امیر ملتؒ اور عشق رسولؐ- نعت کے تخلیقی زاویے

(30 اگست 1998ء روزنامہ پاکستان)

امیر ملت حافظ پیر جماعت علی شاہؒ محدث علی پوری 1841ء میں پیدا ہوئے اور 1951ء میں آپ کا وصال ہوا، ایک سو دس برس کا یہ عرصہ جنوبی ایشیا میں فکری توانائیوں کے سیاسی آہنگ میں صورت پذیر ہونے کا زمانہ ہے، اسلامیان ہند کے نظریاتی تشخص کی آئینہ برداری کا عہد ہے، کھوئے ہوئوں کی جستجو میں نکلنے والے قافلوں کی کامرانیوں اور کامیابیوں کا دور ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں مغلیہ سلطنت کے اقتدار کا چراغ گل ہوا تو اسلامیان ہند کا سیاسی، معاشی، علمی، تہذیبی، مجلسی، سماجی اور ثقافتی زوال و انحطاط بھی اپنی انتہا کو پہنچ گیا لیکن ابتلاء و آزمائش کے اس دور میں بھی روحانیت کے چراغ زوال آمادہ تہذیب کے گرد روشنی کا حصار باندھے ہوئے، ہوائے مخالف کے مدمقابل سینہ سپر رہے، یاسیت کے بھنور میں بھی امید کی کرنیں پاتال کی گہرائیوں میں اترتی رہیں، تاریخ شاہد و عادل ہے کہ اسلامیان ہند کے گرد سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی غلامی کا حلقہ تنگ کرنے کے بعد مسلمانوں کو ہر شعبہ زندگی میں پسماندگی اور فرسودگی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا تھا، برہمنی سامراج اور برطانوی استعمار نے مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بازیابی کے ہر تصور کی راہ میں اونچی اونچی دیواریں چن دی تھیں اور روشنی کے سفر کو روکنے کے لیے اپنے تمام وسائل، سازشوں اور فتنوں کی بھٹی میں جھونک دیئے تھے، سب سے پہلا وار مسلمانوں کے تعلیمی نظام پر کیا گیا کہ مسلم امہ کے ذہن جدید کا روحانی اور وجدانی رشتہ اپنی عظیم ثقافتی اقدار سے کلیتاً منقطع کردیا جائے۔ دوسرا وار مسلمانوں کے مرکز عقیدت پر کیا گیا کہ اگر مسلمان کے سینے میں عشق مصطفیؐ کے چراغوں کو بجھادیا جائے تو وہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوکر کٹے ہوئے پھل کی طرح سامراج کی جھولی میں آگرے گا، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ برطانوی سامراج نے اسلام کے خلاف نت نئے فتنوں کی سرپرستی کی، قادیانیت کا تھوہڑ کاشت کرکے زرخیز زمینوں کو زہر آلود کرنے کی سازش کی، حضورؐ کی ذاتِ اقدس کو مباحث اور مناظروں کا موضوع بناکر مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان نفاق کا بیج بویا اور انہیں متحارب اور متصادم گروپ بناکر ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا۔ اس فتنہ پروری کا مقصد یہ تھا کہ امت مسلمہ کے اپنے نبیؐ سے غلامی کے اس رشتے کو کمزور کردیا جائے جو مسلمانوں کے اتحاد کی سب سے بڑی بنیاد ہے۔ معراج ایمان یہی ہے کہ روح محمدؐ کشور دیدہ و دل میں خوشبو بن کر مہکتی رہے۔

زخم کھا کر بھی اسلامیان ہند نے اپنے نظریاتی تشخص کی مشعل اپنے ہاتھ سے گرنے نہ دی۔ صوفیا اور اولیاء کرام کی مساعی جمیلہ سے کفرستان ہند میں شمع اسلام روشن ہوئی تھی۔ صدیوں بعد اس کی مخالفت کا فریضہ بھی انہی کو سرانجام دینا تھا، خانقاہوں سے نکل کر میدان عمل میں رسم شبیری کے روح پرور مناظر سامنے آنے لگے، بالآخر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو پاکستان کی صورت میں اپنی منزل قریب ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی اسلامی مملکت کا ظہور ہوا۔ اس سارے عرصے میں ہر سمت تشکیک و ابہام کی دھند چھائی ہوئی تھی فکر و نظر کی پگڈنڈیوں پر مسلم لیگ کے شانہ بشانہ علماء اور مشائخ عزم و عمل کے دیئے سجا رہے تھے، قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں اسلامیان ہند ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو رہے تھے، ماضی قریب میں اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلویؒ نے الحاد و کفر کی ہزار آندھیوں کے باوجود محبت رسولؐ کے چراغوں کی لو کو مدھم نہ ہونے دیا۔ امیر ملت حافظ پیر جماعت علی شاہ بھی اپنی دونوں ہتھیلیوں پر عشق مصطفیؐ کے چراغ جلاکر برصغیر کے دور دراز علاقوں میں عشق رسولؐ کی روشنی تقسیم کررہے تھے، خوش قسمتی سے یہ رہنمایان قوم ہنود و نصاریٰ کے بچھائے ہوئے دام فریب سے اسلامیان ہند کو بچانے میں کامیاب ہوگئے اور ان کے ایمان کو اتنی مضبوط دیواریں عطا کیں کہ قیام پاکستان کے بعد علماء کی طرف سے قرار داد مقاصد آئین پاکستان کا مستقبل حصہ قرار پائی لیکن اس قرار داد کے بعد علماء اور مشائخ پھر اپنے حجروں میں چلے گئے اور رسمِ شبیری ادا کرنے کے لیے کوئی میدان عمل میں نہ رہا، جزوی کوششیں ضرور ہوئیں لیکن ہوس اقتدار نے نظریاتی اثاثوں کو جلا کر راکھ کردیا اور ملت اسلامیہ کو سقوط ڈھاکہ کے المیے سے دوچار ہونا پڑا اور آج ہم باقی ماندہ پاکستان میں اپنے نظریاتی تشخص کی تلاش میں سرگرداں ہیں لیکن ہمیں اپنی منزل نہیں مل رہی۔اس سیاسی، سماجی اور معاشی صورت حال نے بیسویں صدی کے اوائل اور وسط میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے مہیب سائے میں مسلمانانِ ہند میں اس شعور آزادی کو جنم دیا جس نے تخلیقی سوتوں میں نئی جمالیات اظہار کو متشکل کیا اور حب رسول کو وہ جولانیاں عطا کیں جو امیر ملتؒ کے سیلان نور کی شکل میں برصغیر کی پہنائیوں کو روشن کرتی رہیں اور تخلیقی ادب میں شعور نعت کا خمیر اٹھاتی رہیں۔

انیسویں صدی کا نصف آخر اور بیسویں صدی کا نصف اول برصغیر کی زندگی کا ہنگامہ خیز دور ہی نہیں، تاریخی صداقتوں کے اثبات کا ایک فیصلہ کن موڑ بھی ہے، اس عہد میں اسلامیان ہند نے پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں سے ابھر کر علم و حکمت اور دانائی کی شمع کو پھر سے اپنے ہاتھ میں لینے کی سعی مشکور کی، سرسید احمد خان نے روایت علمی کے احیاء کے لیے جس سفر کا آغاز کیا تھا، وہ شاداب موسموں کی بشارت لے کر افق دیدہ و دل پر طلوع ہورہا تھا، علم کی شمع پھر سے اپنے ظلمت کدوں میں روشن کرکے دراصل اسلامیان ہند نے شمع رسالتؐ کی اس روشنی سے تجدید عہد کیا جو روشنی آج سے چودہ سو سال پہلے غار حرا کی تاریکیوں میں چمکی تھی۔ امیر ملت نے مسلم علی گڑھ یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے ایک خطیر رقم فراہم کرکے شعوری اور لاشعوری دونوں سطحوں پر حضور ختمی مرتبتؐ سے اپنے رشتہ غلامی کو زندہ و پائندہ رکھا۔ اس لیے کہ احساس غلامی عشق مصطفیؐ کے زمزموں ہی سے پھوٹتا ہے اور ایثار و قربانی کے پانیوں میں نمو پذیر ہوتا ہے، حضور قبلہ عالم، تحریک فروغ عشق رسولؐ کے داعی تھے، یہ تحریک تزکیہ نفس اور تطہیر قلوب کے مراحل سے گزر کر قدم قدم پر سرکار مدینہؐ کی محبت کے چراغ روشن کررہی تھی اور کررہی ہے، امیر ملت، حفیظ جالندھری کے ایک نعتیہ شعر پر نقدی سمیت اپنی واسکٹ اتار کر شاعر رسولؐ کی خدمت میں پیش کردیتے ہیں، کسی نعت خواں سے نعت سنتے ہیں تو عالم شوق وجد میں آجاتا ہے اور اسی وقت مدینے کی راہ گزر پر ہو لیتے ہیں۔یہ نعت کا وجدان، نعت کا رنگ سیرت اور نعت کی عملی ہیئت ہے۔

آپ فنا فی الرسولؐ تو تھے ہی، اپنے مریدین کے دامن آرزو کو بھی آرزوئے مدینہ کی دولت سے مالا مال کرتے اور ان کے قصر ایمان میں بھی عشق مصطفیؐ کی دھنک کے تمام رنگ اتارتے رہے، وابستگان آستانہ محدث علی پوری آج بھی چہار دانگ عالم میں عشق رسولؐ کے جام لنڈھانے کے منصب جلیلہ پر رونق افروز ہیں، ایک جذبہ عشق رسولؐ کہ نعت کے پیرائے میں مجھے جس کے اظہار کی سعادت نصیب ہوئی ہے اور دوسرے اس خطہ دیدہ و دل سے غیر مشروط اور غیر متزلزل کومٹ منٹ، یہ قریہ محمدؐ جو مسلم امہ کی پہلی دفاعی لائن ہے اور جسے سچ مچ اسلام کا قلعہ بننا ہے، یہ دونوں محبتیں عطا ہیں قبلہ محدث علی پوری کی، کہ انہوں نے اپنے مریدوں کی تربیت اسی انداز سے کی۔ وہ خود عشق مصطفیؐ کی علامت بن گئے اور ان کے گھروں کے در و دیوار بھی درود پڑھتی ہوئی ساعتوں کے جھرمٹ میں گم ہوگئے۔ یہ حضور قبلہ عالم کا عشق رسولؐ ہی تھا کہ آپ نے حجاز ریلوے کی تعمیر میں دل کھول کر حصہ لیا۔ سرزمین محبوب کے لوگ قحط سالی کا شکار ہوتے تو شمع رسالتؐ کا یہ پروانہ شہر نبیؐ کی گلیوں کایہ دیوانہ تڑپ اٹھتا، آپ وافر مقدار میں غلہ عرب میں بھجواتے کہ دیار حضورؐ کے باسیوں کے چہروں پرپژمردگی کا ہلکا سا بھی سایہ نہ پڑنے پائے، عرب یونہی آپ کو ابوالعرب نہیں کہا کرتے تھے۔ یہ امیرملت کا عشق رسولؐ ہی تھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے کفر کے رد میں دیوانہ وار میدان عمل میں کود پڑے، حضور قبلہ عالم کی پیش گوئی کے نتیجے ہی میں نبوت کا یہ جھوٹا دعویدار واصل جہنم ہوا۔ یہ ان کی محبت رسولؐ ہی کا کرشمہ تھا کہ شدھی تحریک کے سیلاب کو روکنے کے لیے سر پہ کفن باندھ کر علی پور سے نکل کھڑے ہوئے اور لاکھوں مسلمانوں کو ارتداد کی آگ میں جلنے سے بچایا، یہ آپ کا جذبہ وفائے نبیؐ ہی تھا کہ مسلم لیگ کی سرپرستی فرماتے ہوئے یہ جرأت مندانہ اور مجاہدانہ اعلان فرمایا کہ مخالفین پاکستان کو مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن نہیں ہونے دیا جائے گا۔ امیر ملت کا معمول یہ تھا کہ اٹھتے بیٹھتے محبوب کی گلیوں کا ذکر کرتے رہتے، دیار ہجر میں رہ کر بھی ہوائے مدینہ سے ہمکلامی کا شرف حاصل کرتے، شہر حضور کے چرند پرند سے بھی ٹوٹ کر محبت کرتے، خاک مدینہ کو اپنی آنکھ کا سرمہ بناتے، حضورؐ کا اسم گرامی ہونٹوں پر آتا تو آنکھیں چھلک پڑتیں، کوئی مدینے کی گلیوں کا ذکر چھڑتا تو پلکیں بھیگ بھیگ جاتیں، روضہ اطہر کے کلید بردار آغا خلیل بھی آپ کے حلقہ ارادت میں شامل تھے، حضور قبلہ عالم کو روضہ اطہر کی مقدس معتبر اور معطر جالیوں کے پیچھے کئی بار شب گزارنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

حج پر جاتے ہیں تو پہلے حضورؐ کی بارگاہ میں حاضری دیتے ہیں کہ یہی حکم خداوندی ہے، شہر حضور ﷺ میں دل کھول کر سخاوت فرماتے ہیں کہ ہمارا سب مال و دولت آقا حضورؐ کے قدموں کا دھوون ہی تو ہے۔ اہل مدینہ کی دعوتوں کا سلسلہ چل نکلتا تو عشق و خود سپردگی کے پیکر دلنواز میں ڈھل جاتا۔ فرماتے، مدینہ میرا وہ وطن جو نبی آخرالزمانؐ کا وطن ہے، وہ وطن جسے تاجدار کائناتؐ کے قدموں کو بوسہ دینے کا اعزاز ملا ہے، وہ وطن جو پوری کائنات کا مرکز نگاہ ہے، جہاں ہر آن اللہ کی رحمت برستی ہے۔

ہمارے عہد کے ارباب فکرو نظر اور اصحاب دانش کی سوچ مصلحتوں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے، حرفِ حق زبا ن پر آنے سے پہلے ہی ہم بے ضمیری کے قفل اپنے ہونٹوں پر چڑھا لیتے ہیں، مبادا امریکہ بہادر کی جبین شکن آلود ہوجائے اور اس کی گڈبکس میں سے ہمارا نام حذف کردیا جائے، جب کسی قوم کے سیاستدان اپنا نام میر جعفر اور میر صادق کے ساتھ بریکٹ کرانے پر رضا مند ہوجائیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اس قوم کو اجتماعی خودکشی سے نہیں روک سکتی اور کچھ ایسی اندوہناک صورتحال سے ہمارے سیاستدانوں نے ہمیں دوچار کر رکھا ہے، ہم اپنے مفادات کے قیدی محض اس لیے بن کر رہ گئے ہیں کہ ہم عشق رسولؐ کو ایک تحریک بناکر سینوں میں احساس غلامی کی آگ کو بھانبڑ بنانے میں ناکام رہے ہیں، اگر ہم نے جذبہ وفا کو ایک تحریک کا رنگ دیا ہوتا تو آج بے غیرتی اور بے حمیتی کی چادر میں منہ چھپانے کی بجائے ہم عالم کفر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکارنے کے تاریخی عمل سے گزر رہے ہوتے۔ یہ وہ نعت ہے جو سیرت سے شروع ہوتی ہے اور سیرت پر ختم ہوتی ہے۔ سردار انبیائ ﷺ کی سیرت پاک ہی ہماری نعت کا ظاہر و باطن ہے۔ امیر ملت نے ہمیں یہی درس دیا ہے اور اسی شعور نعت کی پرورش کی ہے۔

o