سفرِ نور- نعت کے تخلیقی زاویے

ضیاء نیّر کا مجموعہ نعت

پیش کلام

نعت عشقِ رسولؐ اور اتباعِ نبیؐ کے تخلیقی اظہار کا نام ہے کیونکہ ذاتِ مصطفیؐ ہی خالقِ حقیقی تک رسائی کا واحد وسیلہ جلیلہ ہے۔ اس لیے بالواسطہ طور پر نعت بھی خدائے بزرگ و برتر کی حمدو ثناء کے ہزار پہلو لیے ہوئے ہے۔ اس لیے کہ یہ اس قادرِ مطلق کی تخلیقِ اول کی توصیف وثنا ہے جس کے لیے ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ اے محبوبؐ اگر تجھے پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو نہ یہ چاند ہوتا نہ یہ ستارے نہ سورج نہ زمین نہ آسمان نہ فرشتے، اے محبوب تمہی تو سب غائتوں کی غائت اولیٰ ہو اور ہم غلامانِ رسولؐ ہاشمی جس دنیا میں بس رہے ہیں وہ دنیا بھی تاجدارِ کائنات کی عطا ہے، سچی بات تویہ ہے کہ ہمارا تو ہر حوالہ حضورؐ سے شروع ہوکر حضورؐ پر ختم ہوجاتا ہے۔ اللہ تک رسائی بھی واسطۂ رسالت سے ہی ممکن ہے۔ حضور نے فرمایا کہ اس وقت تک تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا جب تک میں تمہیں تمہاری جان، مال، اولاد غرض ہر شے سے عزیز تر نہ ہوجائوں، گویا معیارِ ایمان ہی حضورؐ کی ذاتِ اقدس ہے۔ ایوان نعت میں سب سے پہلی شمعِ محبت فروزاں کرنے والا بھی وہی خدائے لاشریک ہے جو حیی بھی ہے اور قیوم بھی، جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ نعت اسلامی ثقافت، تہذیب اور تمدن کا ایک دلآویز مظہر بھی ہے کیونکہ اسلامی ثقافت، تہذیب اور تمدن کا مرکز و محور ہی ذاتِ مصطفیؐ ہے جن کے سر اقدس پر خود خالقِ کائنات نے محبوبیت کا تاج سجا کر ان کے ذکر کو ان کی خاطر بلند کرنے کا اعلان آخری الہامی صحیفے قرآن مجید میں کیا ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید بھی تو ایک نعت مسلسل ہی ہے۔ ہر طرف اپنے محبوبؐ کے تذکرے، ہر طرف محاسنِ مصطفیؐ کی قندیلیں فروزاں ہیں۔ ہر سمت محامدِ محبوبؐ کے چراغ جل رہے ہیں۔

نعت دراصل حکم ربی کی تعمیل ہے کیونکہ نعت کی اساس بھی درودِ پاک پر رکھی گئی ہے۔ نعت درودِ پاک کا شعری پیکر ہے۔ عروسِ سخن کی ساری رعنائیاں حضور کی نعت کا خام مواد بنتی ہیں۔ یقیناً یہ ایک حقیقت ہے اور محض جذباتی یا شاعرانہ سوچ نہیں کہ روئے زمین پر آج تک کوئی ایسی ساعت نہیں اتری جس کے ہاتھوں میں خوشبوئے اسم محمدؐ کا پرچم نہ ہو۔ سفر ثناء بھی ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ جب کائنات میں اللہ کے سوا کوئی نہ تھا تو سب سے پہلے نورِ محمدی تخلیق ہوا۔ کائنات کی وسعتیں اُس وقت درود و سلام کی صدائوں میں گونج رہی تھیں اور کائنات کی وسعتوں میں درود وسلام کی صدا اس وقت بھی پرچمِ نعت اٹھائے ہوئے ہوگی جب کائنات میں موت کو بھی موت آچکی ہوگی اور وہی ذات باقی ہوگی جسے دوام حاصل ہے جو ابتدائوں کی ابتدا اور انتہائوں کی انتہا ہے۔

اردو نعت عربی اور فارسی روایات شعری سے اکتساب شعور کرکے جس توانا شعری وژن کی امین قرار پائی ہے وہ پوری اردو شاعری کی آبرو ہے، بیسویں صدی کے آخری دو دہائیوں میں جن شعراء نے نعت نگاری کا اعزاز حاصل کیا ہے اور عبدالعزیز خالد، حفیظ تائب، احمد ندیم قاسمی، احسان دانش، صوفی محمد افضل فقیر، حافظ لودھیانوی، حافظ مظہرالدین، محشر رسول نگری، قمر یزدانی، جسٹس محمد الیاس، مظفر وارثی، نعیم صدیقی، عابد نظامی، محسن احسان، راسخ عرفانی، عاصی کرنالی، اقبال عظیم، محمد علی ظہوری، حنیف اسعدی، طفیل ہوشیارپوری، اعصم گیلانی، محشر بدایونی کے بعد جن شعراء نے ذکر حضورؐ سے پلکوں پر چراغاں کا اہتمام کیا ہے ان میں لالہ صحرائی، خالد احمد، راجا رشید محمود، منیر قصوری، ریاض مجید، جعفر بلوچ، تحسین فراقی، حفیظ الرحمن احسن،انجم رومانی، بشیر حسین ناظم، حسرت حسین حسرت، سعید بدر، اختر الحامدی، رفیع الدین زکی، حفیظ صدیقی، حسن رضوی، حنیف نازش،صبیح رحمانی اور ضیاء نیّر کا کشکول آرزو جذبوں سے لبریز ہے اور یہ کشکول لیے وہ دہلیز مصطفیؐ پر کھڑے ہیں، چشم تصور طواف گنبد خضراء میں مصروف رہتی ہے اور پلکیں ہر لمحہ درِ حضورؐ پر بہرِ سلامی جھکتی رہتی ہیں۔ یہ اعزاز کیا کم اعزاز ہے کہ وہ علمی اور ادبی حلقوں میں ایک نعت نگار کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے کے بعد کسی دوسرے حوالے کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔

ضیاء نیّر نے حضورؐ کی شریعت کو ضامن عدل و مساوات کہہ کر اسلام کی ان آفاقی تعلیمات کی طرف اشارہ کیا ہے جنہیں اپنائے بغیر امنِ عالم کا تصور بھی ممکن نہیں۔ آج دنیا، امن، سکون اور عافیت کی تلاش میں ہے جنگ کا خوف اس کے اعصاب پر سوار ہے۔ ضیاء نیّر اس حصارِ خوف سے نکلنے کا جو حل تجویز کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ رہنمایانِ عالم کی جھوٹی قیادتوں کا بھرم ٹوٹ چکا ہے۔ آج ایک بار پھر ابنِ آدم کو حضورؐ کی قیادت درکار ہے کیونکہ گنبدِ خضراء ہی کائنات کا وہ مرکز و محور ہے جس کے توسط سے کالی گھٹائوں کو تشنہ اور بنجر زمینوں کی طرف حکمِ سفر ملتا ہے۔ دہلیز مصطفیؐ کو تھام کر خدا سے جو مانگا جائے وہ ضرور ملتا ہے اور حکمِ خداوندی بھی یہی ہے جب تم اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھو تو میرے محبوبؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوجائو۔ ضیاء نیّر حضورؐ کی محبت کو ایمان کی اساس قرار دیتے ہیں۔ شاعر کو احساس ہے کہ حضورؐ کے شمائل، فضائل اور خصائل سے اکتسابِ شعور کئے بغیر نعت کی فضا کا وہ تقدس برقرار ہی نہیں رہ سکتا جس تقدس کے بغیر نعت لکھنے کی جسارت کرنا ایک ادبی بدعت قرار پاتا ہے۔

ضیاء نیّر کا دامنِ شعر و ادب رنگ برنگے پھولوں سے مہک رہا ہے۔ شاعر نے شعری جمالیات سے پوراپورا انصاف کرنے کی سعی کی ہے، فنی لوازم کا ہر مرحلہ پر خاص خیال رکھا ہے۔ ان کے ہاں سلاست بھی ہے، روانی بھی اور سادگی بھی، شعوری طور پر بھاری بھر کم الفاظ کو شعر کا جامہ پہناکر نہ خود دھوکے میں رہتے ہیں اور نہ قاری کو کسی دھوکے میں رکھتے ہیں۔ سیدھی سادھی بات سیدھے سادے انداز میں کہتے ہیں۔ یقینا یہی فنی سچائی کا پہلا زینہ ہے۔ وارداتِ قلبی بیان کرتے ہیں تو کہیں بھی تصنع یا بناوٹ کا احساس نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے یہ جو کہتے ہیں وہ براہ راست ان کے قاری کے دل میں اتر جاتا ہے۔ انہوں نے مترنم بحور کا انتخاب کیا ہے۔ الفاظ کے چنائو میں بڑی احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ عصری کرب اور عصری شعور کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں لیکن شاعر جلوۂ محبوبؐ میں کچھ اس طرح گم ہے کہ خارجی آوازوں پر توجہ دینے اور پھر ان آوازوں کا رد عمل ظاہر کرنے کی اس کے پاس فرصت ہی نہیں اور وہ حیرتوں کے سمندر میں گم چشم تصور میں گنبدِ خضرا کا عکس جمیل سجائے بیٹھا ہے۔ شہرِ پیغمبرؐ سے گہری وابستگی جب عقیدت کے دروازوں پر دستک دیتی ہے تو شاعر کی کائناتِ شعر وجد میں آجاتی ہے۔

میری جھولی میں نہیں کچھ بھی خطاؤں کے سوا
اس لیے آپؐ سے دامان کرم مانگا ہے

قرآن بیاضِ نعتِ خدا ہے تو سر بہ سر
منشائے کردگار کا اظہار آپؐ ہیں

صدیوں رہے ہیں آپؐ کی آمد کے تذکرے
سب انبیاء بھی دیتے رہے آپؐ کی خبر

حضورؐ انقلابِ رحمت کے بانی ہیں۔ انہیں کل جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا گیا۔ امن، سکون اور عافیت کی تلاش میں بھٹکا ہوا انسان جو ہر انسانی در سے مایوس ہوچکا ہے اس کی نظریں رہ رہ کر صحرائے زیست میں سوئے مدینہ اٹھتی ہیں اور وہ اسی در سے امن کی بھیک کا طالب ہوتا ہے۔ اپنے لیے اور اپنی نسلوں کے لیے ردائے عافیت کا امیدوار ہے۔

دے کر بشر کو نسخۂ آئینِ زندگی
بانی ہوا جہاں میں وہ ہر انقلاب کا

یاد کرتا ہوں حرا کو تو یہ آتا ہے خیال
اک نئے دور کی تمہید تھی خلوت تیریؐ

چھٹ جائے، ظلم و جبر کی، سر سے شب سیاہ
نافذ ہو قریہ قریہ شریعت حضورؐ کی

تنہا ہے وہی دنیا و عقبیٰ کا سہارا
وہ ذات کہ سرمایۂ اربابِ یقیں ہے

دل کا اجڑا نگر شہرِ پیمبرؐ میں آباد کرنے کی آرزو ہر ورق پر دامنِ دل کو کھینچتی ہے اور دل کے کھنڈر میں ہوائے شہرِ خنک کے معطر و معنبر جھونکے چلنے لگتے ہیں، کشتِ آرزو میں بادِ بہاری چلتی ہے تو زباں پر صلِ علیٰ کے پھول کھلنے لگتے ہیں۔

ضیاء نیّر کی نعتیہ شاعری میں تخیل کی بلند پروازی بھی ہے۔ اظہار کی پختگی بھی اور ایک ایسی وجدانی کیفیت بھی جو ہر وقت روح کو سرشار رکھتی ہے۔ شاد رکھتی ہے، آباد رکھتی ہے۔ ان کی نعت کا پس منظر و پیش منظر وجدانی کیفیتوں اور روحانی لذتوں کے گہرے مگر شاداب رنگوں اور نیلے پانیوں سے ترتیب پاتا رہے۔ پیرایۂ اظہار دلکش اور دلنشیں ہے۔ آدابِ نعت گوئی کو ہر لحظہ ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں۔ ایمائیت، رمزیت، ایجاز و اختصار ان کی نعت کے وہ اوصاف ہیں جو قدرت نے انہیں وافر مقدار میں عطا کیے ہیں۔

داغِ عریانی، نیّر کو بھی ڈھانپے اے کاش
عرصۂ حشر میں وہ چادر رحمت تیری

نیّر اس آرزو میں گوارا ہے موت بھی
ہوگی ہمیں نصیب شفاعت حضورؐ کی

فکرِ انساں کو جلا ملتی ہے جیسے جیسے
کھلتی ہے دیدۂ عالم پہ حقیقت تیری

کرکے عطا قرینۂ نعتِ شہِ امم
نیّر کو بھی خدا نے سخنور بنا لیا

ٹوٹے ہوئے لفظوں کے سوا کچھ نہیں رکھتا
کیا مدحِ پیمبرؐ کو زباں کھولے گا نیّر

ضیاء نیّر کا پہلا نعتیہ مجموعہ ’’سفرِ نور‘‘ اس لحاظ سے بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں شامل نعتیں تمام کی تمام غزل کی ہئیت میں ہیں۔ غزل ایک مقبول ترین صنفِ سخن ہے۔ شعرا کی اکثریت نے نعت غزل کی ہیٔت میں کہی ہے۔ ضیاء نیّر کے جوہر بھی اس فارم میں کھل کر سامنے آئے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے نعت کے لیے نظم کے پیرایہ کو بھی اظہار کا وسیلہ بنایا ہے لیکن ان کی کامیاب نعتیں غزل کے فطری رچائو کی آئینہ دار ہیں۔ یہ انتخاب ایک منفرد انتخاب ہے۔ جس میں جذبوں کی آنچ پر سلگتی ہوئی آرزوئوں کے رتجگوں کا جمالیاتی منظر دیدنی ہے۔ اللہ کرے ضیاء نیّر بساط شعر و ادب پر یونہی پھول بکھیرتے رہیں۔ یہ اعزاز کیا کم ہے کہ ان کی پہچان نعت ہے۔ نعت جو عشاق کا سرمایۂ حیات ہے۔ نعت جو اہلِ دل کا توشۂ آخرت ہے اور جو شہرِ سخن کا سب سے معتبر حوالہ بھی ہے۔