مقامِ حضوری- ریاض حسین چودھریؒ کی نعت نگاری

ریاضؔ نعت لکھتے ہوئے اپنی اِس صلاحیت کے عطائے ربانی ہونے سے آگاہ رہے اور اِس آگہی کو اپنی ذات کی گہرائیوں میں محسوس کرتے ہوئے کیف حضوری سے سرشار رہے۔ 1986ء بارگاہ رسالت میں حاضری کی سعادت حاصل ہونے کے بعدوہ ہر وقت نعت میں کھوئے رہتے۔ جب لکھنے لگتے تو نعت ختم ہوتی نہ ان کا قلم رُکتا اور خود وہ اس کیفیت سے باہر نکلنا نہ چاہتے۔ حتیٰ کہ انہوں نے طویل نعتیں لکھیں۔ دو نعتیہ، سہ نعتیہ اور چہار نعتیہ تخلیق کیں یا ایسی طویل نعتیںلکھیں کہ ایک ہی نعت پر مشتمل کتاب وجود میں آگئی جیسے ’’تمنائے حضوری‘‘، ’’سلام علیک‘‘ اور ’’طلوع فجر‘‘۔

مدحتِ رسولؐ ریاض کے خمیر میں تھی جس کا اظہار وہ یوں کرتے ہیں :

میں تو کیا سوچیں بھی میری دست بستہ ہیں ریاض
جب بھی سوچوں گا نبی کی نعت ہی سوچوں گا میں

نعت کی یہ لامحدودیت، دائمیت، وجدانیت اور حضوریت ریاض کے ہر شعر میں تجلی کی صورت نظر آتی ہے۔ زمزم عشق میں لکھتے ہیں :

دیارِ ہجر میں کیفِ حضوری ہے مجھے حاصل
مرے اندر کا ہر موسم مدینے ہی کا موسم ہے

تمنائے حضوری کے تخلیقی لمحات

حضوری کی تمنا ریاض کے دل و دماغ میں جاگزیں تو تھی ہی۔ ان کے شب و روز اسی کیفیت میں گزرتے حتیٰ کہ عملی کاروباری زندگی کے معاملات بھی انہیں غافل نہ ہونے دیتے اور وہ تخلیق نعت کے سرور میں محو رہتے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ تو شائع ہو چکا تھا اور اب وہ اس راہ پر آگے نکل آئے تھے۔ بیسویں صدی کی آخری طویل نظم ’’تمنائے حضوری‘‘ کے تعارف میں وہ خود لکھتے ہیں :

’’رمضان المبارک 1419ھ کا آغاز ہو چکا تھا یہ جنوری 1999ء کی 15 تاریخ تھی، جمعۃ الوداع اور 26 رمضان المبارک، اس شب لیلۃ القدر تھی۔ ایک روحانی رتجگا دل و جاں پر محیط تھا۔ میں اپنی رہائش گاہ (ٹاؤن شپ لاہور) سے بذریعہ ویگن ماڈل ٹاؤن میں واقع تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ کی طرف آرہا تھا۔ سفر کے دوران ایک قطعہ ہوا، دفتر تک پہنچتے پہنچتے کئی مصرعے قرطاسِ ذہن پر نقش ہو چکے تھے، یہ چھٹی کا دن تھا۔ ڈاکٹر فرید الدین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بند تھا۔ میںنے اندر سے چٹخنی چڑھالی اور اپنے کیبن میں آگیا، قریۂ شعور میں احساسات کے قافلے اتر رہے تھے۔

دستِ بوسی سے کبھی مجھ کو نہ فرصت ملتی
شہرِ سرکار ﷺ کے بچوں کا کھلونا ہوتا

ان دو مصرعوں نے مجھے اندر سے ریزہ ریزہ کر دیا، میں دیر تک دھاڑیں مار مار کر روتا رہا۔ یہاں خدا کے سوا مجھے دیکھنے والا کوئی نہ تھا۔ حضور ﷺ کے عہد مبارک میں ہونے کی آرزو لفظوں کے پیرہن میں ڈھل گئی۔ حضوری کی مختلف کیفیات ذہن میں مرتب ہونے لگیں، الفاظ با وضو ہو کر دست بستہ سوچ کی راہداریوں میں کھڑے تھے اور پھر چند روز میں 150 قطعات پر مشتمل طویل نظم ’’تمنائے حضوری‘‘ حیطۂ ادراک سے حیطۂ شعور میں آ چکی تھی۔ سکون اور اطمینان کا دریا میرے چاروں طرف موجزن تھا، عشق مصطفیٰؐ کے پانیوں میں تر اپنے ہونٹوں کو چوم رہا تھا، وہ ہونٹ جنہوں نے مجھے فکرونظر کے شاداب موسموں اور مخمور ساعتوں کے گدازِ جاں سے ہمکنارکیا ہے، میں نے اپنے ہاتھوں کے ساتھ اپنے قلم کو بھی بوسہ دیا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔‘‘

اس نظم کی تخلیقی روداد میں یہ بات نمایاں ہے کہ 150 قطعات میں مضامین ایک فکری ترتیب سے نظم کئے گئے ہیں۔ میلاد مبارک، حلیمہ سعدیہؓ، مکہ مکرمہ میں پیش آنے والے واقعات، ہجرت مدینہ اور فتح مکہ کی ترتیب زمانی پوری نظم میں واضح طور پر نظر آتی ہے جو اس کی فکری بلندی اور سیرت طیبہ کے حوالے سے ریاض کی حِسیّت اور ان کے شعری تجربے کی لطافت کی بنیاد ہے۔

جب میں نے انہیں دیکھا تو ریاض اسی حال میں ملفوف تھے، ایسا حال جس میں مجھے تبدیلی دیکھنے کو نہ ملتی تھی۔ اکٹھے اٹھتے بیٹھتے۔ سیرت، نعت اور فن پر ہلکی پھلکی گفتگو بھی کرتے اور ایک دوسرے کی حسِ مزاح کا امتحان بھی لیتے رہتے۔ وہ کیا دن تھے ! بہت زور دیتے رہے کہ اچھی غزل کہتے ہو نعت لکھو، تو میں کپکپا جاتا۔ اس احساس سے لرز جاتا کہ مجھ جیسا خطاکار کیسے سرکار دوعالمؐ کی مدح لکھ سکے گا۔ مگر ریاض نے محنت کی اور مجھ سے فروری 2001ء میں نعت لکھوانے میں کامیاب ہو گئے جس کا مقطع یہ ہے:

ضیاعِ عمر کے گو مرتکب ہوئے ہو عزیزؔ
درِ حبیبؐ سے لے لو حیاتِ نو اب بھی

پھر مجھے درِ حبیبؐ سے حیات نو کا تحفہ مل گیا۔ الحمد للہ۔

عیادت کے لئے ہسپتال میں آنے والے احباب بتاتے ہیں کہ ریاض 22 نومبر 1999ء کو ایکسیڈنٹ کے بعد ہسپتال میں بے ہوشی کے عالم میں بھی نعتیہ اشعار اور ’’تمنائے حضوری‘‘ سے اقتباسات پیش کرتے رہے اورکرب کے ان لمحات میں بھی ان کے لبوں پرمحبوبِ حق کی ثنا کے پھول کھلتے رہے۔ ریاض نے تمنائے حضوری کے اسی دلکش اسلوب کو توشۂ آخرت جانتے ہوئے کہا :

لمحاتِ حاضری کی تمنا لئے ہوئے
ایک ایک لمحہ عمرِ رواں کا بسر ہوا

میں نے ایک چیز ریاض حسین چودھری کے بارے میں شدت سے محسوس کی کہ ان کا شعری تخیل محض شعری تخیل نہ تھا بلکہ وہ حق الیقین کے ساتھ شعر ی مضامین کو اپنے نفس مدرّک میں سمجھنے کے بعد انہیں الفاظ عطا کرتے۔ جو انہیں کہنا ہوتا اس کے لئے ردیفیں، قافیے اور poetic diction کا تعین پہلے کرتے۔ وہ فن کی ایسی بلندی پر تھے کہ مضمون، موڈ، اور رفتارِ اظہار کے لئے کون سی ردیف اور کیا کیا قافیے ثمر بار ثابت ہوں گے۔ پھر کامل فکری واضحیت کے ساتھ اپنے وسائلِ شعری کو استعمال میں لاتے۔ یہ بھی ان کی کیفیت حضوری کا حصہ ہوتا کہ وہ کیا لکھیں گے اور کتنا لکھ سکیں گے۔ محویت میں پھر وہ لکھتے ہی چلے جاتے۔ ان کے شعری ادراک میں حقیقت پیوست رہتی اور حق محسوس کر کے محسوس کیا ہوا حق کہہ دیتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج اگر ہم تمنائے حضوری کے اشعار پڑھیں تو محسوس ہو تا ہے کہ وہ حق بات کہہ گئے۔ ملاحظہ کریں :

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے رب کریم
لفظ بن کر میں بصیریؒ کا قصیدہ ہوتا

کلکِ حسانؒ کی رعنائی کا ہوتا پیکر
اعلیٰ حضرت کا میں پر جوش عقیدہ ہوتا

ریاضؔ کا پورا کلام ان کی اس تمنا کی حقانیت کا کامل ثبوت ہے۔ پھر لکھتے ہیں :

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
حرف اعزازِ سگِ کوئے پیمبر ہوتا

اپنے آقاؐ کی گلی سے نہ نکلتا باہر
موت کے بعد بھی سرکار کے در پر ہوتا

موت کے بعد مدینے میں ہونا ان کا محبوب موضوع ہے۔ موت، قبر، قبر میں مدحت نگاری کی تمنا، قبر میں محفل درود اور مدینے میں سکونت ایسے مضامین ہیں جو ریاض کے کلام میں ہیرے جواہرات کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ اور ان کے مقامِ حضوری کی غمازی کر رہے ہیں :

حشر تک چین سے سو جاؤ فرشتوں نے کہا
دیکھ کر قبر میں بھی صل علیٰ کا موسم

اور یہ شعر دیکھیں :

بعد مرنے کے چلے جائیں گے سب سے چھپ کر
ایک گھر ہم نے مدینے میں بنا رکھا ہے

وہ تو ہر لمحہ مواجھے میں رہ کر سوچتے، سانس لیتے اور زندگی کرتے ہیں :

سلام لکھتا رہوں جالیوں پہ اشکوں سے
چنابِ عِشق کی صورت بہوں مواجھے میں

درود پڑھتے ہیں لمحے حیات کے آقاؐ
ہر ایک سانس میں ہوں آپؐ کے مواجھے میں

مرا حوالہ فقط آپؐ کا حوالہ ہے
جسے ملوں میں ملوں آپؐ کے مواجھے میں

دمِ رخصت نہ جانے وہ کیا کیا ملاحظہ کر رہے ہوں گے۔ جب انہیں سرجری کے لئے اپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا جس کے بعد وہ ہم سے جدا ہو گئے تو اس سے کچھ پہلے انہوں نے ایک شعر کہا اور یہ بھی کہا کہ یہ ان کا آخری شعر ہے :

میں اکثر سوچتا رہتا ہوں اے کونین کے مالک
تری جنت مدینے سے کہاں تک مختلف ہو گی

رسولِ محتشم ﷺ کے مدحت نگار کا ربِ محمد ﷺ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا اور انہوں نے جنت میں جانا پسند کیا یا مدینے میں رہنا تو میں جہاں تک ریاض کو سمجھتا ہوں ان کا انتخاب مدینہ ہے۔ میں نے ان کا آخری دیدار کیا تو یہی سمجھا کہ وہ حضوری میں ہیں۔ ریاض مقام حضوری پر فائز تھے۔ اپنے 21ویں مجموعے میں وہ خود لکھ گئے ہیں :

بچّو! دمِ رخصت مرے، کہنا یہ اجل سے
ابّو تو ابھی مدحتِ سرکارؐ میں گُم ہیں