صبیح رحمانی ایک منفرد نعت گو- نعت کے تخلیقی زاویے

(صبیح رحمانی کی نعتیہ شاعری، فکری و تنقیدی تناظر، مرتبہ: ڈاکٹر شمع افروز)

بیسویں صدی کی آخری دہائی کے نصف آخر میں اردو نعت کے تخلیقی اور فنی سفر کا جائزہ لیتے ہوئے ہم پر یہ خوش گوار حیرت منکشف ہوئی ہے کہ ثنائے رسول ﷺ کی قندیل بدستور روشنی کے ساتھ رنگوں سے جھملا رہی ہے اور ماہ وسال کی گرد میں اس کا چہرہ کہیں بھی دھندلانے نہیں پایا۔ اخلاقی گراوٹ، ذہنی پراگندگی، فکری آلودگی اور جنسی بے راہ روی کے اس دورِ بے اماں میں جب کہ انسانی معاشرے کو حیوانی معاشرے میں تبدیل کرنے کی ابلیسی سازش تقریباً مکمل ہورہی ہے اور عریانی، فحاشی، بے غیرتی اور بے حمیتی کا عفریت ہر چیز کو نگل جانے کے لیے پھنکار رہا ہے، نعت دلوں میں گداز عشق، طہارت اور پاکیزگی کے چراغ سجا رہی ہے۔ کشور دیدہ و دل میں بادِ بہاری چل رہی ہے، یہ احساس اور یقین درِ دل پر دستک دے رہا ہے کہ اکیسویں صدی کے دروازے جب شاعر رسول پر وا ہوں گے تو اس کی دونوں ہتھیلیوں پر مدحت رسول ﷺ کے چراغ اس طرح روشن ہوں گے کہ نئی صدی کے آنگن میں اترنے والے ہر لمحے کا ضمیر فاران کی چوٹیوں پر چمکنے والے آفتاب رسالت ﷺ کی ضیا پاشیوں سے منور و تاباں ہوگا اور اس کے چہرے کے گرد کیف مسلسل کا ایک ہالہ ہوگا، وہ ہالہ جو ہم غلاموں کا سرمایہ حیات بھی ہے اور توشۂ آخرت بھی۔

آج کی نعت کا کینوس بہت وسیع ہوچکا ہے اور شاعر حضور ﷺ کی ذات اقدس کے حوالے سے اپنی اور اپنے عہد کی پہچان کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ بعض لوگ نعت میں جدید و قدیم کی تفریق کے قائل نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نعت، نعت ہوتی ہے اور بس۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کی نعت اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلویؒ کے دور کی نعت سے ظاہراً ہی نہیں باطناً بھی بہت مختلف ہے۔ ہر دور کی شاعری (بلکہ تمام فنون لطیفہ) کی اپنی الگ پہچان ہوتی ہے، اس کا اپنا ایک الگ لہجہ اور ذائقہ ہوتا ہے، ہر عہد کے اپنے مسائل ہوتے ہیں، سوچ اور اظہار کے رویے ہی نہیں موضوعات بھی مختلف ہوسکتے ہیں۔ شاعرانہ اپروچ مختلف ہوسکتی ہے، قدیم و جدید نعت اپنے مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے مختلف قرار پاتی ہے، جدید اردو نعت اپنی شاندار اور توانا روایات سے انقطاع کا نام نہیں بلکہ اپنی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے تخلیق کے نئے افق تسخیر کرنے کا نام جدیدیت ہے۔ اس پس منظر میں ’’جادۂ رحمت‘‘ کے شاعر صبیح رحمانی کے شعری وژن کا جائزہ لیں تو اعتبار کے دونوں رنگ قدم قدم پر جلوہ گر دکھائی دیتے ہیں۔ ایک منفرد اسلوب ہی کسی تخلیق کار کی بقا کا خاصہ ہوتا ہے۔ صبیح رحمانی خوش قسمت شاعر ہیں کہ سفر کے پہلے مرحلے میں ہی انہیں قدرت نے اس اعزاز سے نوازا ہے۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ آگے چل کر ان کے منفرد اسلوب میں مزید نکھار پیدا ہوگا۔

صبیح رحمانی نے جو شعری وژن تخلیق کیا ہے، اس میں روح پر سحاب کرم کے برسنے کا منظر دیدنی ہے۔ تشنہ ہونٹوں پر اُگی آرزوئوں کے وجد میںآنے کا موسم بھی ناقابل فراموش ہے، اپنے عہد کے آشوب نے ان کے لہجے کو کھردرا پن نہیں بلکہ سوز و گداز کی دولت سے سرفراز کیا ہے۔ شوق کی آنچ پر جذبوں کے پگھلنے کا عمل جب تخلیقی مراحل سے گزرتا ہے تو شاعر کی روح بھی رقص میں آجاتی ہے اور پھر قرطاس و قلم کی ساری توانائیاں ان کے سامنے دست بستہ کھڑی نظر آتی ہیں، ان کا قلم پوری روانی کے ساتھ ’’جادۂ رحمت‘‘ پر گامزن ہے۔ ’’پہچان‘‘ ایک خوبصورت حمدیہ نظم ہے، اپنے خالق کی ثنا کا کیا خوبصورت انداز ہے:

وہ جس نے موجوں کو تیشہ اندازیاں سکھا کر
رقم چٹانوں پہ راز ہائے ہنر کیے ہیں

شاعر ان چٹانوں پر رقم راز ہائے ہنر کی تلاش میں ہے، ایک جستجو اسے صحرا صحرا لیے پھرتی ہے، آج کی نعت ثنائے حبیب کبریا سے محراب جلیل کی طرف سفر کررہی ہے۔ یہ سفر حکم خداوندی کے عین مطابق ہے اس لیے کہ اللہ تک رسائی حضور ﷺ کے وسیلہ جلیلہ کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ قلم دہلیز مصطفی ﷺ کو چوم کر بارگاہِ خداوندی میں سجدہ ریز ہوتا ہے۔ یہی رویہ صبیح رحمانی کی نعتیہ شاعری کا اساسی رویہ ہے۔ شاعر بارگاہِ خداوندی میں التماس گزار ہے:

رفتہ رفتہ کھول مجھ پر راز ہائے جسم و جاں
دھیرے دھیرے مجھ پہ ظاہر تو مری پہچان کر

نئی تراکیب، نئے استعارے اور نئی علامتیں قدم قدم پر تازگی کے احساس کو دو چند کرتے چلے جاتے ہیں، شاعر حیرتوں کے سمندر میں گم ہے۔

تو ہے آئینہ ازل یا رب
اور میں ہوں ابد کی حیرانی

صبیح رحمانی الفاظ کا چنائو بڑی احتیاط سے کرتے ہیں، جذبوں کو بے لگام نہیں ہونے دیتے اور جدت طرازی کے شوق میں فن کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان کی نعت میں سبک ندی کا ٹھہرائو، دھیما پن ہے۔ اپنے عہد کے آشوب کی بات کرتے ہیں تو ان کے لہجے میں تلخی نہیں آتی بلکہ دھیما پن، اضطراب اور تشویش کی ہلکی ہلکی لہروں میں تبدیل ہوجاتا ہے، حرف زندہ کی تلاش میں نکلنے والے شاعر کی طرزِ نوا ملاحظہ فرمایئے:

حرا کے سوچتے لمحوں کو زندہ ساعتیں لکھ کر
صفا کی گفتگو کو آبشار آگہی لکھوں

قلم کی پیاس بجھتی ہی نہیں مدح محمد میں
میں کن لفظوں میں اپنا اعتراف تشنگی لکھوں

پندار آرزو کو کہیں بھی شکستہ لمحوں کے سپرد نہیں کرتے بلکہ اپنی تخلیقی اکائی کے تحفظ کے لیے جمال کی ہر کیفیت کو گرفت میں لینے کی سعی کرتے ہیں اور اکثر اس میں کامیاب بھی رہتے ہیں، خود احتسابی کے عمل کو شعوری سطح پر بھی جاری رکھتے ہیں، رعنائیوں کے جھرمٹ میں خوبصورت خیال کا تعاقب کرتے دکھائی دیتے ہیں، بالکل ایک بچے کی طرح جو جگنوئوں اور تتلیوں کے تعاقب میں بہت دور تک نکل جاتا ہے اور جگنو کو مٹھی میں بند کرکے یا تتلیوں کے پر کتابوں میں سجا کر ایک عجیب طمانیت محسوس کرتا ہے، کاسۂ حرف و نوا میں تاثیر کی بھیک کے طلب گار صبیح رحمانی، کرمِ مصطفی ﷺ کی بات کرتے ہیں تو ساری فضا جھوم اٹھتی ہے:

سرِ حشر ان کی رحمت کا صبیح میں ہوں طالب
مجھے کچھ عمل کا دعویٰ کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا

شاعر اپنی ذات کو تصور رسول ﷺ میں گم کردیتا ہے، وہ عشق رسول ﷺ میں فنا ہوکر اپنی ہستی کی بقا کا تمنائی ہے۔

صبیح ان کی ثنا اور تو کہ جیسے برف کی کشتی
کرے سورج کی جانب طے سفر آہستہ آہستہ

صبیح رحمانی کی فصل نوا اول سے آخر تک تر و تازہ رہتی ہے۔ شاداب ساعتیں اور مخمور لمحے ان کے مقدر میں لکھ دیئے گئے ہیں۔ ثنا کی کھیتی ہر وقت ہری بھری رہتی ہے، بہارِ نعت سے باغ سخن مرکز نگاہ بنا ہوا ہے۔

فرشتوں نے مری لوح عمل پہ روشنی رکھ دی
ثنا خوانِ محمد لکھ دیا اوّل سے آخر تک

روشنی گنبدِ خضرا کی ملی جنت میں
شہر طیبہ ترے انوار کہاں تک پہنچے

ان کی نسبت سے دعائوں کا شجر سبز ہوا
ورنہ ٹلتا ہی نہ تھا بے ثمری کا موسم

انسانیت کا اوج ہے معراجِ مصطفی
یہ روشنی کی سمت سفر روشنی کا ہے

عصر آلود فضا اور فضائوں میں درود
خوشبوئے اسمِ محمد کی حدیں لامحدود

اپنے عصر سے روشنی کشید کرنا ہر تخلیق کار کا حق ہوتا ہے، بلکہ سچا شاعر ہی وہ ہے جو اپنے عہد کی نمائندگی کا فریضہ بھی سرانجام دے جو اپنے عہد کی سچائیوں کو تجسیم کرکے تخلیقی سطح پر اس کا اظہار بھی کرے۔ صبیح رحمانی نے بھی اپنے ہم عصروں سے اکتساب شعور کیا ہے۔ بعض اوقات ان کی فضائے نعت میں یہ آوازیں براہِ راست بھی در آئی ہیں، مجھے امید ہے کہ صبیح رحمانی تخلیق کی شاہراہ پر جوں جوں آگے بڑھیں گے توں توں ان کے فن پر نکھار اور ان کے لہجے میں مزید وقار آتا جائے گا، وہ نکھار اور وقار جو اس وقت بھی ان کی نعتیہ شاعری میں بدرجہ اتم موجود ہے، یہ عہد جس میں اتنی گھٹن ہے کہ لوگ دعا مانگنے پر مجبور ہیں۔ صبیح رحمانی کی نعت ہوائے تازہ کا ایک خنک جھونکا ہے۔ ان کی نعت وادیٔ جاں میں تازہ کاری کی ایک خوبصورت مثال ہے۔ صبیح رحمانی نے الفاظ کو معانی کے نئے پیراہن عطا کرنے کی شعوری اور لاشعوری دونوں سطحوں پر سعی کی ہے، میری دعا ہے کہ ان کا نخل تمنا ہمیشہ ہرا بھرا رہے اور یہ اپنے آنسوئوں سے کشت ثنا کی آبیاری کرتے رہیں۔ خدا کرے کہ مدحت پیمبر ﷺ میں ان کے قلم کی پیاس کبھی نہ بجھے اور اعتراف تشنگی کرتے کرتے ان کا قلم آبِ کوثر میں ڈوب جائے۔