَقْلِ مِنْ حَیْثُ ذَاتِہِ إِدْرَاکُ شَیءٍ مِنْ ھٰذَا مَا لَمْ یُوْصِلُہ، إِلَیْہِ السَّمْعُ۔ وَکَذَالِکَ الْقُوَّۃُ الْبَصَرِیَّۃُ۔ جَعَلَ اللہ الْعَقْلَ فَقِیْرًا إِلَیْہَا۔ [ابن عربی، معرفۃ أسرار أہل الإلہام (اہل الہام کے اسرار کی معرفت)]

اللہ تعالیٰ نے عقل کو حواس کا فقیر یعنی محتاج بنایا ہے۔ وہ ان سے آوازوں کی پہچان میں مدد لیتی ہے۔ بذاتِ خود عقل میں یہ طاقت اور قوت نہیں ہے کہ وہ کسی شے کا اِدراک کرسکے جب تک کہ سماعت اس تک کوئی پیغام نہ پہنچائے، یا قوتِ باصرہ اسے کوئی معلومات فراہم نہ کرے۔ گویا عقل کو اللہ تعالیٰ نے حواس کا محتاج بنایا ہے۔

شیخ محی الدین ابن عربی نے اسی طرح عقل کے حسِ مشترک، حافظہ، واہمہ اور حسِ خیال اور حسِ متصرفہ پانچوں حواس کا ذکرکرتے ہوئے عقل کو محدود اور حواس کا محتاج ثابت کیا ہے۔

حاصلِ کلام یہ ہے کہ اِس پر کسی کی دو رائے نہیں ہے کہ عقل نہ صرف حواس کی محتاج ہے بلکہ اُس کی فرماں روائی اور علم حاصل کرنے کی قوت بھی محدود ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :

اَلْعِلْمُ عِلْمَانِ : فَعِلْمٌ فِی الْقَلْبِ وَذٰلِکَ الْعِلْمُ النَّافِعُ، وَعِلْمٌ عَلَی اللِّسَانِ فَذَالِکَ حُجَّۃُ اللہ عَلَی ابْنِ آدَمَ۔ [سنن الدارمی، 1 : 114]

علم دو (طرح کے) ہیں : ایک علم دل میں ہوتا ہے اور یہ علم نافع ہے اور ایک علم زبان پر ہوتا ہے، یہ ابن آدم پر اللہ تعالیٰ کی حجت ہے۔

اس حدیث مبارک میں سرورِ انبیاء ﷺ نے علم کی دو اقسام بیان فرمائی ہیں :

پہلا علم وہ ہے جو قلب کے اندر متمکن ہوتا ہے، یعنی جب یہ علم باطن پر وارد ہوتا ہے، اس کا ورودِ تام ہوتا ہے تو یہ حق الیقین بنتا ہے۔ یہ وہ یقین ہے جو قلب سے جنم لیتا ہے اور اسے علم نافع کہتے ہیں۔

دوسرا علم وہ ہے جو زبان پر ہے۔ یہ علمِ حجت ہے۔ اس علم سے فرائض و واجبات، محرمات اور منہیات متعین ہوتے ہیں۔ یہ علم واجب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علمِ واجب بھی حاصل ہونا چاہیے اور علمِ نافع بھی تاکہ بندہ دونوں کمالات تک بخوبی پہنچ سکے۔

دوسرے لفظوں میں زبان سے صادر ہونے والا علم، علم ظاہر ہے۔ اُس سے فرائض اور واجبات متعین ہوتے ہیں اور یہ حجت ہے؛ مگر جس علم کا پودا قلب کی زمین پر اگتا ہے، وہ اصل میں نافع علم ہے۔

زبانِ ادب اسی قلبی وجدان کی زبان ہوتی ہے جو جذبہ و تخیل کو مربوط کر کے اظہار کے ایسے پیرائے بروئے کار لاتی ہے جو غیر ادبی ذہن سے ماورا ہوتے ہیں۔ اس میں ہر تخلیقی ذہن کا اپنا طرز احساس ہے جو اسے دوسرے تخلیق کاروں سے متمیز کر تا ہے۔ ہر ایک کی اپنی قلبی کیفیات اور تخیل کی اڑان ہوتی ہے جو اس کی شخصیت کی انفرادیت سے پھوٹتی ہے۔ حافظ مظہر الدین ہوں یا حفیظ تائب، علامہ اقبال ہوں یا عبدالعزیز خالد، ہر کسی کا اپنا مایہ علمی اور اپنا طرز احساس ہے جو انہیں منفرد معنویت اور منفرد اسلوب عطا کرتا ہے۔

تخلیقی لغت

ڈاکٹر ریاض مجید اپنے مقالے برسبیل نعت، الفاظ و تراکیب میں جو نعت رنگ شمارہ 25 میں طبع ہوا، لکھتے ہیں کہ شعر کے اظہا ر کے لیے الفاظ ضروری ہیں۔ ایک آدمی اپنے اندر کی دنیا اور محسوسا ت میں ہزا روں اچھے اچھے خیالات رکھّے، اگر وہ خیالات لفظوں میں مرتّب ہو کر اور شعروں میں ڈھل کر سا منے نہیں آتے وہ شاعر یا فنکا ر نہیں کہلا سکتا۔ اس کے خیا ل کی لفظوں کے ذریعے تر جما نی اوراس کے محسوسات کی فن کے ذریعے نمو د ضروری ہے۔

اُردو شعریا ت میں مستعمل لا کھوں الفاظ میں نعت کے حوالے سے تین طرح کے الفاظ ملتے ہیں۔ وہ الفاظ جن کے اندر نعت کا فطری قرینہ مو جو د ہے جن کا تعلق اسلام اور ایما نیات سے ہے۔ ان الفاظ میں وہ تمام اسماء مبا رکہ شا مل ہیں جن کی تعداد ہزا روں میں ہے۔ اسمأ النبی الکر یم صلی اللہ علیہ واالہٖ وسلم، مرتبہ( صو فی برکت صا حب مطبو عہ دارلاحسان فیصل آباد)میں ان اسماء کی تعداد 1800کے قریب ہے۔ یہ تما م اسما خو د مختصراً نعتیں ہیں کہ ان کے اندر نعت کا قرینہ بدرجہ اتم مو جود ہے۔

الفاظ کی دوسری قسم تراکیب سازی یا لفظیات کی ہے۔ نعت کے اظہار میں نادرہ کاری کو آمیز کرنے کے لئے ہمارے پاس لاحقوں سابقوں کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ بس ذرا توجہ دینے کی ضرورت ہے ہم دستیاب ذخیرے کو نہ صرف نعت رنگ کر سکتے ہیں بلکہ عقیدت نگاری کی تمام صنفوں میں استعمال کرسکتے ہیں۔

تیسرے نمبر پر جب شاعر دستیاب لسانی و سائل اور ذخیرۂ الفاظ پہ قناعت کر کے اسے اپنے افکار کے اظہار کے مطا بق اور موا فق کرنے کی کوشش کرے گا، مو جود سے بہتر اور بہتر سے بہترین اظہار کے پیرائے تلاش کرے گا۔ یہ پیرا ئے حروف کے زوج، مرکبات اور پھر الفاظ کی بہتر سے بہتر ترتیب کے حصول کی کوشش کرے گا اور زندگی بھراس کوشش کو جاری رکھے گا۔ [نعت رنگ شمارہ 25۔ ڈاکٹر ریاض مجید، برسبیل نعت، الفاظ و تراکیب]

شعر اور روایت کے حوا لے سے یہ کوشش ہی فن کی بنیاد ہے۔ شعر یعنی اظہار کے باب میں جتنی کوشش ہوگی وہ اسی انداز میں روایت بنتی چلی جا ئے گی۔ کسی بھی زبان یا صنف کی پہلی کوشش سے اب تک کی جا نے وا لی کوشش کا سلسلہ اس با ب میں روا یت کے تسلسل کا سلسلہ ہو گا۔ سمندر کے پا نی کی طرح جس میں پہلا پا نی بھی مو جود ہو تا ہے اور ہر لمحہ تازہ پانی بھی گرتا رہتا ہے۔

شاعری جذبات کا اظہار ہے اور جذبے کے مؤثر اظہار کے لئے لامحالہ دلنشیں تشبیہات کا سہارا لینا پڑتا ہے، استعارے ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ جب دل کسی جذبے سے لبریز ہو تو یہ پیمانہ کسی تشبیہ ہی میں چھلکتا ہے۔ کمال لذت کا اظہار بھی خود بخود تشبیہ کے ذریعہ سے ہوتا ہے اور فرطِ الم بھی تشبیہی اور شاعرانہ زبان وضع کر لیتا ہے۔

ایسے ہی الفاظ اگر ترتیب و تنظیم سے استعمال کیے جائیں تو پڑھنے والا اس تحریر سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق ایسا تب ہوتا ہے جب لفظ و معنیٰ اس طور پر گھل مل گئے ہوں کہ ان میں رس پیدا ہو گیا ہو۔ یہی رس کسی تحریر کو ادب بناتا ہے۔ اس مسرت کا تعلق ہمارے باطن میں چھپے ہوئے اس احساس سے ہو گا جس کا ہمیں ادراک ہوا۔ تشبیہات اور استعارات ایسے الفاظ ہوتے ہیں جن میں معانی گھل مل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر یوسف حسین خان نے اپنے کلاسک شاہکار اردو غزل میں ایک جگہ لکھا ہے کہ جب جذبہ اور خیال ایک لفظ میں جمع ہوتے ہیں تو ان سے اس طرح چنگاری نکلتی ہے جیسے چقماق کے دو پتھروں کے ٹکرانے سے نکلتی ہے۔ یہی چنگاری شعریت کہلاتی ہے جو معنویت کا ادبی نام ہے۔ جذبۂ و خیال کی یہی یگانگت ہمارے شعور اور ہمارے تجربوں کے خزانے میں اضافہ کرتی ہے اور اَن دیکھے تجربات سے اس طرح مانوس کر دیتی ہے جیسے وہ تجربے ہمارے اپنے تجربے بن گئے ہیں۔ معنویت کی تشکیل میں لفظ و معنیٰ کے اس طرح گھل مل جانے یا احدیت اور عینیت کے رشتے میں بندھ جانے کی کیمسٹری جاننا ضروری ہے تا کہ تشکیل معانی کی تخلیقی تکمیل کے عمل کا احاطہ کیا جاسکے۔

ریاض حسین چودھری نے اس ضمن میں حرف و صوت کی ایسی جل ترنگ کو اپنے حواس کا پیرہن بنا لیا جس میں دنیائے معنویت اپنے جملہ منسلاکات کے ساتھ عمل بعثت سے دوچار رہتی ہے۔ یہ کوئی شعوری کوشش نہیں بلکہ ریاض کے شعور نعت کا لاشعور ہے جو ان کی روحانی اور سرّی کائناتوں کو عالمِ بالا سے محیط ہے۔

اس کی مثالیں تو ان کے استعاراتی اظہار کے نظام میں ایک دوسرے میں مدغم ہیں۔ اس کے ساتھ نعتِ مسلسل لکھنے کی آرزوئے بے پایاں کا غلبۂ جنوں ان جملہ استعارات کو آپس میں لاشعوری طور پر مصروف نغمگی رکھتا ہے اور یہی وہ ریاض ہے جسے اپنے محبوب کی بھرپور نعت نگاری کے لئے رب نعت نے تخلیق کیا ہے۔ یہ سارے استعارات اور علامات آپس میں انسانی رگ و ریشوں کی شکل میں مربوط ہیں۔ اب یہ ان کو ودیعت کیا گیا تخلیقی نظام ہے جو نہ جانے ایک کو دوسرے کے ساتھ کہاں جوڑ دے اور معنوی تہوں کی آبیاری کرتا رہے۔

لفظ کا prism اور معانی کی شعائیں

اس کی مزید توضیح کے لئے میں یہاں جناب کاشف عرفان کی ’’اردو نعت میں مابعد جدیدیت کے اثرات‘‘ سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں جس سے معنوی تہوں کی تعمیرو تشکیل کا نظریہ کھل کر سامنے آجائے گا۔ وہ لکھتے ہیں :

’’آفاقی شاعری میں لفظ منشور یا prism (ایک کلون شیشے کا ٹکڑاجس میں سے گزر کر روشنی سات رنگوں میں تقسیم ہوتی ہے) سے نظر آنے والے رنگوں کی طرح نظر آتا ہے۔ منشور میں روشنی کی شعاع ایک طرف سے داخل ہوتی ہے اور دوسری طرف سے سات رنگوں میں تقسیم ہو کر باہر دیکھنے والی آنکھ کو نظر آتی ہے۔ بڑی علامتی شاعری میں لفظ معنیٰ کی کئی تہیں بناتا ہے اور شعر لفظوں کی اسی ہمہ جہتی کے باعث آفاقیت اور کلاسیکی درجہ حاصل کر لیتا ہے۔‘‘

یوں شعر میں استعارہ یا علامت prismکی طرح لفظ کے معانی کو کئی رنگوں میں تقسیم کر کے معنوی تہوں کو وجود بخشتے ہیں جس سے اسلوب کو چار چاند لگتے ہیں اور معنویت کا ارتقا عمل میں آتا ہے۔ ریاض نے علامت اور استعارے کے عالمانہ استعمال سے اپنی نعتیہ شاعری کو آفاقیت اور کلاسیکی درجہ عطا کیا ہے۔

تخلیقی یا شعری لغت کے الفاظ وہ نہیں ہوتے جن کے معانی جاننے کے لئے ہمیں لغت کی کتابیں کھنگالنا پڑتی ہیں۔ شعری لغت poetic diction کے الفاظ تخلیقی ہوتے ہیں جن کے معانی کا ادراک شاعر کے جذبہ و فکر کی تفہیم کا متقاضی ہے۔ ڈاکٹر گوہر نوشاہی لکھتے ہیں :

’’میرے نزدیک اس سے بڑی جہالت اور کوئی نہیں کہ کوئی شخص تخلیقی لفظ کی تلاش لغت کی کتاب میں کرے۔ لغت کی کتاب میں اس لفظ کا جو کسی تخلیقی فن پارے میں آتا ہے صرف ڈھانچہ ہوتا ہے۔ اُس کی پوری ذات نہیں ہوتی۔‘‘ [مضمون ’’تخلیقی صلاحیت‘‘، مضمون نگار : ڈاکٹر گوہر نوشاہی، مطبوعہ نئی شاعری، (مرتّبہ افتخار جالب)، نئی مطبوعات لاہور، 1966ء]

غزل اگرچہ ایک صنف سخن ہے مگر ریاض کی شعری لغت میں غزل ایک استعارے کے طور پر در آئی ہے جو دوسرے لسانی عوامل سے مل کر ’’کہ ہر لحظہ ہے تازہ شانِ وجود ‘‘ کا نغمہ الاپتی رہتی ہے۔ غزل حسن اظہار کا وہ معیار ہے جس سے شعریت کی تازہ کاری عمل میں آتی ہے اور اپنا اپنا جہان معنیٰ رکھنے والے الفاظ جب ملتے ہیں تو معانی کی نئی دنیائیں وجود میں آتی ہیں۔ الفاظ کا ایسا ہی معانی خیز ملاپ غزل کی آغوشمیں پرورش پاتا ہے۔ الفاظ پھر معانی کا جھلملاتاعروسی جوڑا پہن کربزم شعر میں حسیاتی کلیاں بکھیرنے لگتے ہیں اور قلب و نظر ذوقِ نظر کے لمس سے سرور و انبساط میں کھو جاتے ہیں۔ نعت میں غزل کو بطور استعارہ استعمال کرکے ریاض بارگاہ رسالت میں اپنے حسن تخیل اور حسن اظہار کا ایسا نذرانہ پیش کرتے ہیں جس سے جوار گنبد خضرا کی بہاریں ریاض کی شعریت سے ہم آہنگ ہو کر مطافِ ادب میں سر نگوں حضوری کے موسم میں کھوجاتی ہیں۔ دیکھیں ریاض کی پہلی مطبوعہ کتاب ’’زرِ معتبر‘‘ سے لے کر بعد میں چھپنے والے مجموعوں میں ریاض کے قلم سے غزل کی یہ استعاراتی روانی کیا جولانیاں دکھاتی ہے :

1۔ نئے سال کے آغاز میں ایک دعائیہ نظم ’’زرِ معتبر‘‘

کہ اِس برس بھی دُعائیں ہوں مستجاب مری
کہ اِس برس بھی تسلسُل سے چاندنی اترے

کہ اِس برس بھی دیارِ غزل کی گلیوں میں
ثنائے احمدِ مرسل کی دلکشی اُترے

2۔ اھتمام

پسِ حرف جذبوں کی مشعل جلائے
تغزل جبینِ سخن کو سجائے

قصیدہ جمالِ نبیؐ کا سنائے
غزل مجھ پہ احسان اپنے جتائے

ورق کو ذوقِ جمال دے گا، قلم کو حُسنِ مقال دے گا
اُسی کا ذکرِ جمیل شہرِ غزل کی گلیاں اجال دے گا

یہ کیسا رتجگا ہے میری غزلوں کے شبستاں میں
مِرے کشکولِ فن میں یہ غبارِ نقدِ جاں کیا ہَے

حشر تک یا خدا، کاش ایسا بھی ہو میں حریمِ غزل کے چمن زار میں
پھول حُبِّ نبیؐ کے کھلاتا رہوں، فَصل عشقِ نبیؐ کی اُگاتا چلوں

قصیدے سے غزل تک گنبدِ خضرا کی ہریالی
خزاں نا آشنا کیوں ہو نہ گلزارِ ادب میرا

اِسے بھی نسبت کا ایک جرعہ عطا ہوا ہے درِ نبیؐ سے
بلندیوں پر اُڑا کرے گا، غزل کے بختِ رسا کا پرچم

رعنائی غزل بھی اُسی گھر کی ہے کنیز
اُس کو ہے میرے حرفِ دُعا پر بھی اختیار

غزل، کاسہ بکف، ساکت کھڑی ہے اُس کی گلیوں میں
بہت ہی ناز کرتی ہے وہ اُس در کی گدائی پر

کروں میں بھی حنا بندی گلستانِ سُخن تیری
غزل کہتی چلے صلِّ علیٰ طیبہ کی گلیوں میں

مرے نطق و بیاں کی ساری گرہیں کھول دے یارب
ترے محبوبؐ کا شاعر غزل خواں ہونے والا ہے

یہ اقتدائے حضرتِ حسّاںؓ کا دور ہے
دم سادھ لے سخن کی گلی میں غزل ذرا

سنائے نعتِ پیمبرؐ، غزل مدینے میں
سماءِ شعر، ستارے اُگل مدینے میں

تلاشِ رزقِ دل لائی ہے بزمِ شعر میں مجھ کو
مری کِشتِ غزل فصلِ ثنائے مجتبیٰؐ لائے

گنبدِ خضرا کا ہے ہر عکس اس میں موجزن
ساگرِ دل میں غزل اکثر جلائے گی چراغ

کب غزل وقفِ ثنائے مرسلِ آخرؐ نہ تھی
کب قلم میرا برائے مدحتِ احمد نہ تھا

غریقِ حرفِ ندامت جبیں نہیں ہوتی (نظم)

میں کب سے کشتِ تمنا میں بو رہا ہوں غزل
حضورؐ کرب کی فصلیں مرا مقدر ہیں

حسنِ طلب (نظم)

غبارِ شہرِ تحیّر میں گُم جمالِ غزل
ہمارے ذہن تفکر کے نور سے عاری

غزل بھی آئنہ خانے میں روشن ہے کہ بطحا سے
اُٹھا لائی ہے عکسِ دلربا روئے منور کا

رتجگا نعتِ مسلسل کا ہے بستی بستی
شب نے کس تارِ تغزل سے بُنی ہیں آنکھیں

موسم ثنا کا شہرِ غزل میں مقیم ہے
کلیاں سخن کی بانٹتی ہے آج بھی ہوا

اک رابطہ ضرور عروسِ غزل سے ہے
نعتِ حضورؐ میرے لبوں پر ازل سے ہے

کیا لے کے مَیں حضورؐ کی چوکھٹ پہ جاؤں گا
اوقات میری کیا، مرے لوح و قلم بھی کیا

مَیں بے نوائے شہرِ تغزل ہوں، یاخدا
قرآن مجھ کو نعتِ پیمبرؐ کا دے شعور

الغرض ریاض کا جملہ تخلیقی کلام حمد و نعت غزل کی استعاراتی تجلیات کے معنوی فروغِ حسن سے مزین ہے۔ معانی کی یہ کشت بہار سدا لہلہاتے پھولوں سے مہکی ہوئی ہے اور معانی کا زور نہ کہیں نحیف ہوتا ہے نہ ناتواں بلکہ لب کشائی کی رم جھم لمحہ لمحہ برس رہی ہے۔

چمن زارِ غزل کی دلکشی بے حد ضروری ہے
مرے شعروں پہ لازم ہے، کلامِ لب کشا بننا

مری غزل کا مقدّر بلندیوں پر ہَے
مری غزل کے یہ لہجے درود پڑھتے ہیں

اے نگارِ سخن، اے بہارِ ازل، تجھ کو سجدے کرے کیوں نہ میری غزل
ہاتھ روکے اجل، رحمتِ عالمیںؐ، کوئی تجھ سا نہیں، کوئی تجھ سا نہیں

ڈاکٹر ریاض مجید لکھتے ہیں :

’دبستانِ نو‘ کا موضوع تو عقیدت نگاری یا حمد و نعت ہے مگر صنفی طور پر ان معّریٰ نظموں کے مزاج میں غزلیہ نعت کا آہنگ لوَ دے رہا ہے۔ غزل کے علائم و رموز، الفاظ اور تراکیب، تشبیہ، ’استعارہ‘، علامات وتلازمات، سب محاسن کے پیچھے غزل کی طویل ریاضت اور مطالعہ جھلک رہا ہے۔ بیچ بیچ میں اندرونی قوافی و ردیف کے سبب کئی شعر مطلعوں کی طرح ہم قافیہ اور ہم ردیف بھی ہو گئے ہیں۔

’’غزل کاسہ بکف‘‘ لایا ہوں اِمشب یا رسول اللہ
ہر اک حرفِ ثنا جس کا وضو کے پیرہن میں ہے

یہاں ریاض کے مختلف مجموعہ ہائے نعت میں غزل کے استعارے کے استعمال کی مثالیں ملاحظہ فرمائیں :

حضور نئی بیاضِ نعت لے کر حاضر ہوا ہوں (دبستان نو)

’’غزل کاسہ بکف‘‘ آقاؐ، ادب کا شامیانہ ہے
جہاں مصروف ہیں آنکھیں دیے شب بھر جلانے میں
جہاں رعنائیِ گُل کو نہیں فرصت نمایش کی
مصّلے پر غزل سجدے میں رہتی ہَے مرے آقاؐ
مسلسل با وضو رہتی ہَے ساون کے مہینے میں
یہ ساون کا مہینہ َان گِنت صدیوں پہ پھیلا ہے
’’غزل کاسہ بکف‘‘ میں روشنی ہَے شامِ مدحت کی
قلم اعلان کرتا ہَے خدا کی حاکمیت کا
الوہیت اُسی کی ہَے زمینوں آسمانوں میں
ربوبیت کی مشعل ذرّے ذرّے میں فروزاں ہے
غزل میری مسلسل سجدہ ریزی کا وظیفہ ہے
’’غزل کاسہ بکف‘‘ ہَے شہرِ مکّہ کے اجالوں میں
’’غزل کاسہ بکف‘‘ ہَے شہرِ طیبہ کی ہواؤں میں
’’غزل کاسہ بکف‘‘ مدحت نگاری کا قلمداں ہے
’’غزل کاسہ بکف‘‘ میں اشکِ ہیں مرحوم اُمّت کے
’’غزل کاسہ بکف‘‘ میں نور و نکہت کے خزانے ہیں
’’غزل کاسہ بکف‘‘ میں سیرتِ اطہر کی خوشبو ہے
چراغِ آرزو روشن ہیں اوراقِ تمنّا پر
’’غزل کاسہ بکف‘‘ اُنؐ کے کرم کی داستاں بھی ہے
نبی جیؐ، استغاثے کا انوکھا رنگ ہَے اس میں
بجز اشکِ ندامت مَیں جو لاتا بھی تو کیا لاتا
سند مجھ کو غلامی کی عطا ہو یا رسول اللہ
بیاضِ نعت میری لب کُشا ہو یا رسول اللہ
دھنک اترے گی توصیفِ پیمبرؐ کی لئے شبنم
خنک موسم اٹھائیں گے غزل کا مصرعِ اولیٰ

لامحدود

ہر ہر دعا قبول ہو رحمانِ مصطفیٰؐ
ہر لمحہ با وضو رہیں میری غزل کے پھول
عشقِ نبیؐ کی شہرِ قلم میں ہو انتہا
یا خدا! روحِ ادب، شامِ غزل، ابرِ بہار
یا خدا! ہوں قریۂ عشقِ محمدؐ پر نثار

کائنات محو درود ہے

خدا کے فضل سے ہر شب ہوا شہرِ مدینہ کی
غزل کے پیرہن کو اطلس و کمخواب کر جائے

سخن سارے کا سارا دست بستہ ہے سرِ محفل
ثنا مقبول ہے اتنی غزل کی اپسراؤں میں

غزل اُنؐ کے در کی کنیز ہے، دل و جاں سے مجھ کو عزیز ہے
مَیں کہ نغمہ گر ہوں حضورؐ کا، مری لوحِ جاں پہ لکھا گیا

ہر موجِ ذوق و شوق پسِ کوچۂ غزل
کشتی مرے سخن کی کنارے لگائے گی

برستی آنکھو خیال رکھنا

مری غزل کی حسین کلیو! ورق ورق پر دھمال ڈالو
بیاضِ نعتِ حضورؐ، پلکوں سے جھک کے کھولو، بڑے ادب سے

اگتے رہیں زمینِ غزل سے نئے حروف
مدحت کی وادیوں میں گلِ تر کِھلے رہیں

تاجِ مدینہ

اے شہرِ غزل آ ترے دامن کو سجادوں،
بوصیریؒ کے مَیں زندہ قصیدے کی زمیں ہوں

غزل ہوائے مدینہ سے ہم کلام بھی ہو
ثنا گری کا ادب عمرِ رائیگاں کو ملے

کرتا رہا غزل سے جو مَیں نعت تک سفر
ملکِ سخن میں سوچ کی ہجرت یہی تو ہے

غزل بھی لب پر درود لکھ کر، گلاب مدحت کے چن رہی ہے
یہ بانجھ لفظوں کی زرد شاخیں، مہک اٹھیں گی گجر سے پہلے

نظم کی ہیئتوں میں حمد و نعت

کہاں اک بے نوا شاعر، کہاں وہ گنبدِ خضرا
کہاں میری غزل گوئی، کہاں میری سخن دانی

نصابِ غلامی

جگنو لکھے ہوئے ہیں حروفِ سپاس میں
دستِ غزل میں آج بھی کرنوں کا تھال ہے

ریاضؔ، شہرِ نبیؐ کی خنک ہواؤں میں
اٹھا کے پھول ثنا کے مری غزل جائے

تجھ کو معلوم ہے شہریارِ غزل
نعت گوئی کے ہم آسمانوں میں ہیں

سجدے قدم قدم پہ گذارے مری غزل
بختِ رسا ریاضؔ سرِ کہکشاں چلے

سرمدی پھولوں سے دامانِ غزل بھر دوں گا میں
رحمتِ ہر دو جہاں کی رحمتِ بے حد میں ہوں

وردِ مسلسل میں لکھتے ہیں :

مری غزل کے پرندوں کا رَقْص جاری ہے
مرے سخن کے کبوتر سلام کرتے ہیں

توقیر بخش دوں میں غزل کے جہان کو
شہرِ سخن کو شہرِ نبیؐ پر فدا کروں

تو نے ریاضؔ اذنِ خدا سے بصد خلوص
کشتِ غزل میں نعت کا موسم اگا دیا

اک عجب سا کیف ملتا ہے سرِ شامِ غزل
مدحتِ خیر الوریٰ کی آرزو کرتے ہوئے

حبیبِ داورِ مَحْشر سے لو لگائی ہے
تمام عمر ہی وقفِ غزل رہا ہوں مَیں

نقاب چہرے پہ ڈالی نہیں کبھی مَیں نے
یہ حسنِ روحِ غزل میری شاعری کا ہے

میری غزل کو تاجِ ثنائے نبیؐ ملا
سر ہے بلند آج بھی اس انکسار میں

معمور ہو جو اسم محمدؐ کے نور سے
شہرِ غزل میں ایسی کھری شاعری کریں

ریاضؔ، اُنؐ کی ثنا کے پیرہن لاکھوں ملے تجھ کو
یہ کیا رستے نکالے ہیں غزل کی تنگناؤں میں

سیرت سے اُنؐ کی نعت کا دامن سجاؤں گا
شہرِ غزل! مَیں تیرا مقدّر جگاؤں گا

چمن زارِ غزل میں ہے درودِ پاک کی رم جھم
فضا شہرِ قلم کی کس قدر ہے خوبرو امشب

ریاض کے اٹھارویں نعتیہ مجموعے ''نظمکی ہیئتوں میں حمد و نعت'' کے علاوہ ان کے جملہ نعتیہ مجموعے غزل اور پابند اور آزاد نظم کی ہیئتوں میں لکھے گئے ہیں جبکہ زیادہ تر کلام غزل کی ہیئت میں ہے۔ چونکہ ریاض اپنے کلام کے شعری اور فنی تشخص کے بارے تخلیقی فکر کے مالک تھے اس لئے انہیں نعت کے اعلیٰ مقام و مرتبہ کے حوالے سے غزل کی ہیئت کا احساس ہمیشہ دامن گیر رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ ریاض کا آٹھواں نعتیہ مجموعہ ''غزل کاسہ بکف'' ایک چشم کشا تخلیقی ریاضت ہے جس سے نعت کے ادبی، فنی اور تخلیقی مقام کا تعین یوں ہوتا ہے جیسے درِ حبیب ﷺ پر کیفِ حضوری نصیب ہو جائے۔ پختہ اور زیبا غزل لکھنے والے ریاض جب نعت لکھنے لگے تو اوجِ فن کی اُن بلندیوں تک جا پہنچے جہاں انہیں غزل نعت کی بارگاہ میں کاسہ بکف دکھائی دینے لگی۔ یہ احساس انہیں اِس شدت سے ہوا کہ اپنے مجموعہ نعت کا نام ہی ''غزل کاسہ بکف '' رکھ دیا۔

دراصل ریاض کے اندر نعت کے تخلیقی سوتے اُن کے بس میں نہ تھے۔ ازل سے نعت گوئی کے منصب کی بدولت وہ نعت جبلّتاً لکھتے۔ اِسے وہ اپنے کلام میں کئی مقامات پر اپنے لئے ازلی حکمنامہ قرار دیتے نظر آتے ہیں۔ انہیں قدرت نے حسنِ ادب اور حسنِ تخلیق کی لطافتوں کا وہ شعور عطا کیا ہوا تھا جس کے تحت لکھتے ہوئے اُن کے لئے ہیئت کا انتخاب ایک لاشعوری تجربہ تھا۔ یوں انہوں نے صنفِ نظم میں بھرپورنعت لکھی اور نظم کی ہر ہیئت میں لکھی۔ نظم نعت جو کہ’’ نظم کی ہیئتوں میں حمد و نعت‘‘ کا تجربہ ہے، ایسی ہی لازوال تخلیقی کاوشوں پر مشتمل ہے۔

اردو نظم اور اس کا ارتقائی سفر ریاض حسین چودھری کو نعت کی تخلیق کے حوالے سے ورثے میں ملا۔ اردو نظم کا ایک بحرموّاج ان کے تحت الشعور اور لاشعور کی پہنائیوں میں ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا ہے اور حرف و بیان کی ناؤ کو ساحل اظہار پر اتارتا چلا جاتا ہے۔ ان کی’کلکِ مدحتـ‘ ان کی تخلیق کاری میں عالمِ کیف میں رہ کر بہارِ اظہار کی ترتیب و تزئین کرتی ہے۔ آزاد نظم، نظمِ معریٰ، گیت، ماہیہ، سانٹ، موڈ کے مطابق جو ہیئت موزوں ہو جائے ریاض مدحت نگاری کی ناؤ کو قلزمِ اظہار میں اتاردیتے ہیں جس کے بعدبہتے چلے جانے کا نشہ ان کے بادبانِ حرف و صوت کو اڑائے چلاجاتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحٰق قریشی نے طلوعِ فجر کے پیش لفظ میں لکھا ہے :

’’یہ طویل نظم ایک مستقیم انداز میں سیرتِ رسول ﷺ کا فیض بار حوالہ بن گئی ہے۔ ایک بحر میں اتنے فکر انگیز اور طربناک مصرعے نکالنا شاعر کے شعور کی پختگی اورمہارت کی شہادت ہے۔ یوں تو ہر بند ایک خیال کا پیکر ہے مگر خیالات کی بوقلمونی عقیدت کی یکسوئی کا عمدہ اظہار بھی ہے۔ اگر ساری نظم کو ایک عنوان دیا جائے تو 'طلوعِ فجر' کا منتخب عنوان بر محل لگتا ہے کہ ہر ہر مصرعے سے ایک نور پھوٹتا دکھائی دیتا ہے، نظم کیا ہے فشارِ نور کی ایک دلآویز حکایت ہے۔ انسانیت کی اصلاح و فلاح کے لیے ایک نور آسا راہنمائی ہے، شاعر نے بھٹکے ہوئے انسان کے لیے اُمید کی ایک فجر کا حوالہ دیا ہے کہ تاریکیوں سے چھٹکارا پانا ہے تو اس ’طلوعِ فجر‘ کی طرف توجہ دو کہ ہر ظلمت میں یہی نورکا حوالہ راہنما ہے۔‘‘

ریاض کے پندرھویں مجموعہ کلام ’دبستانِ نو‘ کے دیباچے میں ڈاکٹر ریاض مجید لکھتے ہیں :

’’اس حوالے سے یہ مجموعہ ثنا ایک شاندار انفرادیت لئے ہوئے ہے۔ اردو نعت کے عقیدتی اثاثے میں اس اعتبار سے یہ مجموعہ جداگانہ مفصّل مطالعے کا متقاضی ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے، شیفتگی اور جذبے کا وفور ’دبستانِ نو‘ کا تخصّص ہے۔ اردو عقیدت نگاری کی تاریخ میں اس مجموعے کو ہمیشہ ایک یادگار حیثیت حاصل رہے گی۔ چودھری صاحب کی نعت گوئی کا بڑا حصہ ہم سب نعت کے شاعروں کی طرح غزل کی صنف میں کہی گئی نعتوں پر مشتمل ہے۔ غزل کی ترتیب اور مقبولیت کے سبب ہر دورِ نعت میں اس صنف کا اتنی محبت، شدّت اور کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ کسی دوسری صنف شاعری میں اس کا دسواں حصہ بلکہ عشر عشیر بھی نہیں برتا گیا۔ غزل کے علاوہ خصوصاً معّرا نظم میں ایسا ضخیم مجموعہ معاصر نعتیہ شاعری میں پہلی بار شائع ہو رہا ہے۔ اس سے اردو نعت کے ہیئتی اور صنفی آفاق وسیع ہوئے ہیں۔‘‘

ریاض کی نعت کی معنوی تہیں اور علامتی اسلوب کا طلسم

ریاض حسین چودھری کے ہاں ہمیں پیرایہ اظہار کا ایک پورا علامتی نظام نظر آتا ہے۔ ہر لفظ کا ہر دوسرے لفظ، ہر استعارہ و تشبیہہ اور ہر علامت کا حرف حرف سے قریبی اور قلبی تعلق ہے۔ ان کے ہاں حرف و معانی کی طلسماتی رعائیتیںایک دامِ رعنائیہے جو ان کے اشعار کوفردوس جلوہ بناتاہے۔ خوشبو، ہوا، چراغ کرن، جگنو، تتلیاں، کالی گھٹا، سبز پانی، آنگن کی چڑیاں سب ایک ہی خاندان کے افراد ہیں، جو جس کے ساتھ چاہے مل بیٹھے اور محفلِ توصیف و ستایش کو صبحِ گلستاں کر دے۔ یہ علامتی نظام باہمی رعایتوں کے حوالے سے نئی نئی تراکیب اورنئے نئے استعارات کو جنم دیتا ہے۔ اور یوں ریاض کا متنوع فنِ اظہار وجود میں آتا ہے۔ ''کشکولِ آرزو'' کے یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :

آؤ پھر لفظوں کے سر پر رکھیں دستارِ سخن
آو پھر سوچوں کو پوشاکِ دعا دیتے چلیں

آؤ پھر بانٹیں چمن میں خوشبوؤں کے پیرہن
آؤ پھر جذبوں کو کردارِ صبا دیتے چلیں

ہم قلم کو شہرِ ہجرِ مصطفیٰ کا دیں مزاج
لوحِ جاں کو رتجگوں کا سلسلہ دیتے چلیں

ریاض ''بھرپور'' شاعر ہیں اور بھرپور شعر کہتے ہیں۔ ہر لفظ کو یوں استعمال کرتے ہیں جیسے وہ اسی مقام کے لئے بنا ہے۔ یہی مفہوم ہے ''لفظوں کے سر پر دستارِ سخن'' رکھنے کا۔ کئی اور مقامات پر وہ لفظوں کو ’’لب کشا حروف ‘‘ کہتے ہیں۔ ’لب کشا‘ کی یہ ترکیب ’بھرپور‘ کے مفہوم کی امین ہے :

سب حروفِ لب کشا کے لب معطّر ہیں ریاضؔ
سب حروفِ معتبر میں روشنی ہے روشنی

اس طرح وہ سوچوں کو پوشاکِ دعا پہنا کر الفاظ کے سر پر دستارِ سخن رکھتے ہیں، انہیں ''لب کشا'' بناتے ہیں۔ اس کے لئے ان کی ٹیکنیک یہ ہے کہ وہ اعلیٰ و ارفع مضامین کو ایسے الفاظ کا پیرہن دیتے ہیں جو آپس میں استعاراتی رعائیتوں میں بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ نعتِ مسلسل لکھتے لکھتے ہر مضمونِ نعت کے لئے ان کے پاس مناسب ''لب کشا'' الفاظ کی لغت موجود رہتی ہے جسے وہ تخلیقی پیرائے میں استعمال کرتے ہیں یعنی ''قلم کو شہرِ ہجرِ مصطفیٰ کا مزاج'' دیتے ہیں، چمن میں خوشبوؤں کے پیرہن بانٹتے ہیں، جذبوں کو کردارِ صبا دیتے ہیں اور یوں ان کا فن اَن دیکھی وسعتوں کا امین بنتا چلا جاتا ہے۔ یہ تراکیب، مفاہیم اور علامتی اظہار ہمیں ریاض کے ہاں ہی ملتا ہے۔

طاقِ سخن میں میری غزل احترام سے
آکر چراغِ نعت رکھے بعد حشر بھی

موسم ثنا کا شہرِ غزل میں مقیم ہے
کلیاں سخن کی بانٹتی ہے آج بھی ہوا

ریاض کے نعتیہ مضامین کی فہرست بنانا انتہائی مشکل کام ہے۔ غلامی، حضوری، حضوری کی تمنا، ادب گاہیست زیر آسماں، درود و سلام، میلاد، جشنِ میلاد، لحد میں نعت نگاری کی تمنا، روزِ محشر مدحت نگاری کی پذیرائی، مدینہ، مدینہ میں گھر اور سکونت، روشنی، بادِ صبا، مدینے کے ساتھ نامہ بری، خوشبو، قلم، امت کا غم، ملک و قوم کی محبت، قیادت کے فقدان کا دکھ، وطن کے دولخت ہونے کا صدمہ، باہمی روابط میں تحمل، مروت اور مواخاتی قربتوں کی قحط سالی، ذاتی مسائل اور التجائیں، بچے، گھربار، خاندان، سیرت و کردار، علم و ہنر، نئی نسل کی نشوونما، ارتقائ، حصول علم اور تعلیمی زوال کے نوحے ان کے مضامین نعت میں شامل ہیں۔ انہوں نے اصنافِ سخن، غزل اور نعت، نظم اور نعت کو بطور مضمونِ نعت اشعار کا موضوع بنایا۔ چڑیاں، جگنو، تتلیاں، کنیزیں، پھولوں کے گجرے، روز محشر اپنے نعت نگار قبیلے حافظ، تائب اور احمد ندیم قاسمی وغیرہ کے ساتھ رہنے کی تمنا ان کے نعتیہ کلام کی زینت ہیں۔ جناب حفیظ تائب کے مطابق ـریاض حسین چودھری کی نعت میں اس قدر تسلسل، ایسی گہری وابستگی، اتنی تازگی و شگفتگی اور اس درجہ وسعت و ندرت ہے کہ اس کی خوبیوں کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے۔ انہوں نے اپنی ذات اور اپنے عہد کی شناخت کو اپنا نظریہ نعت قرار دیا تو نعت کے امکانات و مقاصد میں ذہنوں کی تطہیر کے منصب، مسلمانانِ عالم کے اتحاد کی بنیاد، دہر میں اسمِ محمد ﷺ سے اُجالا کرنے کے شعور، ملی تشخص کو اُجاگر کرنے کے فریضہ کو شامل کیا ہے۔ ریاض کی کائناتِ نعت میں گھر اور وطن کا استعارہ ایک جاندار اور توانا اکائی کے طور پر استعمال ہوا ہے، شاعر تاجدارِ کائنات کی بارگاہ میں پہنچتا ہے تو اپنے بچوں، گھر کی کنیزوں اور وطن کی ہواؤں کا سلام بھی حضور ﷺ کی خدمتِ اقدس میں پیش کرتا ہے۔ حاضری و حضوری کی تڑپ (جسے میں حضوری ہی کی صورتیں قرار دیتا ہوں) ریاض حسین چودھری کی نعت کا ایک اہم مضمون ہے جسے شاعر کی جدت پسند طبیعت نے جُداگانہ کیف و اثر بخشا ہے۔

ریاض حسین چودھری نے سید المرسلین ﷺ کی ازل سے ابد تک پھیلی ہوئی بیکراں برکتوں اور لازوال رحمتوں کو کئی رنگوں میں موضوعِ سخن بنایا ہے۔ وہ آپ ﷺ کی سیرتِ اطہر کی بوقلمونی اور آفاق گیری کو سر نامہ بہار اور منبعۂ ہر روشنی قرار دیتا ہے۔

حفیظ تائب کہتے ہیں کہ ریاض حسین چودھری کی نعت کے تمام استعاروں کا خمیر دین و آئینِ رسالت کے ساتھ ساتھ، عہدِ جدید کے معتبر حوالوں سے اُٹھا ہے اور ان میں تقدس بھی ہے اور تازہ کاری بھی، اُس کا اسلوب اردو شاعری کی تمام تر جمالیات سے مستنیر ہے۔

انہیں روشنی کا شاعر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ غزل کاسہ بکف میں 47 اشعار پر مشتمل سہ نعتیہ لکھتے ہیں :

شہرِ حضور ﷺ کا ہے تصوّر بھی چاند رات
شہرِ حضور ﷺ کی ہے تمنا بھی روشنی

جو روشنی فصیل ہے شہرِ حضور ﷺ کی
اُس روشنی کو دیکھنے والا بھی روشنی

ریاض ادبِ رسول ﷺ، لحد میں نعت نگاری کی تمنا اور تمنائے حضوری کے شاعر ہیں۔

لب پہ مہکے ہوں مرے اسمِ گرامی کے گلاب
جب لحد سے مجھے محشر میں اٹھایا جائے

لکھّوں گا مَیں لحد میں بھی اپنے نبی ﷺ کی نعت
میرے قلم کو میرے کفن میں چھپا کے رکھ

تمنائے حضوری کا مضمون ریاض کے پورے کلام کی روح و رواں ہے۔ 2000ء میں انہوں نے اس پر طویل نعتیہ نظم لکھی۔

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے رب کریم
اسم سرکار دو عالم ﷺ کا وظیفہ ہوتا

حشر کے روز اٹھاتے تو لحد میں میری
نعت کے کیف میں ڈوبا ہوا منظر ہوتا

یہ وہ اشعار ہیں جو ان پر نازل ہو رہے تھے اور وہ بے قراری اور شدت جذبات میں اپنے دفتر کا دروازہ بند کر کے اپنے بال کھینچ کھینچ کر روتے اور اپنے پیارے نبی ﷺ کا حسیںنام جپتے چلے جا رہے تھے۔

مدینے کی ہوا ریاض کی نعت کا ایک بنیادی ستون ہے۔ صبا اور مدینے کی ہوا سے متعلق ان کے کلام میں ہزاروں مضامین جھلمل کر رہے ہیں :

زم زم عشق میں لکھتے ہیں :

شہرِ طیبہ کی ہواؤں سے ہے میری دوستی
جو مدینے کا ہے موسم وہ مرے اندر کا ہے

ریاض کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری کی وسعتِ مضامین کا احاطہ اور معنویت کے فروغ میں ان کے علامتی اور استعاراتی نظام کا احاطہ بذات خود ایک تحقیقی موضوع ہے جس پر بہت عرق ریزی کی ضرورت ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ ان کے استعارات و تراکیب سازی اور علامتی بہاؤ کے تشخص سے ان کے کلام کی معنوی وسعتوں کو دریافت کیا جا سکتا ہے جس پر دل جمعی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یوں ان کے شعور نعت، اسلوبِ نعت اور فروغِ معنویت کی تکنیکی سہولتوں کا پر چار ہو گا جو کہ فروغِ نعتِ رسول ﷺ کا تخلیقی لازمہ ہے۔