ریاضؔ کے شعورِ نعت کی نشوونما- ریاض حسین چودھریؒ کی نعت نگاری

شعری نمود کے اِبتدائی اَحوال

ابتدائی عمر ہی میں حب رسول ﷺ کے نور کا قلب و نظر میں اجالا مشیت ایزدی کے خصوصی کرم کے سوا کچھ نہیں۔ زندگی کے جملہ امور میں روضۂ رسول ﷺ سے رغبت اور آپ ﷺ کی بارگاہ اقدس میں حضوری کی تمنا دل میں بسا لینا رب کریم کا بندے پر عظیم احسان ہے۔ قدرت کے ایسے فیصلوں کی حکمتوں کا ادراک اس وقت نہیں ہوتا جب اس کا نزول ہو رہا ہوتا ہے۔ خود صاحبِ تمنا بھی اس کا شعور نہیں رکھتے جب کہ وہ اس جادۂ رحمت پر سوئے منزل رواں دواں ہوتے ہیں۔ ریاض کے لئے حضوری بارگاہِ رسالت میں ایک جاں گداز قلبی کیفیت کے ساتھ ساتھ ایک ضو فشاںتخلیقی تجربہ بھی تھا جس کے بارے میں 21 ویں صدی کے نام ایک طویل نظم ’’تمنائے حضوری‘‘ میں وہ خود لکھتے ہیں :

’’شہر اقبال کی ثقافتی اور مجلسی زندگی میں اظہارِ عقیدت کے نئے نئے دروازے وا ہوئے۔ تمنائے حضوری کو ایک نیا آہنگ ملا، ہر سال شبِ میلاد نعتیہ محفلِ مشاعرہ کے انعقاد کا آغاز ہوا، ان محافل میں عبد العزیز خالد، حفیظ تائب، حافظ لودھیانوی، آسی ضیائی، حافظ محمد افضل فقیر، خالد بزمی، ہلال جعفری، راز کاشمیری، عباس اثر، اصغر سودائی، راجا رشید پروفیسر محمد اکرم رضا، جان کاشمیری، آفتاب احمد نقوی، انور جمال، خلیق ممتاز، قمر یزدانی، قمر تابش، سید گلزار بخاری اور دیگر کئی ممتاز شعراء شریک ہوتے۔ کشور دیدہ و دل میں حضوری کے چراغوں کا اجالا ہو تاکہ کاش ہمیں بھی حضور ﷺ کا مقدس زمانہ ملا ہوتا، طارق اسمعیل کا یہ شعر :

عالمِ وجد میں رقصاں مرا ہر پر ہوتا
کاش میں گنبدِ خضرا کا کبوتر ہوتا

روح کی پہنائیوں میں رچ بس سا گیا، یہ شعرآج بھی قلب و نظر میں محبتِ رسول ﷺ کی کہکشاں بکھیر رہا ہے، شعراء کے اکثر اشعار میں حاضری اور حضوری کی تمنا مچلتی دکھائی دیتی، شہر حضور ﷺ میں پہنچنے کی آرزو پر پھیلاتی تو کیف و سرور کے ان گنت دروازے خود بخود کھل جاتے، خوشبوئے اسم محمد ﷺ پرفشاں ہوتی تو ہر طرف اجالے بکھر جاتے، گدازِ عشقِ رسول ﷺ کی مشعل شبِ تنہائی میں تنہائی کا احساس نہ ہونے دیتی۔‘‘

اپنی کاروباری زندگی کے دوران اپنی ادبی خدمات میں ہمہ تن مصروف رہے اوراپنے اندر اترے ہوئے حضوری کے موسم کو گلہائے رنگ رنگ میں ڈھالتے رہے۔ انہوں نے ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں ہر ماہ بڑے پیمانے پر محفلِ میلاد کا انعقاد ہوتا جس میں وقت کے بڑے اور نامور مدحت نگاروں کو مدعو کیا جاتا اور ان سے نعتیہ کلام سن کر اپنا ایمان تازہ کیا جاتا۔ ابھی جن شعرا کرام کی فہرست آپ نے دیکھی ہے وہ سب انہی محفلوں کی رونق دوبالا کرتے تھے۔ جناب حفیظ تائب اور احمد ندیم قاسمی اکثر ان محافل اور حلقۂ ارباب ذوق کے پروگراموں میں شرکت کے لئے سیالکوٹ آتے اورتخلیق کاروں کے لئے حوصلہ افزائی کا سامان کرتے۔ ریاضؔ حسین چودھری حلقۂ اربابِ ذوق سیالکوٹ کے سیکریٹری منتخب ہوئے اور پاکستان رائٹرز گلڈ سب ریجن سیالکوٹ کے سیکریٹری بھی رہے۔ وہ ایک فعال ادیب تھے۔ خوب غزل لکھتے اور دادِ تحسین وصول کرتے۔ مگر مدحت رسولؐ خمیر میں تھی تو خود کو نعت نگاری کے لئے وقف کر دیا۔ دل میں حضوری کی تمنا تو وہ قدرت سے تحفتہً لے کر پیدا ہوئے تھے، یہ سارا زمانہ اسی تمنا کی نذر کر دیا۔ پھر وہ لمحۂ جانفزا آن پہنچا جس کے لئے وہ زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع کرنے پر تیار نہ تھے۔ دل کی کسک میں تموج کیا آیا کہ مدحت نگاری کا ایک بحرِ مواج ساحل اظہار کو توڑ تاڑ کر بے کراں ہو گیا۔ ان کے آخری سانس تک نہ یہ طوفان تھما اور نہ مقام حضوری کی چکا چوند میں کوئی کمی واقع ہوئی۔

آج جب ریاض حسین چودھری ہم میں نہیں تو ان پر تحقیق کے حوالے سے کچھ ایسے بنیادی سوالات سامنے آ رہے ہیں جن کے بارے میں ان سے پوچھ لیا جاتا تو اچھا ہوتا اور ہمارے پاس مکمل معلومات ہو تیں۔ مگر انتہائی مصروفیات کے باعث اس طرف دھیان نہ گیا جب کہ چودھری صاحب سرورِ مدحت میں محو رہتے۔

اب ان کے شعری اور ادبی ارتقا پر تحقیق شروع ہوئی ہے توان کی فائلز، خطوط اور ڈائریزدیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ اس پڑتال میں ان کا 1971ء کا مطبوعہ کلام ’’خون رگ جاں‘‘ ہاتھ لگا۔ بوسیدہ حالت میں 48 صفحات پر مشتمل ملی نظموں کا یہ مختصر شعری مجموعہ ستمبر 1971 میں یوم دفاع پاکستان کے موقع پر500 کی تعداد میںشائع ہوا تھا۔ اس کا پیش حرف اور منظوم دیباچہ 18 نومبر 1970 کوجناب آغا صادق (پروفیسر سید صادق حسین صادق) کا لکھا ہوا ہے۔ آغا صادق اردو ادب کا ایک بڑا نام ہے اور ان کے ساتھ ریاض صاحب کا رابطہ اکثر رہتا۔ دوسرے ہی صفحے پر ایک صفحے کا تعارف چھپا ہوا ہے جو میرے نزدیک چودھری صاحب کے اس زمانے کے سب سے پیارے دوست جناب محمد اقبال منہاس صاحب مرحوم کی انتہائی دلآویز تحریر ہے۔ ان دونوں حضرات کی تحریروں سے ریاضؒ کے اوائل دور کی ذہنی اٹھان، ادبی ذوق کی جہات اور اس نفیس اور اخلاص کے پانیوں سے دھلے ہوئے مدحت نگاری کے لب و لہجے کے ابتدائی خد و خال ملتے ہیں جو بعد میں ساٹھ ہزار سے زائد اشعار لکھ کر اور ہر صنف شعر کا دامن ستائشِ رسول ﷺ کے زر معتبر، رزقِ ثنا اور متاعِ قلم سے مرصع کر کے ایسا دبستانِ نو تخلیق کر گئے جو آنے والے نعت نگاروں کے لئے حرف و بیاں کی اگلی صدی کا پیش رو کلام ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ جناب اقبال منہاس اداس کر جانے والی کیا تحریر سپرد قلم کر گئے:

’’ریاؔض سے میری بہت پرانی دوستی ہے۔ میں شاید صدیوں سے اسے جانتا پہچانتا چلا آیا ہوں! مقدس الہامی کتابوں کے بعد جو سب سے قیمتی کتاب مجھے پڑھنے کو ملی وہ ریاض کی دل آویز، دل کش اور حد درجہ حسین و جمیل شخصیت پر مبنی تھی۔ میں نے اس حد تک مستغرق ہو کر اس کتاب کے جگمگاتے ہوئے اوراق سے استفادہ کیا ہے کہ آج اس کی ہر سطر اور اس کا ہر حرف میرے لوحِ احساس پر چاند کی طرح نقش ہے۔ وہ خلوص کا پیکر، پیار کا ساگر اور محبت کا سیلاب ہے۔ ریاض کی جادو بھری شخصیت عود و عنبر کے مہکتے ہوئے جزیروں سے زیادہ معطر ہے! آج جب کہ دوریوں کے طلسم زار میں بے حد اداس اور تنہا ہوں، ریاض کی زر کار دوستی اور اس سے منعکس ہونے والے یادوں کے جاوداں سلسلے سیالکوٹ کی میٹھی شاہراہوں سے لے کر بلاد العرب کے گہرے نیلے پانیوں تک پھیلے ہوئے ہیں! الفاظ اتنے موثر اور معتبر کہاں ہیں کہ میں ریاض کے فن اور اس کی من موہنی شخصیت کے سبھی پہلووں کو تحریر کی مالا میں پرو کر آپ کے سامنے پیش کر سکوں۔ اس کی شخصیت تو دلفریب رنگوں کا ایک گاتا ہوا آبشار ہے کہ دھنک کے ساتوں رنگ بھی سنولا جائیں! ریاض کی تصویر کو ذرا غور سے دیکھیئے اور یقین مانیئے وہ اپنی تصویر سے کہیں زیادہ پیارا اور معصوم ہے! رہا اس کی شاعری کا سوال تو اس کی شاعری اپنی ہی صاف ستھری، بے داغ اور نکھری ہوئی شخصیت کا شفاف عکس ہے۔ اُس کی شاعری معمہ نہیں ایک کھلا ہوا راز ہے۔ اس میں اسلامی روایات کی عظمت، مذہب کا تقدس، میکانکی دور کے مسائل کی صدائے بازگشت، خوشیوں کی آہٹ، دکھوں کی آواز، زلفوں کی مہکاراور غم کی جھنکار سبھی کچھ شامل ہے۔ وہ ہمارا نہیں سب کا شاعر ہے۔ وہ ایک دُرِ یکتا ہے اور اُس بے مثال تاج میں سجنے کے لئے ہے جس کی وسیع و عریض سلطنت میں صرف انسانیت کی شہریاری ہوگی!‘‘

اس تحریر کو غور سے پڑھنے کے بعد اب آپ چودھری صاحبؒ کی لکھی ہوئی تحریر کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں جو انہوں نے اقبال منہاس کی ناگہانی وفات کے بعد ان کے شعری مجموعے ’’آبِ گریزاں‘‘ کے فلیپ کے طور پر لکھی تھی۔

’’رعنائیِ خیال ہاتھ باندھے اقبال منہاس کے درِ تخلیق پر رہتی، خوشبو ان کے دامنِ خیال میں چراغ جلاتی اور نئے موسموں کی نرماہٹ ان کی دنیائے فکر و فن میں رتجگے بناتی۔ قلم اٹھاتے تو پھول جھڑنے لگتے، لب کشا ہوتے تو چاندنی بکھرنے لگتی۔ ورق ورق پر ستاروں کے جھرمٹ اترتے دکھائی دیتے، .....بلاشبہ اقبال منہاس کا جہانِ شعر رنگوں، روشنیوں اور خوشبوؤں کا ایک بلیغ استعارہ ہے۔ تفہیم کے مقفل دروازوں کو کھلنے میں دیر نہیں لگتی۔ علامتوں کی ایک نئی دنیا ان کے ہاں آباد نظر آتی ہے۔ کومل جذبے اور سندر آرزوؤں کے قافلے مرحلۂ تخلیق سے بادِ صباکے خوشگوار، جھونکوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔ جدید طرزِ احساس کی کرنیں ان کے اندر سے پھوٹتی ہیں کہ داخل کے ساتھ خارج بھی جگمگانے لگتا ہے.....اقبال منہاس نے نظم و نثر دونوں میں فرسودگی اور قنوطیت سے اعلانِ بغاوت کیا۔ گھسی پٹی راہوں پر چلنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس لئے کہ ایک سچا فنکار اپنی راہیں خود ہی تلاش کر لیتا ہے۔ مرے کالج سیالکوٹ کی ادبی فضا اقبال منہاس اور خواجہ اعجاز احمد بٹ کے دم قدم سے ایک تحریک کی صورت اختیار کر گئی تھی، میں ان دنوں مرے کالج میگزین کے اردو سیکشن کا ایڈیٹر تھا۔ ۔ ۔ ۔ اقبال منہاس سوچ اور اظہار کے نئے دروازوں پر دستک دیتے ہیں لیکن روایت سے کلیتاً کنارہ کشی اختیار نہیں کرتے۔ ان کی جڑیں اپنی مٹی میں پیوست ہیں۔ اور ان کا فن اسی مٹی سے تخلیقی توانائی حاصل کرتا ہے.....بیسیویں صدی کی ساتویں دھائی میں جو نئی آوازیں کاروانِ اہلِ قلم میں شامل ہوئیں ان میں اقبال منہاس کی توانا آواز اپنے دلکش اسلوب کے کئی حوالوں سے انفرادیت کا پہلو لئے ہوئے تھی۔ آپ شہرِ تخلیق میں ہوائے تازہ کے خنک جھونکوں کے مانند داخل ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اربابِ علم و فن کی نگاہوں کا مرکز بن گئے۔ زندگی نے انہیں مہلت نہ دی۔ رنگوں، خوشبوؤں اور روشنیوں کو سوگوار چھوڑ کر اس مٹی کا کفن اوڑھ لیا جس مٹی کی خوشبو نے ان کے قلم کو رعنائی عطا کی تھی۔ آج جبکہ ان کے شعری مجموعے’’ آبِ گریزاں‘‘ کا فلیپ لکھ رہا ہوں میری آنکھیں ہی نہیں میرا قلم بھی اشکبار ہے۔‘‘

’’خون رگ جاں‘‘ میں جناب آغا صادق کا لکھا ہوا ’پیش حرف‘ بھی تحقیقی دلچسپی سے خالی نہیں۔ یہ ایک نہایت کارآمد تحریر ہے جس سے ہمیں چودھری صاحبؒ کے اوائل زمانے میں شعریت، ذوقِ نعت، خصوصی رجحانات اور مستقبل میں قابل ستایش اور نمایاں مقام کے زمینی خد و خال کی شہادت ملتی ہے۔ جناب آغا صادق خودایک مایہ ناز ادیب، نقاد، شاعر، ماہر تعلیم اور بیک وقت چار زبانوں پر مکمل عبور رکھنے والے محقق تھے۔ ان کے 24 شعری مجموعے شائع ہوئے اور بلوچستان میں اردو ادب کی نشوونما میں انہیں سرپرستی کا مقام حاصل تھا۔ آپ نے نومبر 1970 میں ’’خونِ رگ جاں‘‘ کے لئے پیش حرف میں لکھا :

’’شہر اقبال ہی سے اٹھنے والا نوجوان شاعرریاض حسین چودھری بھی اسی (مقصدی شاعری کے ) مکتبۂ فکر کا پیرو ہے۔ اس کا تخیل انفرادی تنگنائے میں مقید نہیں بلکہ اسے اجتماعی رنج و راحت کا وسیع تر شعور ہے۔ اس کی ہمدردیاں عالم اسلام سے نمایاں ہیں..... ریاض بھی دیدۂ بینائے قوم ہیں۔ اس کا دل بھی مسلمانان عالم کے دل کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ اس کی شاعری اسلام دوستی، حریت پسندی، استعمار دشمنی، اور استبداد شکنی کی فضا میں سانس لیتی ہے۔ وہ شدید حبِ وطن کے جذبے سے بے حد سرشار ہے.....اس نظم (استغاثہ، جواب استغاثہ) میں اس نے اپنے دل کا سارا دردصفحہ قرطاس پر بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ اس کے مصرعے مصرعے میں حضور سرور کائناتؐ کی محبت، مشاہیر اسلام سے والہانہ عقیدت، اور وطن سے کمال شیفتگی ٹپک رہی ہے۔ اور لطف یہ ہے کہ ہمارے نوجوان شاعر نے مقصدیت اور افادیت کے جوش کے باوجود شعریت کا دامن کہیں نہیں چھوڑا، نظم میں تمام شاعرانہ محاسن موجود ہیں۔ روانی، سلاست، برجستگی اور الفاظ کا دروبست حضرت علامہ اقبال کے شکوے کی یاد تازہ کرتا ہے۔ قارئین کرام اس نظم میں شکوے کا سا موڈ پائیں گے اگرچہ یہ کہنا جسارت ہوگی کہ یہ نظم اس کے ہم پلہ ہے۔‘‘

ریاض حسین چودھریؒ تک علامہ اقبال کی فکر، اور حرف و بیان کی تاثیر کیسے پہنچی، اس معاملے کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ آپ کی پرانی فائلز میں سے ایک تحریر ملی جو انہوں نے اپنے استادِ مکرم جناب آسی ضیائی رامپوری کی وفات پر لکھی تھی۔ اس میں وہ لکھتے ہیں :

’’مرحوم سے میرے مراسم کا آغاز 1958ء میں ہوا جب میٹرک کے بعد میں نے مرے کالج میں داخلہ لیا۔ بی اے میں آیا تو آپ اردو کے لیکچرر تھے اور میں کالج میگزین کے اردو سیکشن کا ایڈیٹر تھا۔‘‘

اسی تحریر میں وہ جناب آسی ضیائی سے اپنے نصف صدی پر پھیلے ہوئے تعلق تلامذہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ہم آسی صاحب سے طلسم ہوش ربا سبقاً سبقاً پڑھا کرتے تھے۔ مرحوم ہمیں زبان و ادب کی باریکیوں اور لطافتوں سے آگاہ کرتے جاتے۔ آسی صاحب سے شعری تلمذ کے جس سلسلے کا آغاز زمانہ طالب علمی سے ہوا تھا وہ آخر دم تک جاری رہا۔‘‘

میں نے ریاض کی فنی اور ادبی نمو پذیری، ذہنی تعمیر و ارتقا اور نعت شناسی کے ابتدائی خد و خال کی پڑتال کے لئے چودھری صاحبؒ کے اہل خانہ، بچوں اور خصوصاً بھائیوں کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کیں اور اس سوال کا جواب ڈھونڈتا رہا کہ آخر وہ کیا عوامل تھے اور وہ کون لوگ تھے جن کے پاس دوسرے کے دل و دماغ میں سرایت کر جانے والا شعری ذوق تھا جس نے ابتدا ہی میںریاض کے صاف اور شفاف ذہن پر وہ نقوش مرتب کئے جو مثبت طریقے سے پختہ تر ہوتے گئے اور نشوونما پاتے گئے حتیٰ کہ خالق نے وہ سارے اسباب مہیا فرما دئیے جو انہیں جدید نعت نگاری کا منصب عطا کرتے۔

ریاض 1958ء میں جناب آسی ضیائی کے تلمذ میں آئے اور پچاس برس تک یہ ادبی اور فنی تربیت کا سلسلہ جاری رہا۔ اس میں مرے کالج کے میگزین کی ادارت ایک اہم مرحلہ ٔ تربیت تھا۔ یقیناً یہ وہ زمانہ تھا جب اقبال منہاس بھی مرے کالج ہی میں تھے۔ ریاض صاحب کے بھائی جناب ارشد چودھری صاحب اور جناب امجد چودھری صاحب کے ساتھ کئی بار گفتگو ہوئی اور انہوں نے بتایا کہ اقبال منہاس ان کے بہت قریبی دوست تھے اور ادبی سرگرمیوں میں عموماً اکٹھے ہوتے تھے۔ اس دوران میں ادبی ذوق رکھنے والی ایک اور مؤثر شخصیت ان کے ساتھ رہی۔ یہ ان کے ماموں جناب صدیق اختر چودھری تھے جو خود شعر کہتے اور شعر لکھنے کی ترغیب دیتے۔ ریاض کی تخلیقی صلاحیت کی نشوونما میں انہوں نے اپنا کردار ادا کیا مگر جلد ہی 31 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔

ادب و عقیدت کا ماحول

امجد چودھری صاحب نے یہ بھی بتایاکہ جب وہ جلسے کا اہتمام کرتے تو بڑی بڑی شخصیات مدعو ہوتیں۔ پورے پاکستان بلکہ انڈیا سے علما کرام آتے اور سید ابولبرکات اور مفتی محمد حسین نعیمی جیسے اعلیٰ مرتبت لوگ تشریف لاتے۔ جب جلسہ کی تیاری ہونے لگتی تو مہینہ پہلے سے ہی بڑا جوش و خروش ہوتا۔ اسی طرح جب عرس کے ایام ہوتے تو بھی ہم والہانہ شرکت کرتے اور علی پور شریف جانے کے لئے نارووال کا رستہ ہی ہمیں بہت خوبصورت لگتا۔ چودھری صاحب کو والد صاحب کی اور امیر ملت کے گھرانے کی بے حد قربت ملی۔ جب امیر ملت تشریف لاتے تو والد صاحب سب کام کاج چھوڑ ان کی خدمت میں حاضر رہتے۔

شعری ذوق

یہاں سن 1958ء کا ذکر اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ ریاض نے مرے کالج میں داخلہ لیا توآسی ضیائی صاحب سے بھی ادبی تعلق قائم ہو گیا۔ چودھری صاحب کے گھر سے ایک ریکارڈ ان نظموں اور نغمات کا بھی ملا جو وہ بچوں کے لئے لکھا کرتے اور بچوں کے میگزینوں میں شائع ہوتے۔ ریکارڈ کے مطابق یہ کام وہ تین سال سے زیادہ عرصہ لگاتار کرتے رہے۔ نومبر 1958ء میں کراچی کے ماہنامہ کلیم میں ان کی نظم ’’بڑھا چل، بڑھا چل‘‘ شائع ہوئی۔ فروری 1959ء میں ہفت روزہ لیل و نہار میں ان کی نظم ’’لڑائی ‘‘ شائع ہوئی۔ ریکارڈ میں ایک طویل لسٹ موجود ہے جس کے مطابق ماہنامہ تعلیم و تربیت، کھلونا، ہفت روزہ لیل و نہار، قندیل، حیدرآباد سے چھپنے والے روزنامہ آفتاب اور کراچی اور راولپندی کے روزنامہ جنگ میں ان کی نظمیں اور ملی نغمے دسمبر1961 تک چھپتے رہے۔ ریکارڈ میں ان تمام نظموں اور نغمات کے مسودات بھی موجود ہیں جنہیں بچوں کے لئے آج بھی الگ سے کتابی شکل میں شائع کیا جا سکتا ہے۔ یہ پیریئڈ ان کے انٹرمیڈیٹ اور بی اے کے تعلیمی سال ہیں۔ ارشد چودھری صاحب اور امجد چودھری صاحب کے مطابق ریاض صاحب پرائمری ایجوکیشن کے دوران ہی بچوں کے یہ رسائل اور جرائد گھر میں منگوایا کرتے اور پڑھا کرتے اور بعد میں ان میں لکھنے لگ گئے۔

جناب امجد چودھری صاحب نے اس سے بھی پہلے کے شعری، ادبی اور روحانی اثرات کے ذوق پرور تعلق کا انکشاف کیا اور یہ تعلق ریاض صاحب کے دادا جان چودھری عطا محمدؒ کا وہ قریبی قلبی تعلق تھا جو انہیں علامہ اقبالؒ کے والد بزرگوار جناب نور محمد صاحبؒ کے ساتھ میسر آیا۔

’’دونوں درویش اور انتہائی متقی شخصیات ایک دوسرے کے لئے یک جان و دو قالب تھے۔ دونوں بھائی بنے ہوئے تھے۔ قریبی پڑوسی تھے اور روزانہ ملاقات میں بچوں کے حوالے سے خصوصی بات چیت ہوتی۔ جناب نور محمدؒ کہتے کہ ’’ عطا محمد! اقبال لاہور سے آتا ہے تو اشعار بڑے سناتا ہے۔ بہت شاعری کرتا ہے۔ اور پھر کچھ اشعار وہ سنا بھی دیتے۔ ان کے علاوہ علامہ اقبال کے بھانجے ادبی ذہن رکھتے تھے۔ نانا جی کے پاس آ کر بیٹھ جاتے اور اشعار سناتے۔ عالم اسلام کے حوالے سے بات ہوتی اور پھر محفل جم جاتی۔ یہ محفلیں ریاض بھائی کے لئے بہت پر اثر ثابت ہوئیں۔ وہ چھوٹے تھے، سنتے رہتے اور امت مسلمہ سے محبت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور وطن سے محبت جیسے مضامین دھیرے دھیرے ان کی روح میں اترتے گئے۔ وہ جو کچھ سنتے اسے اپنے دل میں اتار لیتے۔ یہ اثرات ان کی روح میں کچھ الگ ہی نقش و نگار بناتے جن کا ہمیں علم اس وقت ہوا جب وہ سب کچھ ان کی شخصیت کا حصہ بن چکا تھا۔ علامہ اقبال کے ساتھ عقیدت تو تھی ہی۔ ’’خون رگ جاں‘‘ کی منظومات خصوصاً نظم ’’دیدۂ بیدار‘‘ اور’’ استغاثہ اور جواب استغاثہ ‘‘ نظمیںانہوں نے اقبال کے رنگ میں ڈوب کر لکھیں۔ ایسی شاعری کی بنیاد بہت پہلے ان کی روحانی استعداد میں رکھ دی گئی تھی۔‘‘

عملی زندگی کا آغاز اور ہفت روزہ ’ادراک‘ کی ادارت

اب ہم دیکھتے ہیں کہ ریاض حسین چودھری ایل ایل بی کر لیتے ہیں اور چودھری حمید سنز کے کاروباری سیٹ اپ میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ ایکسپورٹ کا کاروبار تھا۔ سب سے بڑے ہونے کے ناطے کاروبار سنبھالا اور اپنے والد بزرگوار کے دست و بازو بن گئے۔ مگر یہ ایک ایسا مرحلہ تھا جہاں انہوں نے با دل نخواستہ قانون کی تعلیم تو حاصل کر لی اب بطور اپرنٹس انہیں پریکٹس بھی کرنا تھی۔ اس ضمن میں چودھری امجد صاحب اور چودھری ارشد صاحب کے انکشافات چشم کشا ہیں کیونکہ اس راستے پر چلتے ہوئے بھی قدرت نے ان کے لئے شعر و سخن اور اردو ادب کی تعلیم کے راستے کھول دئیے۔ فرماتے ہیں :

’’جلیل جاوید ایڈووکیٹ ایک اور شخصیت تھے جن کے ساتھ ریاض صاحب کا ایک تعلق ایسا تھا جس سے ان کی شخصیت پر گہرے اورمثبت اثرات مرتب ہوئے۔ وہ ہمارے نانا جان کے چچا زاد تھے۔ ہمارے نانا کی والدہ ہمارے دادا کی بہن تھیں۔ اس طرح جلیل جاوید صاحب کے ساتھ ہمارے گھریلو تعلقات تھے۔ ان کے بڑے بھائی چودھری حفیظ صاحب بھی بہت سینیئر وکیل تھے۔ ریاض بھائی جان اردو ماسٹر اور اس کے بعد پی ایچ ڈی کرنے کے خواہشمند تھے اور ایل ایل بی ڈگری پر خوش نہیں تھے۔ مگر لاء کرنے کے بعد انہوں نے جلیل جاوید صاحب کے ساتھ پریکٹس شروع کر دی۔ جبکہ ساتھ ایکسپورٹ کے کام میں بھی مشغول تھے اور میں (امجد صاحب) ساتھ تھا۔ ریاض صاحب اور جلیل صاحب نے ایم اے اردو اکٹھے کیا۔ جلیل جاوید صاحب اسی زمانے میں ہفت روزہ ’’ادراک‘‘ بھی شروع کر چکے تھے جس کی ادارت دونوں مل کر کررہے تھے۔ یہ ہفت روزہ اچھا چلنے لگا اور جلد ہی ایک مؤقر جریدے کی حیثیت اختیار کر گیا۔ اس طرح ریاض بھائی کے لئے قانون کی پریکٹس کے بہانے اپنے ادبی ذوق کی نشوونما اور تسکین کا ایک تخلیقی موقع ہاتھ آیا اورادبی سنگت کی وجہ سے ذوق کو مہمیز ملتی رہی۔‘‘

ریاض حسین چودھریؒ کا یہ ایک ساتھ انتہائی اہم قانونی پریکٹس، چودھری سنز کا ایکسپورٹ بزنس اور جلیل جاوید ایڈووکیٹ صاحب کے ہفت روزہ ’’ادراک‘‘ والا ادبی تخلیقی دور کامیابی سے جاری رہا تھا اور اس دوران مدحت نگاری کا وہ قابل رشک تجربہ بھی کرتے چلے آ رہے تھے جس کے بارے میں جناب حفیظ تائبؒ ’’زر معتبر‘‘ کی پیشوائی میں لکھتے ہیں :

’’زرِ معتبر‘‘ ریاضؔ حسین چودھری کی دس برس پہلے تک کی نعتوں کا مجموعہ ہے اور اس میں شاعر نے اس دور زندگی کی نمائندگی کرنے کی کوشش کی ہے جب وہ ابھی دربارِ مصطفویؐ میں حاضری سے مشرف نہیں ہوا تھا۔‘‘

’’زرِ معتبر‘‘ ان کا پہلا شعری مجموعہ 1995ء میں شائع ہوا اور ریاضؒ کو بارگاہ سید عالمؐ میں حاضری کی سعادت 1985ء میں حاصل ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ’’زرِ معتبر‘‘ کی شاعری 1985ء سے پہلے تک کا کلام ہے۔

آپ نے ’’خون رگ جاں‘‘ 60ء کی دہائی کے اواخر میں تخلیق کی جو ستمبر 1971ء میں شائع ہو گئی۔ ان کی ملی نظموں کا مجموعہ ’’اَرضِ دعا‘‘ آج تک شائع نہیں ہوا۔ میں نے عزیزم حسنین مدثر صاحب سے نومبر 2020ء کی حالیہ ملاقات میں چودھری صاحب کی ملّی نظموں کے مسودے کے لئے استفسار کیا مگر انہوں نے بھی یہی کہا کہ ایسا کوئی مسودہ نظر سے نہیں گذرا۔ پھر میں نے جناب ارشد طہرانی صاحب سے ان نظموں کے مسودے کا تقاضا کیا جو انہوں نے ’’ریاض کی ملی شاعری‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے اپنے مضمون میں شامل کیا ہوا تھا۔ عجیب بات ہے کہ انہیں اس بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ انہوں نے بس اتنا بتایا کہ ریاض صاحب نے انہیں ان نظموں کے یہ ٹکڑے زبانی سنائے تھے جو انہوں نے اپنے پاس نوٹ کر لئے۔ پھر آخر ایک فولڈرایسا مل گیا جس کے باہر کتاب کا نام ’’ارضِ دعا‘‘ لکھا ہوا تھا اور اس کے اندر ان کی ملی نظموں کے سارے کلام کا قلمی نسخہ صحیح سالم پڑا تھا۔ اس میں سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے ان کا جگر پاش کلام بھی موجود تھا۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ یہ سارا کلام سقوط ڈھاکہ کے بعد کا ہے اور اس وجہ سے اسے ’’خون رگِ جاں‘‘ میں شامل نہ کیا جا سکا۔

ادبی سرگرمیاں اور ’زرِ معتبر‘ کی تکمیل

ریاض غزل کے شاعر بھی تھے اور رائٹرز گلڈ کے پروگراموں میں موجود ہوتے۔ ان کی غزلیات کے مجموعے ابھی تک غیر مطبوعہ پڑے ہیں۔ حلقۂ احباب ذوق سیالکوٹ کی ابتدا 1974 میں ہوئی۔ جناب حفیظ صدیقی اس کے پہلے سیکرٹری اور اکرام سانبھوی جائینٹ سیکرٹری مقرر ہوئے۔ اس ضمن میں ریاض صاحب کے دست راست جناب طارق اسماعیل اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیںجو چودھری صاحب کی پرانی فائلز میں سے ملی :

’’مجھے ریاض حسین چودھری کی قربت شعرگوئی کے حوالے سے ملی۔ میرا شوقِ شعر گوئی مجھے اُن کے قریب لے گیا۔ ریاض صاحب کی شفاف بے لوث گھل مل جانے والی طبیعت کی وجہ سے ہم جلد ہی بلا تکلف دوست ہو گئے۔ یہ 1972ئ-1973ء کا زمانہ تھا۔ اُس وقت اُن کے حلقہ احباب میں نامور شاعر تاب اسلم، آثم میرزا، رفیق ارشد، رشید آفرین، پروفیسر اکرام سانبھوی، عین ادیب، اسلم ملک، اسلم عارف وغیرہ شامل تھے۔ اُن کا دفتر میرے گھر کے قریب ہونے کی وجہ سے میں جب چاہتا اُن سے مِل لیتا۔ سموسوں اور چٹنی کے بعد سٹرانگ چائے کا دور اُن کی میزبانی کا خاص انداز تھا۔ ایک دفعہ ریاض صاحب نے بتایا کہ سیالکوٹ میں حلقہ اربابِ ذوق کا اجراء ہو رہا ہے۔ پھر لاہور سے شہزاد احمد، عصمت طاہرہ، حفیظ صدیقی آئے اورحفیظ صدیقی سیکرٹری، اکرام سانبھوی جائینٹ سیکرٹری منتخب ہوئے۔ حلقہ کسی وجہ سے فعال نہ ہو سکا۔ پھر دو سال بعد 1976ء میں تشکیل نو ہوئی۔ اُس میں ریاض صاحب سیکرٹری اور میں (طارق اسماعیل) جائینٹ سیکرٹری منتخب ہوئے۔ حلقہ پھرریاض صاحب کی سرپرستی میں 1980ء تک تقریباً پانچ سال فعال رہا۔ اِسی دوران تمام دوستوں نے محسوس کر لیا تھا کہ ریاض صاحب کے اندر ایک سچے عاشقِ رسول کی کہکشاں روشن ہے۔ پھر ریاض صاحب کا نعتیہ کلام شائع ہونے لگا اور حلقہ بھی ان کی سرپرستی میں فعال رہا۔‘‘

ان تحریروں سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ ریاض 60ء کی دہائی کے اواخر سے جہانِ نعت میں حضوری کی جانب رواں دواں تھے اور 70ء اور 80ء کی دہائیاں زرِ معتبر سے مالا مال تھیں۔ اس طرح چودھری عبدالحمید کے گھر تشریف لانے والے جناب ریاض حسین تعلیم و تربیت، ادبی ذوق کی نشوونما اور نعت گوئی کی جبلت کے نمودوارتقا کے قدرتی انتظامات کے تحت جدید نعت نگاری کی پیشوائی تک پہنچے۔

یہاں ضروری ہے کہ اس سلسلے میں خود ریاض صاحب کا اپنا بیان بھی دیکھ لیا جائے۔ ’’زر معتبر‘‘ کی پیشوائی میں جناب حفیظ تائب لکھتے ہیں :

’’مجلہ ’’اوج‘‘ کے نعت نمبر میں (اوج کا یہ شمارہ 1992ء-1993ء میں شائع ہوا) ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی کے سوال : آپ نعت گوئی کی طرف کیسے مائل ہوئے ؟بنیادی محرکات کیا تھے…؟ کے جواب میں ریاضؔ حسین چودھری نے لکھا ہے : ’’یوں لگتا ہے، جیسے ازل سے میری رُوح حصارِ عشقِ محمد ﷺ میں پناہ گزیں ہے۔ ازل سے اُنہی قدوم مبارک میں جبینِ نیاز سر بسجود ہے، شعور کی آنکھ کھولی تو گھر میں اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کے ذکرِ اَطہر سے فضا کو معمور پایا۔ میں شعوری طور پر نعت کی طرف نہیں آیا، اس لیے بنیادی محرکات کی توجیہ کرنے سے قاصر ہوں۔‘‘

روزِ الست آنکھ جو کھولی شعور نے
قدرت نے ایک نور سا ہاتھوں میں رکھ دیا

میں نے بڑے خلوص سے چوما اسے ریاضؔ
اور پھر قلم حضورؐ کے قدموں میں رکھ دیا

اَحقر ان کے لئے صبح و مسا دعا گو ہے کہ رب کریم اپنے پیارے محبوب ﷺ کے صدقے انہیں قرب خاص کی جنت میں اس مقام سے نوازے جہاں سید عالم ان کے لئے خصوصی کرم کا سائبان فراہم کریں اور روز محشر انہیں اپنی اس التجا کی تعبیر مل جائے :

یہ آرزو ہے سرِ حشر آپؐ فرمائیں
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ ہمارے شاعر کو

چراغِ عشق سجا کر ہتھیلیوں پہ ریاض
کسی کو نعت ہماری سنا رہا ہو گا