نعت خوانی اور ہوسِ زر- نعت کے تخلیقی زاویے

جناب ابرار حنیف کے مجلہ ’’کاروانِ نعت‘‘ کے نعت خوانی نمبر میں 2007ء میں شائع ہوا

یہ روحانی رتجگوں کا موسمِ دلکشا ہے۔ قریہ قریہ عشق رسول ﷺ کی محفلیں سجائی جارہی ہیں، خوشبوئے اسم محمد ﷺ فضائوں میں پرفشاں ہے، لبوں پر صل علیٰ کے پھولوں کی بہار دیدنی ہے۔ ہوائے مدینہ سے ہمکلامی کا شرف ہم غلاموں کا مقدر بن رہا ہے۔ ارض و سما کی وسعتوں میں سیدہ آمنہؓ کے لال کی عظمتوں اور رفعتوں کا نقارہ بج رہا ہے۔ ہم کتنے خوش بخت ہیں کہ ہمیں محافلِ نعت کی سرمدی فضائوں اور درود پڑھتی ساعتوں میں اپنی راتیں گزارنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے۔

دن تو گذرا ہے تصور میں درِ سرکار ﷺ پر
رات کٹ جائے گی ذکرِ مصطفی ﷺ کرتے ہوئے

محافل نعت کا انعقاد فروغِ عشق رسول ﷺ کی ایک مقبولِ عام صورت ہے جسے ہر سطح پر حرفِ پذیرائی حاصل ہونا چاہیے لیکن اعتدال، توازن اور احتیاط کا دامن کسی صورت میں بھی ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہماری دانستہ چشم پوشی کی وجہ سے بعض قباحتوں نے بھی سر اٹھایا ہے جن کا سر اگر اس وقت سختی سے نہ کچلا گیا تو آگے چل کر یہ قباحتیں ان گنت مسائل کا باعث بنیں گی اور نت نئے فتنوں کو جنم دیں گی۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو اور ان شاء اللہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ خود احتسابی کا شعور بھی فروغ پارہا ہے۔ بہر حال ہمیں ابھی سے حفاظتی اقدامات پر غور کرنا چاہیے اور ہر ممکن حد تک ان قباحتوں میں اپنے جذبہ عشق کو ملوث نہیں ہونے دینا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ صرف نعت خواں حضرات ہی کو قصور وار ٹھہرانا درست نہیں، منتظمین اور حاضرین کا بھی ناپسندیدہ امور میں برابر کا ہاتھ ہے۔ اس لیے ہم سب کو اصلاحی نقطہ نظر سے اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔

نعت خوانی کی آڑ میں ہوسِ زر کی تکمیل ایک گھنائونا جرم ہے۔ خداکا شکر ہے کہ نعت خوانوں پر نوٹوں کی بارش کی قبیح رسم کا اب بڑی حد تک قلمع قمع ہوچکا ہے۔ نعت خوانوں، منتظمین اور حاضرین کی سمجھ میں یہ بات آچکی ہے کہ ہم عشقِ رسول ﷺ کے نام پر کن فرسودہ اور فحش حرکات کی نقالی کررہے تھے۔ اللہ اور اس کے رسولِ معظم ﷺ ہمیں معاف فرمائیں۔

نعت خوانوں کی خدمت ضرور کیجئے لیکن اس کے لیے کوئی باوقار طریقہ اپنایئے۔ پہلے سے طے شدہ ’’معاوضے‘‘ جیسی رسمِ بد کا خاتمہ بھی خود نعت خواں حضرات ہی کرسکتے ہیں۔ نعت خوانی کو ہوسِ زر کی بھینٹ چڑھانا کیا آقا علیہ السلام کے نزدیک پسندیدہ عمل ہوسکتا ہے۔ خود نعت خواں حضرات کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے۔بد نصیبی سے ہم نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے اسمائے مقدسہ کو بھی نیلام گھر کی زینت بنالیا ہے۔ اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہم ہر وہ کام کر گزرنے پر تیار ہیں جس کی شریعت محمدی ﷺ میں ممانعت کی گئی ہے۔ افسوس نہیں دکھ کی بات ہے کہ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ نعت خوان اپنا ریٹ فکس(fix) کر کے چلتے ہیں جو کہ لاکھوں میں ہوتا ہے. آپ ان کی بودوباش ملاحظہ کریں تو مناظر ہوش ربا ہیں۔ یہ نعت خوانی نہ ہوئی کاروبار ہوا۔ یہ نعت اور نعت خوانی کی توہین ہے۔مہتمم حضرات پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس رجحان کی سختی سے حوصلہ شکنی کریں اور ایسے نعت خوان حضرات کو محافل میں بلائیں جنہیں نعت کے تقدس کا احساس ہو نہ کہ وہ ہوس زر کے پجاری ہوں۔

محافلِ نعت میں ادب اور تعظیم نعت کا حق ہے۔ محافلِ نعت میں تو نعت خوانوں، منتظمین اور حاضرین کو تصویرِ ادب بن کر بیٹھنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے ان پاکیزہ محافل میں بھی ہمارانمائش کا جذبہ عروج پر دکھائی دیتا ہے۔ ہماری حرکات و سکنات آدابِ رسول ﷺ کے منافی ہوتی ہیں۔ کیا حضرت حسان بن ثابتؓ اس طرح حضور ﷺ کی بارگاہ میں نعت پڑھا کرتے تھے؟ اگر یہ احساس زندہ ہوجائے کہ ہم آقا حضور ﷺ کی محفل میں کھڑے ہیں اور حضور ﷺ خود ہماری نعت سن رہے ہیں تو پھر نہ تو یہ عجیب و غریب حرکات و سکنات ہوں گی اور نہ ’’گلے اور سُر‘‘ کے مظاہرے کی کوئی جرأت کرسکے گا۔

میرے حضور ﷺ مری نعت سن رہے ہیں ریاضؔ
چمک رہا ہے ستارا میرے مقدر کا

اپنے مقدر کے ستارے کو چمکایئے، باوضو ہوکر اور حضوری کی تمام تر کیفیتوں میں ڈوب کر بیٹھئے اس یقین کے ساتھ کہ مکینِ گنبدِ خضرا ﷺ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے پروانے، ان کی گلیوں کے دیوانے ان کی یاد میں کس طرح تڑپ رہے ہیں۔ یہاں ذرا سی بھی شوخی سوء ادب شمار ہوگی۔ یہ احساس زندہ رہنا چاہیے کہ ہم حضور ﷺ کی محفل میں بیٹھے ہیں۔ ہم جو امور شعوری اور لاشعوری طور پر سرانجام دے رہے ہیں کیا ان محافل کا تقدس ان امور کی اجازت دیتا ہے۔ اگر ہمارے حیطۂ شعور میں یہ بات آگئی تو تمام قباحتیں خود بخود ختم ہوجائیں گی۔

سیرِ گلشن کون دیکھے دشتِ طیبہ چھوڑ کر
سوئے جنت کون جائے در تمہارا چھوڑ کر

مر کے جیتے ہیں جو ان کے در پہ جاتے ہیں حسنؔ
جی کے مرتے ہیں جو آتے ہیں مدینہ چھوڑ کر

(مولانا حسن رضا خاں بریلویؒ)

لوح بھی تو قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب

(حضرت علامہ محمد اقبالؒ)

یہاں یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے کہ دکھاوا اور ریاکاری باطل ہے اور اس سے باقی کار ہائے خیر کا بھی ابطال ہوتا ہے۔ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر دکھاوا کرنا اور نمائش کو فوقیت دینا ریاکاری کے زمرے میں آتا ہے جس سے ہر گونہ اجتناب ناگزیر ہے۔ اس سے تو محفل کا تقدس پائمال ہوتا ہے۔ خدا کرے ہم لوگ اس روش کو یک سر ترک کر کے خالصتاً رضائے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے محافل نعت کا اہتمام کریں اور بارگاہِ رسالت میں قبولیت پائیں۔ آمین۔