’’نغماتِ عشق‘‘ کا موسمِ دلکش- نعت کے تخلیقی زاویے

ایک حسین انتخابِ نعت

(رشید احمد طاہری اہل اخلاص و محبت میں سے ہیں۔ امریکی ریاست ورجینیا میںدو دہائیوں سے مقیم ہیں۔ انہیں کئی اولیائے کرام کے مزارات کے آس پاس رہنے کا اتفاق ہوا ہے جن میں سیدنا عبدالقادر جیلانی g بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ آپ بیت المقدس میں بھی رہے اور وہاں کی روحانی فضاؤں سے کسبِ فیض کیا۔آپ نے والہانہ محبت سے رسول محتشم ﷺ کے مداح نگاروں کا معیاری کلام منتخب کر کے ’’نغماتِ عشق‘‘ کے عنوان سے مرتب کیا اور ریاض حسین چودھریؒ نے اس حسین انتخاب کا دیباچہ تحریر کیا۔)

تخلیق آدم سے بھی پہلے سفرِ نعت کا آغاز ہوچکا تھا، لامکاں کی وسعتوں میں ایک ہی نغمۂ تحسین گونج رہا تھا، فضائے بسیط اسم محمدؐ کی ضیا پاشیوں سے منور تھی اور قصرِ محبت کے دریچے نبیٔ آخرالزماںؐ کی تجلیات سے معمور تھے۔ قیامِ حشر کے بعد جنت کی دلکش وادیاں بھی مدحتِ مصطفی کی خوشبوئوں سے معطر ہوں گی کہ بابِ عشقِ محمدؐ میں حرفِ زوال لکھا ہی نہیں گیا، اس لیے کہ ایوانِ نعت میں قندیلِ محبت فروزاں کرنے والی ذات خود خدائے عظیم و قدیم کی ہے جو ہمیشہ ہمیشہ سے ہے اور جسے ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنا ہے۔ سیدہ آمنہؓ کے لالؐ سیدنا عبداللہ کے لخت جگر اللہ رب العزت کی تخلیقِ اول ہی نہیں صناعِ ازل کا وہ عظیم اور بے مثال شاہکار بھی ہیں کہ جن کی کوئی مثال نہ ہماری بزمِ خیال میں ہے اور نہ دکانِ آئینہ ساز ہی میں انؐ کی نظیر ملتی ہے۔ وہؐ رسولِ اولؐ بھی ہیں اور رسولِ آخرؐ بھی۔ تاجدارِ کائناتؐ خدائے بزرگ و برتر کے بندے اور رسول ہیں۔ وہ بندے اور رسول جن کے سرِ اقدس پر ختمِ نبوت کا تاج سجایا گیا، جنہیں کل جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا گیا، جن کی قدم بوسی کے لیے یہ جہانِ رنگ و بو تخلیق ہوا، جنہیں شافع محشر اور ساقی کوثر کہا گیا، جنہیں مہمانِ عرش ہونے کا اعزازِ لازوال حاصل ہوا، جنہیں زمین کے سارے خزانوں کی کنجیاں عطا ہوئیں، جن پر خالق کائنات اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں، قیامت کا دن جن کے تصرفات اور اختیارات کے ظہور کا دن ہے، آپ ﷺ کو مقامِ محمود پر فائز کیا جائے گا، سورج سوا نیزے پر آکر آگ برسا رہا ہوگا، نفسا نفسی کا عالم ہوگا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسل، اپنی امتوں کے ہمراہ نبی محتشم ﷺ کے خیمہ عافیت کی تلاش میں نکلیں گے اور حاضرِ خدمت ہوکر عرض کریں گے کہ یارسول اللہ! مالکِ روزِ جزا کی بارگاہ میں دعا فرمایئے کہ جلد میزانِ عدل قائم ہو اور محبوبِ خدا ﷺ ، خدائے وحدہ لاشریک کی بارگاہِ عفو و کرم میں دعا کے لیے اپنے مقدس ہاتھ اٹھادیں گے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں:

’’حضور علیہ السلام کے شمائل، فضائل، خصائل اور خصائص کے جمالیاتی اظہار کا نام نعت ہے، نعت کا اساسی رویہ درود و سلام کے حکم سے ترتیب پاتا ہے۔ نعت امن و عافیت اور محبت کی پیام بر ہے‘‘۔

محامد و محاسنِ سرکارؐ کو حیطۂ تحریر میں لانا بھی نعت، شہرِ خنک کی گلیوں کا دلآویز تصور بھی نعت، فراق و ہجر میں اشکِ مسلسل کا بے ساختہ رقص بھی نعت، قلم کا ورق پر اسمِ محمدؐ لکھنا بھی نعت ہی کے زمرے میں آتا ہے، مواجہ اقدس میں حاضری بھی نعت، یادِ طیبہ میں قلم کا وجد میں آنا بھی نعت، مدینے کی ہوائوں کے دستِ محبت کو چومنے کی آرزو کرنا بھی نعت، تاجدارِ کائناتؐ کے وسیلۂ جلیلہ سے حروف التجا بن کر بارگاہِ خداوندی میںدعا کے لیے ہاتھ اٹھانا بھی نعت، یمن کے بادشاہ تبع کے لشکریوں کا یثرب کے درو دیوار سے والہانہ محبت کا اظہار بھی نعت، چشمِ تصور کا بارگاہِ حضورؐ میں سلام عرض کرنا بھی نعت، گنبدِ خضرا کا عکسِ جمیل دیکھ کر بچوں کے دونوں ہاتھوں کا بہرِ سلامی اٹھنا بھی نعت، پتھروں کا والیٔ کونین کو سلام کرنا بھی نعت، کنکریوںکا نبی مکرمؐ کے دستِ اقدس میں کلمہ پڑھنا بھی نعت، درختوں کا تعظیماً جھک کر آقائے محتشمؐ کے آداب بجا لانا بھی نعت، کفار و مشرکین مکہ کا حضورؐ کو امین اور صادق کا لقب دینا بھی نعت، ابرِ کرم کا سفرِ شام کے دوران ننھے حضورؐ کے سرِ انور پر سایہ کرنا بھی نعت، کبوتر بن کر فضائے گنبدِ خضرا میں اڑنے کی تمنا کرنا بھی نعت، شہرِ حضورؐ کی معطر اور معنبر گلیوں میں کھیلنے والے بچوں کے قدموں سے اٹھنے والی گرد کو سرمہ بنانے کی آرزو کا اظہار بھی نعت، یادِ حضورؐ میں پلکوں پر آنسوئوں کے چراغوں کا جھلملانا بھی نعت، لبوں پر خوشبوئے اسم محمدؐ کی مہکارکا بکھرنا بھی نعت، 12 ربیع الاول کی صبحِ دلنواز کا تصورِ دلنشیں بھی نعت، سفرِ ہجرت میں اُمِ ایمن کے بے ساختہ تحسینی کلمات بھی نعت، چہرۂ اقدس کی تلاوت کا آرزو مند ہونا بھی نعت، خواب میں آقائے محتشمؐ کی زیارت سے مشرف ہونا بھی نعت، مواجۂ اقدس میں ہچکیوں، سسکیوں اور آنسوئوں کی برسات بھی نعت، قدمَین مبارک کی جانب دست بستہ سلام عرض کرنا بھی نعت، اسمِ گرامی سن کر درود پڑھتے ہوئے انگوٹھوں کو چومنا بھی نعت، مدینے کی گلیوں میں تصویر ادب بن کر محوِ ثنا رہنا بھی نعت، آسمانی صحائف میں نبی آخرالزماں کی تشریف آوری کا ذکرِ مقدسہ بھی نعت، تبرکاتِ مقدسہ کی زیارت بھی نعت، آقا علیہ السلام کی جائے ولادت کی بچشمِ نم زیارت بھی نعت، حضورؐ کے بچپن کا ذکرِ جمیل بھی نعت، حلیمہ سعدیہؓ کے مقدر پر رشک کرنا بھی نعت، جشنِ ولادت پر گھر کی منڈیروں پر چراغ جلانا بھی نعت، سنہری جالیوں کو چومنے کی خواہش کرنا بھی نعت، بنو نجار کی خوش بخت بچیوں کا دف بنا کر حضورؐ کی آمد پر استقبالیہ اشعار کا پڑھنا بھی نعت، اصحابِ رسولؐ کا تصویر ادب بن کر تاجدارِ کائنات کی محفلِ پاک میں بیٹھنا بھی نعت، حضورؐ کے نقش پا کو پلکوں پر سجانے کا تصور بھی نعت، معجزاتِ حضورؐ کا بیان بھی نعتؐ، سیرتِ اطہر سے اکتساب شعور کے بعد جذباتِ دلنشیں کو سپردِ قلم کرنا بھی نعت، نعت لکھتے وقت فرطِ عقیدت سے اپنے ہی قلم کو چوم لینا بھی نعت، غارِ حرا کے پتھروں کو سینے سے لگانا بھی نعت اور ’’نغماتِ عشق‘‘ جیسے انتخاب نعت کا ترتیب دینا بھی نعت۔

نعت کیا ہے وصفِ ختم المرسلیںؐ کا تذکرہ
نعت کیا ہے عظمتِ نورِ مبیں کا تذکرہ

نعت کیا ہے نکہتوں کی سر زمیں کا تذکرہ
نعت کیا ہے سب حسینوں سے حسیں کا تذکرہ

دل کے بنجر کھیت میں کرنیں اگا دیتی ہے نعت
نقش باطل کے جبینوں سے مٹا دیتی ہے نعت

’’نغماتِ عشق‘‘ مختلف مدحت نگاروں کی نعتوں کا ایک دلآویز مجموعہ ہے جسے واشنگٹن ڈی سی (امریکہ) میں مقیم رشید احمد طاہری نے مرتب کیا ہے۔ انہوں نے جدید اور قدیم شعرا کے نعتیہ کلام کا بڑی عرق ریزی سے انتخاب کیا ہے۔ اظہارِ عشق کے منفرد اسلوب قاری کے دامنِ دل کو کھینچتے ہیں، یہ انتخاب سفرِ نعت کے مختلف ادوار پر محیط ہے۔ ’’نغماتِ عشق‘‘ میں رشید احمد طاہری نے جدید و قدیم نعت کے تمام رنگ جمع کردیئے ہیں، مقدار اور معیار کے لحاظ سے یہ انتخاب نعت اپنی مثال آپ اور اردو شاعری کی آبرو ہے۔ سفرِ نعت سے آگاہی کے ساتھ دلوں میں عشقِ مصطفی کے چراغ روشن ہوتے ہیں، انہی چراغوں کی روشنی ’’نغماتِ عشق‘‘ کی اشاعت کا جواز بھی ہے۔ یہ دلکش انتخابِ نعت معاملاتِ دل کی امر کہانی اور لمحاتِ حضوری کا شفاف آئینہ ہے۔ دیارِ غیر میں مقیم پاکستانیوں کے دل حُبِّ سرکارؐ سے لبریز ہیں، سینوں میں محبتِ رسولؐ کا چشمہ ابل رہا ہے، سینوں میں روحِ محمدؐ ابھی زندہ ہے، ’’نغماتِ عشق‘‘ اس کی ایک روشن مثال ہے۔ ادھر کچھ لوگ سمندر پار مقیم محبِ وطن اور محبِ اسلام پاکستانیوں پر ’’غیر ملکی‘‘ کا لیبل چسپاں کرکے نجانے اپنے کس احساس کمتری کا اظہار کرتے رہتے ہیں، مَیں حضورؐ کا ایک ادنیٰ سا مدحت نگار رشید احمد طاہری اور دیگر لاکھوں پاکستانیوں کے عشقِ رسول کو سلام پیش کرتا ہوں، خدا اپنے محبوبؐ کے غلاموں کے جذبۂ غلامی کو دوام بخشے۔

منیر نیازی کا ایک شعر ہے:

مَیں جو اک برباد ہوں آباد رکھتا ہے مجھے
دیر تک اسمِ محمدؐ شاد رکھتا ہے مجھے

قلم ازل سے اپنے ہونٹوں پر نغماتِ عشق سجا کر رقصِ مسلسل کے عالم میں ہے، قلم کی خوش نصیبی پر عناصر فطرت کیوں نہ ناز کریں کہ ِاسے ہوائے مدینہ سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہے، کائنات کا ذرہ ذرہ آقائے محتشمؐ کے نقوشِ قدم کی خیرات کا تمنائی ہے، ملائکہ اسی در کی حاضری کے آرزو مند ہیں، خلدِ مدینہ کی معطر، معنبر اور مقدس فضائوں میں آج بھی بنو نجار کی بچیوں کے خیر مقدمی اشعار کی صدائے باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ ارض و سماوات کی لامحدود وسعتیں انہی نغماتِ عشق کی رعنائیوں سے معمور ہیں اور ہم غلاموں کے شب و روز بھی انہی تجلیات سے جگمگا رہے ہیں۔

دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو

(مولانا ظفر علی خان)

بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے چلنے کا وقت ہے، دہر میں عشقِ محمد سے اجالا کرنے کی یہی گھڑی ہے،حضورؐ کی ذاتِ اقدس کو اپنی عقیدتوں کا محور بناکر ہی عظمتِ رفتہ کی بازیابی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے، حضورؐ سے قلبی وابستگی اور رشتۂ غلامی کو از سر نو استوار کرنے کے لیے نعت کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہوگا۔ شعرائے دربار رسالت حسان بن ثابت، عبداللہ بن رواحہ اور کعب بن زہیر رضی اللہ عنہم نے نعت سے دفاعِ رسول کا کام لیا تھا اس لیے کہ دفاعِ رسول ہی دفاعِ اسلام ہے۔ نعت کو عنوانِ زندگی بنائے بغیر کامیابی ممکن نہیں، محبتِ رسول کے بغیر اہداف کا حصول جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کردے

گلوبل ویلج کا تصور مادی حوالوں سے تو شرمندۂ تعبیر ہورہا ہے لیکن اخلاقی اور روحانی حوالے سے انسان قعرِ مذلت میں گرتا جارہا ہے۔ امن کی فاختہ کے پر کاٹے جاچکے ہیں، اولادِ آدم ذہنی خلفشار میں مبتلا ہے، بظاہر یوں لگتا ہے کہ فاصلے سمٹ رہے ہیں۔ نسلِ انسانی یکساں طور پر نت نئی ایجادات سے استفادہ کررہی ہے۔ اس کرہ ارضی پر بسنے والوں کو آسودہ لمحوں سے ہمکنار کرنے کے لیے ان گنت منصوبوں پر عمل ہورہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان فاصلے سمٹ نہیں بڑھ رہے ہیں، نسلی تعصبات کی ہولناکیوں سے ہم اپنا دامن نہیں چھڑا سکے، مذہبی رواداری کی آڑ میں نفرتوں کی دیواریں اٹھائی جارہی ہیں،اسلامو فوبیا کا عفریت تہذیبوں کو ایک دوسرے کے خلاف بر سرِ پیکار کر رہا ہے، ٓزادیٔ اظہار کی آڑ میں قومیتوں کے درمیان منافرت کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے، دنیائے اسلام پر اغیار کا تسلط مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جارہا ہے۔ بے غیرتی، بے حمیتی اور بے حسی کی زنجیر ہمارے گلے کا ہار بن گئی ہے، ہم کرپشن کی دلدل میں ڈوب رہے ہیں، بدعنوانیوں کے جہنم میں جل رہے ہیں، قانون کی حکمرانی کا تصور ناپید ہوچکا ہے، آئین کی پاسداری زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ جمہوریت کو ہم نے بکائو مال بنا رکھا ہے، سلامتی کے دین کی تفہیم اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے، عدل کی بالادستی کا خواب نجانے کس خرابے میں کھوگیا ہے، بازار سیاست میں خوشامد کی ڈگڈگی بج رہی ہے۔ اُس بازار کا سارا گند قصرِ اقتدار کی غلام گردشوں میں بہہ رہا ہے، نہ کوئی ضابطۂ اخلاق ہے اور نہ کوئی ضابطہ حیات ہے۔ جنگل کا قانون ہی سکہ رائج الوقت ٹھہرا ہے، بصارت ہی نہیں ہم بصیرت سے بھی محرو م ہوچکے ہیں، ہمیں اجتماعی خودکشی کے دہانے پر لاکھڑا کیا گیا ہے۔ ہم ہوائے جبر کے رحم و کرم پر ہیں۔ خدا بننے کا جنون اپنے نقطہ عروج کو چھو رہا ہے۔ انسانی معاشرہ حیوانی معاشرے میں تبدیل ہورہا ہے۔

اس منفی صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ صدیوں کا قرض کون اتارے گا؟ ہم مفادات اور تضادات کے گرد و غبار سے کب نکلیں گے؟ ہمیں یہ بات گرہ میں باندھ لینی چاہئے کہ پرچمِ توحید بلند کیے بغیر ہم غبارِ شب کے لشکریوں کو شکست نہیں دے سکتے، محبتِ رسول اور ادب رسولؐ کو عنوانِ حیات بنائے بغیر ہم اسلامیانِ عالم کی تہذیبی اور ثقافتی اکائی کا تحفظ نہیں کرسکتے۔ اور یہ کام شعورِ مدحت رسول ﷺ کے فروغ و ارتقا کے بغیر ممکن نہیں۔رسولِ محتشم ﷺ نے خود فروغِ نعت اور ترویج مدحت کا اہتمام فرمایا اور حسّان بن ثابت g سے نعت سننے کے لئے منبر کا انتظام کیا جس پرآپ کھڑے ہو کر سرورِ دوعالم کے حضور ہدیۂ نعت پیش کرنے کا عظیم اعزاز حاصل کرتے۔ اس طرح صحابہ کرام میں مدح النبی کا وہ شعور بیدار ہوا جس کی آب و تاب سے تاریخ اسلام میں اخلاقِ حسنہ اور کردارِعالیہ کے سورج طلوع ہوئے۔ گویا نعت ملی شعور کے موسم کو قریب تر لانے کا مؤثر ترین ذریعہ ہے اور اس لحاظ سے ’’نغماتِ عشق‘‘ کا یہ گلدستۂ مدحت جسدِ امت میں روح محمدؐ کو زندہ رکھنے کا ایک جادو اثروسیلہ ہے۔

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

’’نغماتِ عشق‘‘ کا مطالعہ ہمارے اس ادراک کو ایقان میں تبدیل کرتا دکھائی دیتا ہے کہ اس گئے گذرے دور میں بھی عشق کی آگ امتِ مسلمہ کے سینوں میں بجھنے نہیں پائی۔ اپنے آقاؐ کے ناموس پر کٹ مرنے کا جذبہ آج بھی ہمارے لہو میں موجزن ہے۔ حضور ختمی مرتبتؐ کے نقشِ کفِ پا پر اپنا سب کچھ نثار کردینا ہماری سب سے بڑی آرزو ہے اور نغماتِ عشق اسی آرزو کا عکسِ جمیل ہے۔ اس پر رشید احمد طاہری یقینا ہماری مبارکباد کے مستحق ہیں۔

پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا

(احمد ندیم قاسمی)

منصبِ رسالت کے تاجدارِ اولیںؐ، منشورِ حیات کے حرفِ آخریںؐ، رعنائیِ خیال کے عکسِ عنبریںؐ، احساسِ جمال کے نقشِ دلنشیںؐ، سدرۃ المنتہٰی کے مہمانِ عالمیںؐ، آسمانِ دانش کے مہرِ یقیںؐ، کوہِ فاراں کے نورِ مبیںؐ، آمنہؓ کی گود کے ماہ جبیںؐ، پیشوائے دینِ متیںؐ، نازشِ فرش و عرشِ بریںؐ، بے مثال و بے نظیر و بہتریںؐ، جنابِ سیدالمرسلیںؐ، حضور رحمت عالمؐ کی توصیف و ثنا کے چراغ خود مالکِ کائنات نے فروزاں کئے تھے تمام الہامی صحیفے حضورؐ کی عظمت کی گواہی دے رہے ہیں اور اسی پیکر جمیل کی آمد کا مژدہ سنا رہے ہیں جو بعد از خدا بزرگ توئی کے منصبِ جلیلہ پر رونق افروز ہیں، جو سردارِ انبیاء ہیں، جو نبیوں اور رسولوں میں سب سے افضل اور برتر ہیں۔

دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ
میں سب کو مانتا ہوں مگر مصطفی کے بعد

(قتیل شفائی)

نعتِ رسول مقبول دل و نظر کی شاعری ہے، جذبے اور خلوص کی چاندنی ہے۔ محبتوں اور عقیدتوں کی موجِ نور ہے، شعور و آگہی کی خوشبو، لوح و قلم کی آبرو، گردشِ لیل و نہار کی جستجو اور زمین و آسمان میں موضوعِ گفتگو، حرف و صوت کی ریاضت دراصل نطق و بیان کی عبادت ہے۔

لگیں میرے تنے پر بھی کھجوریں یارسول اللہ
میں شعروں کی کھجوریں بانٹ دوں جاکر مدینے میں

(شیخ عبدالعزیز دباغ)

سرکارِ دو جہاںؐ، متاعِ کون و مکاںؐ، پیمبرِ بہارِ جاوداںؐ کے ذکر جمیل سے ’’نغماتِ عشق‘‘ کا ورق ورق منور ہے۔ خاکِ مدینہ کی خوشبو سے ہم غلاموں کی دنیا مہک رہی ہے، قلم کی یہ سجدہ ریزیاں قبول ہوں، مطلعِ انوارِ سحر کی ضیا پاشیوں سے ایوانِ شعر جگمگا رہا ہے۔ صبحِ ازل کے حسنِ لازوال، پیکرِ رعنائیِ خیال، بزم ہستی کے چراغِ بے مثال، ممدوحِ ربِ ذوالجلال، ساقی کوثر، شافعِ محشر، سلطانِ بحرو بر، صاحب لولاک، مرقع جمال، مرجعِ زیبائی، رسولِ ازل، مشہودِ مطلق کی ثنا ہم سائلانِ مصطفی کا سرمایۂ حیات ہے۔ اللہ رب العزت کے بعد ہمارا ہر حوالہ حضورؐ سے شروع ہوکر حضور پر ختم ہوجاتا ہے۔ رشید احمد طاہری کا مرتب کردہ انتخابِ نعت اسی سرمائے میں ایک قیمتی اضافہ ہے۔ اللہ رب العزت اس سعی کو قبول اور آقا علیہ السلام اسے سندِ جواز عطا فرمائیں۔

ریاض حسین چودھری
شہر اقبال، 25 جنوری 2017ء