لکھّے عروسِ شہرِ غزل نعتِ مصطفی ﷺ- ریاض حسین چودھریؒ کی نعت نگاری

مجید امجد نے اپنی نظم’’ حرفِ اول‘‘ کے آخری بند میں لکھا ہے :

گرچہ قلم کی نوک سے ٹپکے
کتنے فسانے کتنے ترانے
لاکھ مسائل
دل میں رہی سب دل کی حکایت
بیس برس کی کاوشِ پیہم
سوچتے دن اور جاگتی راتیں
ان کا حاصل
ایک یہی اظہار کی حسرت

حسرتِ اظہار ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے جس کا سامنا ہر وہ نفسِ مدّرک کرتا ہے جس کا مسئلہ اظہار ہے۔ ادب نثر ہو یا شعر، اپنی ہر صنف میں اظہار کی ایک جہدِ مسلسل ہی تو ہے۔ پھر جس ادیب یا شاعرکے اظہار میں زیادہ وسعت اور تہذیب ہو اس کا مرتبہ اور مقام اسی لحاظ سے متعین ہو جاتا ہے۔ مگر یہ تو ہر ادبی کاوش کے حوالے سے ایک عمومی بات ہے۔

بات نعتِ مصطفیٰ ﷺ کے حوالے سے ہو یا مالک الملک کی حمد و ثناء کے ضمن میں، اظہار کے سب وسائل اور ذرائع ہیچ ہوتے ہیں اور طبعِ مشّاق طفلِ مکتب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ غالب اردو غزل کے شہنشاہ ہیں مگر جب ان کی طبع نعت پر متوجہ ہوتی ہے تو کہہ اٹھتے ہیں :

غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد ﷺ است

وہ دیکھ لیتے ہیں کہ نعت میں اظہارِ محبت و عقیدت اور ثنائے خواجہ کے تقاضوں سے عہدہ برآ نہیں ہو سکیں گے اور یہی عجز اور اس کا پاکیزہ پیرایۂ اظہار ان کا تجربۂ نعت بن جاتا ہے۔

یہ تجربہ شاہ عبدالحق محدث دہلوی نے بھی کیا تھا جب انہوں نے لکھا :

لا یمکن الثناء کما کان حقہٗ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

تجربۂ شعریت سے گزرنے والے ہر حساس ذہن نے یہ عجز محسوس کیا اور قصۂ مختصر کو نعت کی معراج سے ہمکنار کر دیا۔ دیکھنے میں یہ حسرتِ اظہار کا اعتراف ہی تو ہے۔

شعری تجربہ ایک متنوع تخلیقی عمل ہے۔ ضروریاتِ اظہار نے اصنافِ شعر تخلیق کیں اور تنوع وجود میں آیا۔ غزل سے نہ بن پڑی تو بات نظم تک پہنچی، وہی نظم کہیں قصیدہ بن گئی کہیں مرثیہ کی شکل میں ڈھل گئی اور کہیں مثنوی کی خلعتِ فاخرہ میں ملبوس ہو گئی۔ غالباً یہ ادب میں نظریۂ ضرورت کی حقانیت کی مختلف صورتیں ہیں۔ مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ نظم میں، مرثیہ ہو، قصیدہ ہو یا مثنوی، تغزل کا گذرممکن نہیں۔ شعری حسن جہاں جہاں نظر آئے گا اس کی تہ میں تغزل کے دھنک رنگ ضرور بکھرے ملیں گے۔ حالیؔ غزل کے بے پناہ شاعر تھے اور مسدس کا کینوس تغزل کے رنگوں سے عاری نہیں۔ مرزا انیس جب مرثیہ نگاری کی معراج کو پہنچتے ہیں تو غزل ان کو کاندھا دیئے کھڑی ملتی ہے۔ مثنوی میں حفیظ جالندھری کے شاہنامہ اسلام کا تذکرہ کئے بغیر بات مکمل نہیں ہو سکتی مگر وہ حفیظ جو غزل میں ملتے ہیں مثنوی شاہنامہ اسلام میں جا بجا ملتے ہیں اور وہیں وہ نعت بھی کہہ رہے ہوتے ہیں حالانکہ مثنوی ایک ایسی صنف ہے جس میں سحر البیان اورزہرِ عشق کی روایت اردو ادب کا تاریخی ورثہ ہے۔

یہ بات رہی نظم کی مختلف صورتوں میں غزل کے تصرف کی۔ جب ہم غزل کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں ہمیں قصیدہ جھلملاتا نظر آتا ہے۔ میر دردؔ، میر تقی میرؔ اور غالبؔ کے ہم عصر ہیں مگر ان کی غزل میں حمد کے مضامین برگد کی گھنی چھاؤں کی طرح سایہ فگن ہیں۔ امیر مینائی کے کلام میں ہمیں جہاں جہاں مینائی ملتے ہیں وہاں وہاں شعری تجربہ حمد و تصوف کے گہرے پانیوں میں غوطہ زن ملتا ہے۔

مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ تمام اصنافِ شعر خواجہِ کونین ﷺ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں سرنگوں ہو کر ہدیۂ درود و سلام پیش کر کے نجاتِ اخروی کا جواز حاصل کرتی ہیں۔ شعرائے نعت کے ہمراہ یہ سب اصناف بھی اس حقیقت سے آگاہ نظر آتی ہیں :

ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنیدؒ و بایزیدؒ ایں جا

محسن کاکوروی نے کیا خوب کہا ہے :

ہے تمنا کہ رہے نعت سے تیری خالی
نہ مرا شعر نہ قطعہ نہ قصیدہ نہ غزل

مگر تمام اصناف ِشعر میں غزل کے شعراء مقام معراج پر ہیں کیونکہ انہیں غزل کا براّق میسر ہے جو مقامِ سدرہ تک پرفشاں رہتا ہے۔ فیض، احمد فراز اور احمد ندیم قاسمی کی غزل ہو یا حفیظ تائب کی نعت، شعریت اور تغزل کے حوالے سے ایک ہی تہذیبی، ادبی، لسانی اور فنی وسائل و ذرائع سے مستفیض ہوتے نظر آتے ہیں۔

یہاں غزل اور نعت کے شعرا کا تقابلی جائزہ مقصود ہے نہ اساتذہ میں سے کسی کو غزل یا نعت کا شاعر کہنا یا ثابت کرنا مطلوب ہے۔ اس گفتار کا مقصد صرف یہ ہے کہ نعت ایک شعری تجربہ ہے جو اپنے تخلیقی عمل کے اعتبار سے غزل ہی کی ایک صورت ہے اور نعت کے وہ شعراء جو غزل گو تھے کمالِ فن کو پہنچے۔ نعت مثنوی، قصیدہ اور مرثیہ، معریٰ آزاد نظم ہر تخلیقی قالب میں موجود نظر آتی ہے مگر فنِ نعت کا خمیر تغزل سے اٹھتا ہے اور نعت کا حسن، حسنِ تغزل میں ملفوف ہے۔ یہی بات جناب احمد ندیم قاسمی نے ریاض حسین چودھری کی’’ زر معتبر ‘‘کا پسِ ورق لکھتے ہوئے تحریر کی ہے :

’’گزشتہ ربع صدی میں ہمارے ہاں نعت نگاری نے بہت فروغ پایا ہے۔ جن شعراء نے اس صنفِ سخن میں ہمیشہ زندہ رہنے والے اضافے کئے ہیں ان میں ریاض حسین چودھری کا نام بوجوہ روشن ہے۔ اس دور کے سب سے بڑے نعت نگار حفیظ تائب نیز ایک اوراہم نعت نگار حافظ لدھیانوی کی طرح ریاض حسین چودھری نے بھی آغاز غزل سے کیا۔ ۔ ۔ ۔ ریاض چودھری اس دور کا ایک بھرپور نعت نگار ہے ’’بھرپور‘‘ کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے اس نعت نگار کے کلام میں محبت کی سرشاری بھی ہے لفظ اور لہجے کی موسیقی بھی ہے اور پھر وہ حدِ ادب بھی ہے جو نعت نگاری کی اوّلین اور بنیادی شرط ہے۔‘‘

میں اس میں صرف یہ اضافہ کروں گا کہ ریاض کی نعت نے جدید غزل کو وہ وسعتِ داماں عطا کی ہے جو اس سے پہلے اردو غزل کے حصے میں نہ آ سکی۔ اگر غزل کو ہیئت اور مخصوص مضامین کے شکنجے سے آزاد ایک تخلیقی تجربہ سمجھا جائے جو محبت کی سرشاری اور لفظ اور لہجے کی موسیقی سے وجود میں آتا ہے تو یہ کہنا کچھ غلط نہیں کہ غزل نے آستانۂ ریاض سے جی بھر کر فیض پایا ہے۔ اردو غزل کا دامن بہت وسیع ہے اور نعت کا کینوس تو زمان و مکاں سے بھی ماوراء ہے۔ اس طرح نعت غزل کے مقابلے میں وسیع تر شعری اور تخلیقی تجربہ ہے مگر یہ دو اصنافِ شعر ہم جنس ہیں اور ایک ساتھ محوِ پرواز ہیں۔ ہاں اگر غزل کی پرواز زمان و مکاں تک محدود ہے تو نعت کی جولا نگاہ ان سے ماوراء ہے۔ اس مقام پر غزل عجز و نیاز میں سر نگوں نظر آتی ہے۔

اردو غزل پر یوسف حسین خاں اور ان کے بعد آنے والے نقاد مؤرخین نے دل کھول کر لکھا ہے۔ یہاں اوصافِ غزل کا احاطہ مقصود نہیں مگر اتنا جاننا ضروری ہے جیسا کہ جدید تر اردو غزل میں ارشد محمود شاد لکھتے ہیں :

’’غزل کے طویل تخلیقی سفر کو نگاہ میں رکھیں تو یہ معلوم ہو جائے گا کہ غزل ایسی عجیب صنفِ سخن ہے جو بیک وقت لچک بھی رکھتی ہے اور شدت بھی۔ یہ دونوں حالتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں تاہم غزل کا مزاج انہی دو متضاد حالتوں کے ارتباط سے عبارت ہے۔ غزل نے نئے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے اور اپنے دائرے کو وسعت آشنا کرنے کے لئے ہمیشہ اظہار کی نئی صورتوں کے لئے درِ دل وا رکھا ہے۔ غزل کا یہ رویہ اس کی لچک کا غماز ہے۔ اس کے برعکس غزل اپنے معیارات کی سختی سے پابند رہی ہے اور ان معیارات پر کسی قسم کا سمجھوتا کرنا اس کے مزاج میں شامل نہیں ہے۔ غزل کا یہ رویہ شدت اور سختی کو ظاہر کرتا ہے۔ غزل کے ان دونوں رویوں کو نگاہ میں رکھے بغیر اس کے مزاج کو مکمل طور پر سمجھنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غزل کے حوالے سے کئے گئے ایسے تجربات ناکام ہوتے ہیں جن میں غزل کی لچک اور شدت کو پیشِ نظر نہیں رکھا گیا۔‘‘

غزل کی یہی لچک ہے جس سے ایک نفسِ خلّاق غزل کہتے کہتے وادیٔ بطحا کی تخلیقی وسعتوں کا زائر بن جاتا ہے۔ غزل نے اپنے دائرے کو وسعت سے کیونکر آشنا کرنا ہوتا ہے؟ اس لئے کہ یہی اس کا مزاج ہے۔ غزل بطور صنفِ شعر وادیٔ نعت کے حوالے سے اپنا دامن نہیں سمیٹتی بلکہ گریباں چاک، وارفتہ، منزلِ جاناں کی طرف لپکتی ہے کہ یہ تو وہ آستانہ ہے جہاں سے ہر بھکاری زمان و مکاں کے خزانے اپنے دامن میں سمیٹ کر اٹھتا ہے۔ پھر نعت کے تخلیقی تجربے کو تغزل سے کیونکر متفرق رکھا جائے! غزل اپنے مزاج کی اسی وارفتگی کی بدولت درِ حبیب پر کاسہ بکف ہے کہ اس میں وسعتِ دوراں، دردِ پنہاں، شبِ ہجراں، بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل، اور جدید تر اردو غزل کا وہ سارا علاماتی لاؤ لشکر جو آج کے دور میں اس کی فتح کا ضامن ہے، اس کے ارتقاء کا سامان کرتا رہتا ہے، جہانِ نعت میں یہ سب کچھ اسے وافر ملتا ہے۔

ریاض حسین چودھری کا اس صنفِ ادب کے حوالے سے یہی وسیع تر جدید تر اور حقائق پر مبنی وہ فلسفۂ تخلیقِ فن ہے جس کا احساس اُس شعر سے شروع ہوتا ہے جو ریاض نے اپنی زندگی کی سب سے پہلی نعت تخلیق کرتے ہوئے لکھا اور جو آج تک ان کے احساسِ فن پر محیط ہے۔ آج البتہ اس فلسفے کا تخلیقی اظہار ان کے نعتیہ کلام کے اس آٹھویں مجموعے ’’غزل کاسہ بکف‘‘ کی صورت میں مجسم نظر آتا ہے اور ریاض کا یہ وہ کارنامہ ہے جس سے انہیں تغزلِ نعت میں امامت کا مقام عطا ہوا ہے۔ نعت لکھتے ہوئے ریاض کو حسنِ ہیئت کا احساس لا شعوری طور پردامن گیر رہتا ہے اور یہ احساسِ لطیف نعت گو شعرا میں کم کم نظر آتا ہے جبکہ یہی احساس معراجِ فن کا ضامن ہے۔

ریاض کا پہلا شعری مجموعہ’’ زر معتبر‘‘ جولائی 1995 میں شائع ہوا جس میں تخلیقِ نعت میں احساس تغزل طلوع صبح کی مانند روشن ہے :

آنسوؤں سے فروزاں ہے بزمِ غزل
تلخ ہے شعر کا ذائقہ یا نبیؐ

میرے الفاظ کو بھی دھڑکنا سکھا
میری مقبول ہو التجا یا نبیؐ

زرِ معتبر ہی کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں۔ وہ اپنے فنِ نعت کو غزل ہی سمجھتے ہیں :

کروں میں بھی حنا بندی گلستانِ سخن تیری
غزل کہتی چلے صلِ علیٰ طیبہ کی گلیوں میں

زرِ معتبر میں ریاض چودھری نعت نگاری کا اہتمام کرتے ہوئے ’’اہتمام‘‘ کے عنوان سے لکھی ہوئی نظم میں یوںغزل گو ہیں :

زباں آبِ زر سے وضو کر کے آئے
لغت کورے کاغذ پہ آنکھیں بچھائے

پسِ حرف جذبوں کی مشعل جلائے
تغزل جبینِ سخن کو سجائے

مرا نطق سجدوں پہ سجدے بسائے
بساطِ ادب پر بیاں سر جھکائے

دھنک سات رنگوں کی رم جھم اٹھائے
مرے دامنِ شعر میں جھلملائے

صبا خاکِ طیبہ کی سوغات لائے
دیارِ عقیدت کی باتیں بتائے

قصیدہ جمالِ نبیؐ کا سنائے
غزل مجھ پہ احسان اپنا جتائے

سخنور فصاحت کے دریا بہائے
سرِ عرش جبریل مصرع اٹھائے

میں توصیفِ ختم الرسلؐ لکھ رہا ہوں
قلم اس سعادت پہ خوشیاں منائے

’’اہتمام‘‘ کے یہ اشعار پڑھنے سے یہ تصور ضرور واضح ہوتا ہے کہ ریاض غزل سے کیا مراد لیتے ہیں۔ احساسِ تغزل کے حوالے سے’ زرِ معتبر‘ کے درج ذیل اشعار بھی ملاحظہ فرمائیں :

ثروتِ جمہور ہو جانِ ابد روحِ ازل
ڈھونڈتی ہے تیرے دل آویز جلووں کو غزل

ورق کو ذوقِ جمال دے گا قلم کو حسنِ مقال دے گا
اسی کا ذکرِ جمیل شہرِ غزل کی گلیاں اجال دے گا

یہ کیسا رت جگا ہے میری غزلوں کے شبستاں میں
مرے کشکولِ فن میں یہ غبارِ نقد جاں کیا ہے

اس کڑی دھوپ میں میَں ترے نام کی سبز چھاؤں کو پرچم بناتا رہوں
یا نبیؐ یہ سفر میرا جاری رہے طشت عرضِ ہنر کا سجاتا رہوں

حشر تک یا خدا کاش ایسا بھی ہو میَں حریمِ غزل کے چمن زار میں
پھول حبِ نبیؐ کے کھلاتا رہوں فصل عشقِ نبیؐ کی اگاتا رہوں

قصیدے سے غزل تک گنبد خضرا کی ہریالی
خزاں نا آشنا کیوں ہو نہ گلزارِ ادب میرا

اسے بھی نسبت کا ایک جرعہ عطا ہوا ہے در نبیؐ سے
بلندیوں پر اڑا کرے گا غزل کے بختِ رسا کا پرچم

ستمبر 2000ء میں ان کا دوسرا مجموعہ نعت رزقِ ثناء صدارتی ایوارڈ سے مزین ہو کر قارئین کے ہاتھوں میں آیا۔ نعت نگاری میں اپنے احساسِ تغزل کی یوں تعریف کرتے ہیں :

کیف میں ڈوبی رہے شہرِ تغزل کی فضا
وجد میں آئے صبا حرفِ دعا سے پہلے

مذاقِ شعر میں رکھ کر گداز و سوز کی مشعل
مجھے مدحت نگاری کا سلیقہ یا خدا دے دے

قلم کی سجدہ ریزی کو پذیرائی کی دے خلعت
چمن زارِ سخن کو خوشبوئے صلِ علیٰ دے دے

نعت نگاری کے عملِ تخلیق پر ریاض اپنی مفکّرانہ شعریت کی نظر ڈالتے ہوئے رزقِ ثناء میں ہمیں بھی یہ آگہی عطا کرتے ہیں کہ فنِ تخلیق کا شاہکار’’ نعت‘‘ ہے کیا!

نعت کیا ہے لب بہ لب طیبہ کے میخانے کا نام
نعت کیا ہے آنسوؤں کے رقص میں آنے کا نام

نعت کیا ہے لوحِ جاں پر پھول بکھرانے کا نام
نعت کیا ہے انؐ کی چوکھٹ پر مچل جانے کا نام

نعت کہنے کے لئے دل پاک ہونا چاہئے
غرقِ الفت دیدۂ نمناک ہونا چاہئے

نعت کیا ہے وادیٔ شعر و سخن کا افتخار
نعت کیا ہے خوشبوؤں کا صحنِ گلشن میں نکھار

نعت کیا ہے رات کے پچھلے پہر کا انکسار
نعت کیا ہے اک عطائے رحمتِ پروردگار

دل کی ہر دھڑکن کہے یا مصطفیٰ تو نعت ہو
حکم دے میرے قلم کو جب خدا تو نعت ہو

یہ ہے وہ نعت جو ریاض لکھتے ہیں۔ اس نعت سے غزل کتنے فاصلے پر خیمہ زن ہے اس پیمایش کے لئے ریاض کے جنونِ نعت کے ایسے ادراک کی ضرورت ہے جو اس نکتے کو پا سکے کہ ریاض کا لاشعور ان کے اپنے شعورِ ذات کی زد میں ہے جس کا وجود یومِ الست سے پہلے ممکن نہیں اور جس کی انتہا ماورائے حشر ہو نہیں سکتی۔ اور ریاض کو اپنی نعت کا شعورِ الست بھی حاصل ہے اور اس نعت کا روزِ حشر بھی انہیں صاف دکھائی دیتا ہے۔ اور نعت کا یہ وہ شعور ذات ہے جو ماضی و حال میں آج تک کسی کے حصے میں نظر نہیں آتا۔ یہ انفرادیت ریاض کی نعت اور ذات کو وجدانی طور پر عطا ہوئی ہے۔

لحد میں پوچھا نکیرین نے کہ کون ہو تم
حضوؐر، آپ کا بس نام حافظے میں رہا

فرشتوں نے بیاضِ نعت میرے ہاتھ پر رکھ دی
مری بخشش کا بھی محشر میں ساماں ہونے والا ہے

محشر کا دن ہے سر پہ قیامت کی دھوپ ہے
میں تشنہ لب ہوں گنبدِ خضریٰ دکھا مجھے

اور وہ اپنے مجموعہ کلام ’’رزقِ ثنائ‘‘ میں’’ آرزو‘‘ کے عنوان سے نظم میں میدانِ محشر کا نقشہ کھینچ کر اپنے شعورِ نعت کی چاندنی کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں کہ سرکارِ دوعالم ﷺ ریاض کو اپنے پورے کنبے کے ہمراہ اذنِ حاضری عطا فرما رہے ہیں :

یہ آرزو ہے سرِ حشر آپؐ فرمائیں
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ ہمارے شاعر کو

چراغِ عشق سجا کر ہتھیلیوں پہ ریاض
کسی کو نعت ہماری سنا رہا ہو گا

انہیں اس بات کا شعورِ حاصل ہے کے سرِ محشران کا معاملہ نعتِ رسول ﷺ کے حوالے سے ہی ہو گا۔ جو بھی نامۂ اعمال انہیں ملے گا وہ زرِ معتبر سے لے کر خلدِ سخن اور اب غزل کاسہ بکف اور اس کے بعد آنے والے ان کے دیگر مجموعہ ہائے نعت کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے :

بیاضِ نعت لئے چھپ کے میں کھڑا تھا ریاضؔ
کسی نے نام سرِ حشر لے لیا میرا

ان کا مجموعہ کلام متاعِ قلم مئی 2001ء میں شائع ہوا۔ رزقِ ثنا سے سرشار یہاں بھی ریاض غزل کو خراجِ تحسین پیش کرنا نہیں بھولتے۔ اپنی شعریت کا احساسِ تغزل انہیں ہر وقت دامن گیر رہتا ہے :

سنائے نعتِ پیمبرؐ غزل مدینے میں
سماءِ شعر ستارے اگل مدینے میں

یہ اقتدائے حضرتِ حسّاںؓ کا دور ہے
دم سادھ لے سخن کی گلی میں غزل ذرا

تغزل حسن اظہار کا وہ سحرِ کلام ہے جس سے معنویت کے زمان و مکاں الفاظ کے مہکتے پھولوںمیں سمٹ آتے ہیں۔ ریاض حسین چودھری کا کشکولِ آرزو مئی 2002ء میں چھپ کر آیا۔ اسی احساسِ تغزل کی تجلی یہاں بھی ضو فشاں ملتی ہے :

تلاشِ رزقِ دل لائی ہے بزمِ شعر میں مجھ کو
مری کشتِ غزل فصلِ ثنائے مجتبیٰ لائے

دھنک، گلاب، ہوا، چاندنی، صبا، شبنم
بفیضِ نعت دیارِ ہنر میں رہتے ہیں

الغرض ریاض کا کوئی شعری تجربہ احساسِ تغزل سے مبریٰ نہیں اور ہوتے ہوتے یہ احساس آپ کے نطقِ نعت پر یوں محیط ہو گیا کہ انہوں نے اس کا بھرپور اظہار چاہا اور لکھنے لگے تو ’’غزل کاسہ بکف‘‘ لکھنے لگے جس میں ہمیں ہشت نعتیہ، چہار نعتیہ، سہ نعتیہ اور دو نعتیہ کلام کا ایک بحرِ مواّج طوفاں بدوش نظر آتا ہے۔ لکھنے لگتے ہیں تو لکھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی نے ’’زر ِمعتبر‘‘ پر لکھتے ہوئے اپنا مشاہدہ یوں بیان کیا ہے :

’’ریاض حسین چودھری کی نعتیہ شاعری پڑھتے ہوئے میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ جب نعت کا آغاز کرتے ہیں تو ان پر وارفتگی اور سپردگی کی ایسی کیفیت چھا جاتی ہے جسے وہ ہر ممکن حد تک جاری رکھنا چاہتے ہیں اور نعت یا نعتیہ نظم یا نعتیہ قصیدے کو انجام تک پہنچانے کو ان کا جی نہیں چاہتا۔‘‘

’’غزل کاسہ بکف‘‘ اسی کیفیت کے آبِ خنک کی وہ سبک رفتار ندی ہے جو رواں ہے، معطر ہے، بہار بداماں ہے اور ہستی کا نکھار بن کر جھومتی بہتی چلی جاتی ہے۔ اس کی سطح پر کئی بیقرارو بیخود موجیں لچکتی مچلتی ایک دوسرے میں گم ہوتی چلی جاتی ہیں اور کچھ ہی ثانیے بعد پھر اسی سطحِ آب پر نئی آب و تاب کے ساتھ رقصاں و خیزاں نظر آنے لگتی ہیں۔ اس کیفیت ِ جنوں کو قدرتِ زبان کے حوالے سے دیکھیں تو سید جعفر طاہر کی ’’ہفت کشور‘‘ یاد آتی ہے۔ نہ کہیں روانی تھمتی ہے نہ شگفتگی اور تازگی میں کمی نظر آتی ہے۔ ایک کاروانِ بہار ہے جو اپنے تمام رنگوں اور عطر بیزیوں کے سیلانِ متحدہ کے ساتھ ہر سو رواں ہے جس میں ریاض خود بھی مہک رہے ہیں اور سارے عالمِ نطق و سماعت کو بھی مہکا رہے ہیں۔ ان پر یقیناًسرکار دو عالم ﷺ کا خصوصی کرم ہے۔

اگرچہ کتاب کا نام ہی ’’غزل کاسہ بکف‘‘ ہے، ریاض شعر کہتے ہوئے احساسِ تغزّل سے آزاد نہیں ہو پائے۔ چنانچہ اس کتاب میں بھی اسی حوالے سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :

رتجگا نعتِ مسلسل کا ہے بستی بستی
شب نے کس تارِ تغزّل سے بُنی ہیں آنکھیں

لکھے عروسِ شہرِ غزل نعتِ مصطفیٰ
قصرِ ادب کے سبز حوالو! ادب ادب

طاقِ سخن میں میری غزل احترام سے
آ کر چراغِ نعت رکھے بعد حشر بھی

موسم ثنا کا شہرِ غزل میں مقیم ہے
کلیاں سخن کی بانٹتی ہے آج بھی ہوا

کوئی غزل گو شاعر علامتی پیرائے میں اظہار کے بغیر جدید معیاری غزل تخلیق نہیں کر سکتا۔ اس لحاظ سے قدیم شعراء کے ہاں بھی جدید حسنِ شعریت اورحسنِ تغزّل علامات کی کہکشاؤں سے ہی کشید ہوا ہے۔ میر تقی میرؔ نے کہا :

شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہُوا ہے چراغ مفلس کا

مفلس کا چراغ اور دل کا شام ہی سے بجھا سا رہنا--- کیا کہنے!

غالب لکھتے ہیں :

لرزتا ہے مرا دل زحمتِ مہرِ درخشاں پر
میں ہوں وہ قطرۂ شبنم جو ہو خارِ بیاباں پر

علامت غزل کی روایت ہے۔ جس نے جتنی مربوط علامت استعمال کی، اتنی ہی تحسین پائی۔ جدید شعراء میں پروین شاکر کی غزل میں علامت کی چکا چوند اسے زندہ جاوید کر گئی۔

محسن کاکوروی ہوں، حافظ لدھیانوی ہوں یا حفیظ تائب، سب نے علامتی پیرایۂ اظہار سے نعت نگاری کو حسنِ تغزل بخشا ہے اور معنویت کی بیکرانیوں کو جذبۂ و فکر کی کشاکش سے مسخر کر لیا ہے۔ ریاض حسین چودھری کے ہاں ہمیں اس پیرایۂ اظہار کے تشّہد میں ایک پورا علامتی نظام نظر آتا ہے۔ ہر لفظ کا ہر دوسرے لفظ، ہر استعارہ و تشبیہہ اور ہر علامت کا حرف حرف سے قریبی اور قلبی تعلق ہے۔ ان کا قلم ان کا مصاحب ہے مشیر ہے اور وفا شعار دوست کی طرح ان پر نچھاور ہوتا رہتا ہے، رعائتیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ریاض کے سامنے رکھتا ہے اور وہ ان کوسرمہ کی طرح چشمِ قلم میں لگا کر اس کی آبِ بصیرت کو تیز تر کر دیتے ہیں۔ ریاض جس لفظ کو اٹھا کر جس لفظ کے ساتھ چاہیں جوڑ لیں، معنوی حسن کی سیج سجتی ہی چلی جائے گی۔ گہرائی اور گیرائی آسمان سے نازل ہوتی دکھائی دے گی۔ ملائکہ کے پر نظر آنے لگیں گے۔ ہوا آتی جاتی گنگناتی سنائی دے گی، قلم حسنِ حرف و صوت میں مسرورو رقصاں حسنِ تغزل کو دادِ تحسین دے رہا ہو گا، لفظ لفظ نشۂ معنیٰ کا جام پیتا ملے گا۔ بال و پر اُگتے، اُڑتے، جھڑتے ملیں گے۔ خوشبو تسکین کدۂ نعت کی تزئین کر رہی ہو گی، قبر ہو یا حشر، ریاض درِ مصطفیٰ ﷺ پر ہی ملے گا، نعت کہتا ہی ملے گا، نعت سناتا ہی ملے گا۔ ریاض ہرگز تنہا نہیں۔ اس کی علاماتِ تغزّل اس کے زندہ اصحاب و احباب ہیں۔ حرف و قلم ہوں یا ورق، نطق ہو یا لہجہ، پھول ہوں یا دھنک، ہوا ہو یا طاق، چراغ ہو یا ہتھیلی، فصلِ گل ہو یا خلدِ سخن، موسمِ ثنا ہو یا سخن کی کلیاں، مصرع ہو یا غزل، اشعارِ نعت ہوں یا زائرینِ مدینہ، راستے ہوں یا شام و سحر سب کچھ ہر وقت ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان کا گھر بار بچے بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ ایک خاندان کی طرح آپس میں کئی معنوی رشتوں میں پروئے ہوئے ہیں اور ریاض ایک ماہرِ فن، جو کہ وہ ہیں، جس کو جس کے ساتھ چاہیں جوڑ کر نئے نئے معانی اور نئے نئے مضامین تخلیق کرتے چلے جائیں، وہ اس راہ پر چلتے ہی چلے جاتے ہیں۔ نہ کہیں رکتے ہیں نہ تھکتے ہیں اور نہ تنہا ہوتے ہیں۔ ایک کارواں ہے جو ان کے ساتھ ساتھ رواں دواں ہے اور یہ خود اس کے قافلہ سالار ہیں :

نعتِ حضور چشمۂ انوار ہے مگر
ہے لفظ لفظ نعت کا تنہا بھی روشنی

مصرع اٹھا رہے ہیں نئی نعت کا ریاضؔ
شبنم، دھنک، چراغ، شفق، چاندنی، ہوا

حلقۂ شعر و فن کی ہواؤ سنو پھول کھلتے رہے نعت ہوتی رہی
میرے لب پر مچلتی دعاؤ سنو! پھول کھلتے رہے نعت ہوتی رہی

قافلے خوشبوؤں کے گزرتے رہے جمگھٹے روشنی کے اترتے رہے
رحمتِ مصطفیٰ کی رداؤ سنو، پھول کھلتے رہے نعت ہوتی رہی

اور ریاض کی یہ نعت ہوتی ہی رہے گی اور غزل ان کے درِ نعت پر کاسہ بکف ہی رہے گی۔ اس دوامِ نعت کے لئے عالمِ دنیا، عالم برزخ اور روزِ محشر کی کوئی قید نہیں :

محشر کے دن بھی نعت حوالہ بنی ریاضؔ
محشر کے دن بھی حرفِ سخن محترم ہوا

اب یہاں غزل کاسہ بکف نہ رہے تو اور کیا کرے۔

کاش میں ریاض کی غزل ہوتا اور ان کی نعت کے حضور کاسہ بکف رہتا۔