فاضل بریلویؒ کا شعری وژن- نعت کے تخلیقی زاویے

(یہ مضمون’’ نعت رنگ‘‘ کے مولانا احمد رضا خانؒ نمبر میں 2005ء میں شائع ہوا)

گلشنِ مدینہ کے تصور میں مہکنا، شب کے پچھلے پہر اشکِ مسلسل کے جھرنوں کا گرنا، کشتِ دیدہ و دل میں بادِ بہاری کا چلنا، درودوں کی تتلیوں کا سلاموں کی رم جھم میں شاخ در شاخ خوشبوئے اسمِ محمدؐ سے ربطِ خاص رکھنا، چشمِ تمنا کا طوافِ گنبدِ خضرا میں مصروف رہنا، اسم گرامی کو چوم کر قلم کا وجد میں آنا، شمع رسالت کے پروانوں کا شبِ تنہائی کے لمحاتِ منتظر میں عشقِ مصطفی کی سرشاریوں سے ہمکنار ہونے کا شرفِ عظیم حاصل کرنا، کیفِ حضوری میں ڈوبی ہوئی ساعتِ عجز کا رقص میں آنا، درود و سلام کی وادی پُر بہار میں تخیل کا افق در افق دیوانہ وار اڑتے ہی رہنا، فضائے نعت میں سانس لینے کے اعزاز لازوال پر بارگاہِ خداوندی میں سجدۂ شکر بجا لانا اور حبِ رسول کی متاعِ عزیز کو عنوانِ زندگی بناکر خاکِ درِ حضورؐسے پیرہن آرزو بنانا ہر کسی کے مقدر میں کہاں، طوقِ غلامی ہر گردن کی زینت کب بنتا ہے، کشکولِ گدائی ہر کسی کے ہاتھ میں کب سجتا ہے، یہ اعزاز تو عطائے ربِ قدیم ہے، یہ سعادت تو محض توفیقِ خداوندی سے ملتی ہے، ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں حضورؐ کی امت میں پیدا کیا گیا، اپنے بختِ رسا کی بلائیں کیوں نہ لیں کہ ہم جان نثاروں کو آقائے محتشمؐ کے حلقۂ غلامی میں رکھا گیا، رونے والی آنکھ عطا کرکے ہمیں ثنائے محمدؐ کے منصبِ جلیلہ سے نوازا گیا۔ لوح و قلم اپنے بختِ ہمایوں پر مسرور ہوں، کلکِ مدحت ثنا کی وادیوں میں گم ہوجائے اور امت کے تمام حروف دست بستہ درِ اقدس کی حاضری سے مشرف ہوں اور خدا اور اس کے ملائکہ کے ہم زبان ہوں تو مکینِ گنبدِ خضراؐ پر درود و سلام بھیجیں اور اسی درود و سلام کو پیکرِ شعری عطا کرکے توصیفِ مصطفی کے چراغ جلائیں۔

نبیٔ آخرالزماں حضور رحمتِ عالمؐ کے محامد و محاسن کا بیان سنتِ انبیا ہی نہیں سنت ربِ ذوالجلال بھی ہے، تمام الہامی صحائف کے اوراق نبی مکرمؐ کی تشریف آوری کا مژدہ سنا رہے ہیں۔ ان کتبِ سماوی کا ایک ایک لفظ صبحِ میلاد کی تابانیوں سے جگمگا رہا ہے، قرآن حکیم سمیت تمام آسمانی کتب میں میلادِ انبیاء کا تذکرہ موجود ہے، پیدائشِ انبیاء کے ایام پر سلام بھیجا گیا ہے۔

ہدایتِ آسمانی کی آخری دستاویز قرآن مجید فرقانِ حمید حضورؐ کی ایک نعتِ مسلسل ہی تو ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے اخلاقِ محمدیؐ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ حیاتِ مصطفی آیاتِ ربانی ہی کی عملی تفسیر کا نام ہے درود بر رسولِ اول و آخر ایک ایسا عمل ہے جس میں اللہ رب العزت بھی اپنے بندوں اور ملائکہ کے ساتھ شریک ہوتا ہے، اسی درود و سلام کے شعری پیکر کو نعت کہتے ہیں، حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن زہیرؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کو شاعرِ دربارِ رسالت ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ان جلیل القدر صحابہؓ نے نعتِ سیدالمرسلینؐ سے دفاعِ مصطفی کا کام بھی لیا اور دشمنانِ اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے مخالفین کی شعری حوالے سے بھی مذمت کی، قلم کے محاذ پر دادِ شجاعت دینا جہاد ہے، یہ جہاد آج بھی جاری ہے اور کل بھی جاری رہے گا۔ جزیرۃ العرب کے ثقافتی اور ادبی پس منظر میں نعت کے شعراء نے دین کی ترویج اور دین کے فروغ کے لیے موثر کردار ادا کیا۔ برصغیر میں اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلویؒ نے نعتِ حضورؐ کے اسی اساسی رویے کو اپنایا، جنگِ آزادی کے بعد برطانوی استعمار نے اسلامیانِ ہند کو مناظروں کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی، حضورؐ کی ذاتِ اقدس کو مباحث کا موضوع بنادیا گیا تھا، نور و بشر اور حاضر وناظر جیسے اختلافی مسائل کو ہوا دے کر اسلام کے عظیم الشان فکری، نظری اور عملی نظام کو منہدم کرنے کی سازش کی جارہی تھی، ہندو سامراج اس سازش میں برابر کا شریک تھا، اغیار مسلمان کی سادہ لوحی کا تماشا دیکھ رہے تھے اقبالؒ کے الفاظ میں ابلیس کی منصوبہ بندی یہ تھی کہ:

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو

برہمنی سامراج بھی اسی روحِ محمدؐ کے خلاف صف آراء ہورہا تھا، برصغیر کی فضا میں نفرت کی چنگاریاں سلگ رہی تھیں، ہندو سامراج اسلامیانِ ہند سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا انتقام لینے کی تاک میں تھا اسلام دشمن تحریکوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

جنگِ آزادی 1857ء کے بعد اسلامیانِ ہند کو ابتلاء و آزمائش کے جس دور سے گذرنا پڑا تھا وہ ہندو اور انگریز کی نہ ختم ہونے والی سازشوں کی ایک الگ داستان ہے، علمائے حق کو کالے پانی کی سزائیں سنائی گئیں۔ لیکن یہ وہی عہدِ بے امان ہے جس میں قدرت نے اسلامیانِ ہند کی فکری رہنمائی کے لیے ایسے نابغانِ عصر پیدا کیے جنہوں نے ہر محاذ پر عزم و عمل کے ان گنت چراغ روشن کیے اور اسلامیانِ ہند کو قعرِ مذلّت سے نکالنے کی بھرپور جدوجہد کی جو بالآخر قیامِ پاکستان کی صورت میں ظہور پذیر ہوئی۔ عشقِ مصطفی کے چراغ صبحِ آزادی کے پیامبر بن گئے۔ ان نابغانِ عصر میں اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلویؒ کا نام کئی حوالوں سے سرِ فہرست دکھائی دیتا ہے۔ دو قومی نظریئے کی عملی تفسیر سیاسی بیداریوں کے موسم میں مینارۂ نور بن گئی۔ فاضل بریلویؒ دیوانہ وار میدانِ عمل میں کود پڑے اور برطانوی استعمار اور برہمنی سامراج کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے قلم کے محاذ پر سینہ سپر ہوگئے، کانگریس کی گود میں بیٹھ کر حکومتِ الہٰیہ کے خواب دیکھنے والے ’’زعما‘‘ کو آئینہ دکھایا۔ اعلیٰ حضرتؒ دیکھ رہے تھے کہ اگر عشق کی آگ بجھ گئی، تو عالمِ اسلام راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوکر غیر مؤثر ہوجائے گا، اس کی ثقافتی اکائی بکھر جائے گی اور اس کا تہذیبی وجود تک ختم ہوجائے گا۔ ایک اور ’’مغلِ اعظم‘‘ ہمارے ذہنوں پر دینِ الہٰی مسلط کردے گا، جرمِ ضعیفی کے اندھیرے پہلے ہی مسلم امہ کے ملی اثاثوں کو نیلام گھر کی زینت بناچکے تھے، نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی سرپرستی کرکے طاغوتی طاقتیں جو گھنائونا کھیل کھیل رہی تھیں اس کی سنگینی کا ادراک علما اور مشائخ کو تھا اور وہ کفر کی تکذیب میں پیش پیش بھی تھے۔ بنارس کانفرنس کے مثبت اثرات کا حوالہ دیا جاسکتا ہے کہ اگر قائداعظم بھی مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہوجائیں تب بھی علماء و مشائخ تحریک پاکستان کو اپنے منطقی انجام تک پہنچا کر رہیں گے۔ برطانوی سامراج اور برہمنی استعمار نے سیاسی، ثقافتی اور مجلسی سطح پر جو فضا تیار کررکھی تھی اس کا ردِ عمل تحریک پاکستان کی صورت میں سامنے آچکا تھا، اسلام اور پیمبر اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں، فکری مغالطوں اور علمی لغزشوں کے معاندانہ سلسلے کا آغاز ہوچکا تھا۔ اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ نے نعتِ حضورؐ کے ذریعہ دین کی بقا اور سلامتی کے احساس کو ایک زندہ تحریک بنادیا، دفاعِ پیمبرؐ، دفاع اسلام ہے، فاضل بریلویؒ کی نعتیہ شاعری نے شعوری اور لاشعوری سطح پر اسلامیانِ ہند کی نظری اور فکری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا، عظمت رفتہ کی بازیابی کا سفر اور تحریکِ پاکستان کا سفر دو مختلف چیزیں نہیں، پاکستان اسلامی تشخص کی تلاش کا دوسرا نام ہے۔ اس حوالے سے فاضل بریلویؒ کی نعت گوئی نے اجتہادی کارنامہ سرانجام دیا، دیکھتے ہی دیکھتے برصغیر کی فضا

مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام

سے گونجنے لگی اور دلوں کی کشتِ ویراں میں بادِ بہاری چلنے لگی، ہر شاخِ آرزو کا دامن صلِ علیٰ کے سرمدی پھولوں سے بھر گیا۔

حدائق بخشش فاضل بریلویؒ کے شہرہ آفاق نعتیہ دیوان کا نام ہے، ان کے مذکورہ سلام کو جو پذیرائی عوامی سطح پر حاصل ہوئی وہ اردو زبان میں کسی دوسری شعری تخلیق کو حاصل نہیں ہوسکی۔ حدائق بخشش کی پہلی نعت کا پہلا شعر ہی آقائے مکرمؐ کے درِ عطا پر سائلانِ کرم کو مژدۂ رحمت سنا رہا ہے کہ حضورؐ کے درِ اقدس پر دامن پھیلانے والا کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹا، مرادوں کے سکّے اس کے کشکولِ آرزو میں ضرور ڈالے جاتے ہیں، ہادیٔ برحقؐ کا درِ رحمت آج بھی کھلا ہے، یہاں حشر تک نور کا باڑا بٹتا رہے گا۔

واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحاؐ تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

گویا ہر عہد کے متلاشیان حق کو یہ تاکید کی جارہی ہے کہ جھک جائو دہلیز مصطفی پر، یہ تاکید عین منشائے ایزدی کے مطابق ہے کہ اگر تم اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھو تو میرے حبیبؐ کی بارگاہِ ادب میں حاضر ہوجائو اور یہ کہ اگر تمہیں امن و سکون کی تلاش ہے تو حضورؐ کی چوکھٹ پر حرفِ سوال بن کر جھک جائو۔ فاضل بریلویؒ کی نعت کا یہ اساسی رویہ حدائق بخشش کے ورق ورق پر رجائیت کے سورج آویزاں کر رہا ہے۔ ان کا نعتیہ آہنگ عطائے مصطفی کی صدائے ذی وقار سے گونج رہا ہے اور اعتماد و اعتبار کے نئے ضابطے تحریر کررہا ہے۔ نبیٔ محتشمؐ کی رحمتِ بے پایاں ہم گنہ گاروں کی تلاش میں رہتی ہے اور حضورؐ کا دریائے رحمت خود پیاسوں کی جستجو میں رہتا ہے۔ نبیٔ اول و آخرؐ کی عظمتوں اور رفعتوں کی طرف ہم غلامانِ رسولِ ہاشمیؐ کو متوجہ کیا جارہا ہے، ہمیں مقامِ مصطفیؐ کی بلندیوں کو حیطۂ شعور میں لانے کا سبق دیا جارہا ہے۔ اللہ رب العزت قرآن مجید میں اپنے بندوں کو آدابِ مصطفی سکھا رہا ہے، خبردار! تمہاری آواز میرے نبیؐ کی صدائے مقدسہ سے پست رہے، آقائے دو جہاں کو زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئیں۔ محبوب،ؐ اگرتو چاہے تو ان پہاڑوں کو سونے کا بنادیا جائے اور جہاں تو جائے یہ تیرے ساتھ جائیں؟ خدائے بزرگ و برتر قدم قدم پر اپنے محبوبؐ کی دلجوئی فرماتا ہے: محبوبؐ آپؐ دلگیر نہ ہوں ہم جسے چاہیں ہدایت دیں جسے چاہیں نہ دیں، محبوبؐ آپؐ دل میلا نہ کریں، محبوبؐ! ہم نے تجھے کل جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے، مَیں عطا کرنے والا ہوں اور تو میری نعمتوں کو میری مخلوقات میں تقسیم کرنے کے منصب پر رونق افروز ہے۔ فاضل بریلوی کی نعت قرآن و حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فکر ونظر کے دامن میں روشنی کے پھول سجاتی نظر آتی ہے۔

مَیں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیبؐ
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا

پیغمبرِ امنؐ کے دامنِ عافیت کی کسے تلاش نہیں، ماہِ عربؐ کی کالی کملی ہی تو ہم عاصیوں کی پردہ پوشی کرے گی فاضل بریلویؒ کس شاعرانہ مہارت اور مومنانہ فراست سے اس مضمون کو پیرہنِ شعر عطا کررہے ہیں۔

چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں یا اس کے خلاف
تیرے دامن میں چھپے چور انوکھا تیرا

فاضل بریلویؒ کے نعتیہ کلام کو اپنے دور کے سماجی، سیاسی، تاریخی اور جذباتی پس منظر میں نقدو نظر کی کسوٹی پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔ اُس پر آشوب دور کی تاریخ خود بخود مرتب ہوتی چلی جائے گی، کوزے میں دریا کو بند کرنے کا محاورہ تو ہم نے سن رکھا ہے لیکن قطرے میں سمندر کو بند کرنے کی مثال فاضل بریلویؒ کے نعتیہ کلام میں دکھنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ تہذیبی تناظر میں فاضل بریلویؒ کے کلام کو دیکھا جائے تو قاری رعنائیِ خیال کی ایک نئی دنیا میں پہنچ جاتا ہے، فاضل بریلویؒ کے ہاں جو فنی باریکیاں ہیں، اپنائیت کا جو ایک جہان آباد ہے، زبان کی جو لطافتیں ہیں، ان پہلوئوں پر اربابِ نقد و نظر کو یکسوئی سے برسوں کام کرنا ہوگا، معانی کا بیکراں سمندر قاری کے ذہن کو آغوشِ تفہیم میں لے لیتا ہے۔ سنجیدگی اور متانت کی فضا روح و دل پر محیط ہوجاتی ہے۔

فخر آقاؐ میں رضاؔ اور بھی اک نظم رفیع
چل لکھا لائیں ثنا خوانوں میں چہرہ تیرا

فاضل بریلویؒ کا آقائے مکرمؐ کے ثنا خوانوں میں کیا مقام ہے اس کا فیصلہ یقینا وقت دے چکا ہے، وقت کی عدالت کا فیصلہ کسی نام نہاد نقاد کی توثیق کا محتاج نہیں ہوا کرتا۔

تخیل کی بلند پروازی فاضل بریلویؒ کے نعتیہ آہنگ کا ایک اور وصفِ جمیل ہے، خیال حلقۂ احترام ہی میں دست بستہ دکھائی نہیں دیتا بلکہ ان کی ڈکشن کا ہر لفظ باوضو ہوکر ہونٹوں پر مدحتِ مصطفی کے گلاب سجاتا نظر آتا ہے۔ جذبات نگاری ان کی نعتیہ شاعری کے قصرِ تخلیق کا بنیادی پتھر ہے جس پر عظیم الشان نعت محل تعمیر کیا گیا ہے، شاعر کا کمال یہ ہے کہ ان کے جذبات حدِ اعتدال سے نہیں بڑھتے بلکہ سراسر تصویرِ عجز بن کر درِ حضورؐ پر سر جھکائے باریابی کے منتظر رہتے ہیں، جذبے بھی بارگاہِ نبوی میں آہستہ سانس لینے کا شعور رکھتے ہیں، فاضل بریلویؒ کے شعری وژن میں ادب و احترام کی چاندنی ہر طرف پرفشاں ہے۔

الہٰی! منتظر ہوں وہ خرامِ ناز فرمائیں،
بچھا رکھا ہے فرش آنکھوں نے کمخواب بصارت کا

شاعر امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ محبتِ رسولؐ تمنائوں کی فصیل پر کرنوں کے پھول سجاتی رہتی ہے۔ یقینِ کامل کے چراغ قدم قدم پر لو دے رہے ہیں، تاجدارِ عرب و عجمؐ کا دیوانہ اپنے گناہوں پر شرمسار ضرور ہے لیکن بے یقینی کی ایک شکن بھی اس کے ماتھے پر نمودار نہیں ہوتی، وہ کسی مرحلے پر بھی خوفزدہ نہیں ہوتا۔ گھبراہٹ نام کی کوئی چیز اس کے قریب نہیں پھٹکتی، اُسے یقین ہے کہ آقائے محتشمؐ کا دستِ عطا ہر وقت کھلا ہے۔

رضائے خستہ جوشِ بحرِ عصیاں سے نہ گھبرانا
کبھی تو ہاتھ آجائے گا دامن اُنؐ کی رحمت کا

اُنؐ کے دامانِ کرم ہی سے تو وابستگی کا نور ملتا ہے۔ شجر سے پیوستہ رہ کر ہی تو شامِ ہجر کا موسم کٹتا ہے۔ کیا بے ساختہ پن ہے۔ الفاظ کا جیسے نزول ہورہا ہے تصنع یا بناوٹ کا کہیں نام و نشان بھی نہیں، محبتِ رسول میں ملاوٹ اور ریاکاری کا تصور بھی کفر کی سرحدوں تک لے جاتا ہے، یہ بے ساختہ پن فاضل بریلویؒ کو منفرد لہجہ عطا کرتا ہے اور آوازوں کے جنگل میں ان کی آواز کو پہچاننے میں ذرا سی بھی مشکل پیش نہیں آتی، یہ وہ لہجہ ہے جو شاعر کے نعتیہ آہنگ کو حضوری کی لذتوں سے مخمور کرجاتا ہے۔ اس بے ساختہ پن کی ایک اور مثال دیکھئے۔

سائلو! دامن سخی کا تھام لو
کچھ نہ کچھ انعام ہو ہی جائے گا

زبان و بیان کی یہ نزاکت اپنی مثال آپ ہے، اعلیٰ حضرت کی سوچ کا ہر دائرہ آقائے مکرمؐ کی ذاتِ اقدس کے گرد مؤدت کے پھول سجاتا ہے۔

اعلیٰ حضرتؒ کے شعور نے جب آنکھ کھولی تو برطانوی استعمار اپنی پوری عسکری قوت کے ساتھ تاجِ دہلی پر مسلط ہوچکا تھا۔ جنگِ آزادی کا سارا نزلہ اسلامیان ہند پر گرا دیا گیا تھا۔ چانکہ کی اولاد اپنی روایتی بزدلی کا ثبوت دیتے ہوئے غیر ملکی حکمرانوں کے چرنوں میں بیٹھی ماتھا رگڑ رہی تھی۔ کفر و الحاد کی آندھیاں زور و شور سے چل رہی تھیں۔ ذہنوں میں ابہام و تشکیک کے کانٹے بوئے جارہے تھے، برہمنی سامراج اور برطانوی استعمار مسلمانانِ ہند کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے، نت نئے فتنوں کو ہوا دی جارہی تھی۔ فکری مغالطوں کا طومار باندھا جارہا تھا۔ برطانوی سرکار کی سرپرستی میں مشنری ادارے برصغیر کے طول و عرض میں غیر ملکی حکمرانوں کو اپنی تبلیغی سرگرمیوں کے حوالے سے تقویت پہنچارہے تھے۔رفاہِ عامہ کی آڑ میں اسلامیان ہند کے گرد گھیر اتنگ کیا جارہا تھا۔ خود مسلمانوں میں فرقہ واریت کو ہوا دی جارہی تھی۔ انگریز حکمران حضورؐ کی امت کو مزید خانوں میں تقسیم کررہے تھے، کانگریس الگ اپنی گود میں قوم پرست مہمانوں کو ’’پناہ‘‘ دے رہی تھی۔ اس اندوہناک صورت حال میں اور فکری بانجھ پن کے موسم ناروا میں مولانا حالیؒ بجا طور پر مکینِ گنبد خضرا کی بارگاہ میں مصروفِ التجا تھے، امت کا ہر شاعر حالیؒ کا احسان مند ہے کہ اس نے نعتیہ ادب کو اتنا عظیم شعر دیا:

اے خاصۂ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

اس شعر کے حوالے سے مولانا الطاف حسین حالیؔ نے نعت میں باقاعدہ استغاثے کی بنیاد رکھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اکیسویں صدی کے ابتدائی برسوں کی نعت بھی حالیؔ کے اس حصار التجا سے باہر نہیں آسکی اور نہ وہ اپنے اس اعزاز سے کبھی دستبردار ہونے کا تصور ہی کرسکے گی، آنے والی ہر صدی کی نعت حضورؐ کی بارگاہ میں استغاثہ پیش کرنے کے بعد آقائے محتشمؐ کی نظرِ کرم کی ملتجی رہے گی، فاضل بریلویؒ کی آواز ابھری۔

البحر علاء الموج طغیٰ من بیکس و طوفاں ہوش ربا
منجدھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا موری نیا پار لگا جانا

فاضل بریلویؒ کے ہاں استغاثے کا رنگ نمایاں ہے۔ اُن کی شاعری آج بھی درِ حضورؐ پر دامن پھیلائے امید کرم کے پھول کھلا رہی ہے۔ ان کی نعت کا ہر حوالہ حضورؐ کی ذاتِ اقدس سے شروع ہوکر حضورؐ کی ذاتِ اقدس پر ختم ہوجاتا ہے۔ پَر شکستہ لمحات میں نظریں سوئے مدینہ اٹھ جاتی ہیں اور شاعر جھولی پھیلا کر درِ اقدس پر دست بستہ کھڑا ہوجاتا ہے۔

نگاہِ کائنات اُس شہرِ خنک کے در و بام کا آج بھی طواف کررہی ہے جہاں گنبدِ خضرا اپنی تمام تر تابانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے، جہاں صبح و شام ملائکہ کا ہجوم رہتا ہے جہاں ہر روز سردارِ انبیاء کا دربار پُر انوار سجتا ہے جہاں ہوائیں درود پڑھتی ہیں اور خوشبوئیں سلاموں کے چراغ ہتھیلیوں پر لیے اُن مخمور راستوں پر زائرینِ مدینہ کی پذیرائی کے لیے کھڑی رہتی ہیں، عشاقِ مصطفی کو اپنے آقاؐ کے شہر بے مثال سے جدائی کا تصور بھی تڑپاتا رہتا ہے، فاضل بریلویؒ کی نعتیہ شاعری بھی مواجہہ شریف میں عرضِ تمنا کے پھول لیے تصویرِ ادب بن کر کھڑی ہے، کیا تڑپ سی تڑپ ہے۔

جان و دل ہوش و خرد سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا

ٹھوکریں کھاتے پھرو گے اُنؐ کے در پر پڑے رہو
قافلہ تو اے رضا اول گیا آخر گیا

مدینہ منورہ سے جدائی کا تصور بساطِ تاسف پر فراق و ہجر کے نئے نئے گل بوٹے بناتا ہے، حضوری کی کیفیتیں سمٹتی ہیں تو شاعر کا قلم خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔

مدینہ چھوڑ کر ویرانہ ہند کا چھایا
یہ کیسا ہائے حواسوں نے اختلال کیا

درِ حضورؐ سے جدا ہوتے وقت کشکولِ التجا آنسوئوں سے بھر جاتا ہے، فضا سسکیوں اور ہچکیوں سے معمور ہوجاتی ہے جیسے بال و پر نوچ کر دستِ قضائے شاعر کو ہجر کے قفس میں ڈال دیا ہو، جیسے فراق کے موسم نے ابھی سے اسے اپنی گرفت ناروا میں لے لیا ہو جیسے نہ ابھی شاعر نے روئے گل دیکھا، نہ ابھی بوئے گل سونگھی اور نہ ابھی چمن کی بہاریں لوٹیں کہ موسم خزاں نے آن لیا۔ اُس شہرِ بے مثال سے جدائی کا سانحہ شاعر برداشت نہیں کر پاتا، اُسے ہر طرف یاس و حسرت کے پھول کھلے دکھائی دیتے ہیں۔ شاعر اپنے معبودِ حقیقی کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر گڑ گڑانے لگتا ہے۔

الہٰی سن لے رضا جیتے جی کہ مولیٰ نے
سگانِ کوچہ میں چہرہ مرا بحال کیا

سگانِ کوچہ میں کسی کا چہرہ بحال ہوجائے تو اُس کے لبوں پر کلماتِ تشکر و امتنان کا ہجوم کیوں نہ امڈ آئے۔ سگانِ کوچہ یار میں اپنے چہرے کو دیکھنا کتنا بڑا اعزاز ہے اس کا اندازہ ظاہر بین لوگ لگا ہی نہیں سکتے، صرف لفظی ترجمہ کرکے دین کی روح کو سمجھنے والے احباب اس اعزاز کے ادراک سے بھی محروم رہتے ہیں۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ نبیٔ آخرالزماں کا اسم گرامی سن کر پلکوں پہ چراغ سے کیوں جلنے لگتے ہیں، آنکھوں میں ساون بھادوں کا موسم کیوں اتر آتا ہے، اعلیٰ حضرت کا یہ وہ اعزازِ لازوال ہے جسے اپنی تمام تر خوش عقیدگی کے باوجود بھی اُن سے نہیں چھینا جاسکتا۔ اعلیٰ حضرت کی فکر کے خود ساختہ شارحین اکثر اعلیٰ حضرت کو سگِ رسول ہونے کے اعزاز سے محروم کرکے اپنی سادگی اور لاعلمی کا مظاہرہ کر بیٹھتے ہیں۔ مثلاً اعلیٰ حضرت کا ایک شعر ہے:

کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضاؔ
تجھ سے کتّے ہزا پھرتے ہیں

لفظ کتّے کو ’کِتے‘ میں تبدیل کرکے سمجھا جاتا ہے کہ ہم نے اعلیٰ حضرت کے احترام کو ردائے تحفظ دی ہے حالانکہ سگِ درِ حضورؐ ہونا ہی اعلیٰ حضرت کا اعزاز ہے، اعلیٰ حضرت کے خود ساختہ ’’ہمدرد‘‘ انہیں اس اعزاز لازوال سے کیوں محروم کردینا چاہتے ہیں، کم از کم میری سمجھ میں یہ بات نہیں آسکی، یہ منطق بڑی عجیب ہے کہ اعلیٰ حضرت خود تو اپنی ذات کو سگانِ کوچہ اقدس میں شمار کرسکتے ہیں لیکن ہم احتراماً ایسا نہیں کرسکتے، یہ کیسی وفاداری ہے، یہ کیسی جان نثاری ہے، یہ کیسی وابستگی ہے؟ اعلیٰ حضرت کا سب کچھ تو اُن کے آقا و مولاؐ ہی ہیں، آئو سگان کوئے پیمبرؐ سے دوستی کا ہنر سیکھیں، آئو حضورؐ کی غلامی کا پٹکا اپنے گلے میں ڈال کر اور احترامِ رسولؐ کا عمامہ اپنے سروں پر سجا کر درِ حضورؐ پر شرفِ حاضری سے مشرف ہوں، یہی اعلیٰ حضرت کی شاعری کا مرکزی نقطہ ہے اور یہی ان کے علمی سفر کی معراج ہے، شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرلقادری جب حج یا عمرہ کے لیے تشریف لے جاتے ہیں تو منہاج القرآن کے اکثر طلبا لکھ کر انہیں اپنے جذبات سے آگاہ کرتے ہیں کہ جب آقائے مکرمؐ کی بارگاہِ بیکس پناہ میں حاضری کی سعادت حاصل ہو تو نام لے کر ہمارا سلام عرض کیجئے گا۔ ایک دفعہ ایک طالب علم نے پروفیسر صاحب کو کاغذ کے ایک پرزے پر لکھ کر دیا کہ جب مقدر جاگے شہر حضورؐ میں داخلے کا اعزاز ملے تو اِدھر اُدھر نظر دوڑایئے گا، اگر کوئی کتا حضورؐ کی گلیوں میں پھرتا نظر آجائے تو اُسے میرا نام لے کر پکار لیجئے گا، شمع رسالت کے پروانو! اس معصوم آرزو کی عملی تفسیر بن جائو، سگانِ کوچہ مصطفیؐ میں اپنا چہرہ بحال کرالو۔

عہدِ رسالت مآبؐ کے شعرا نے نعت سے دفاعِ رسول کا کام بھی لیا ہے بلکہ صحابہؓ کی نعت کا مقصدِ وحید ہی دفاع رسول ہے۔ بالواسطہ اور بلاواسطہ بھی، یہود و نصاریٰ، کفار و مشرکین اور جزیرۃ العرب کی تمام اسلام دشمن قوتیں اسلام اور پیغمبر اسلام کا راستہ روکنے کے لیے اپنے تمام مادی وسائل کے ساتھ صف آراء ہورہی تھیں، شعرائے دربارِ مصطفی ؐ نے دشمنانِ اسلام کی مذمت میں بھی اشعار کہے اور ان کے بے بنیاد مخالفانہ پروپیگنڈے کی شعری سطح پر بھرپور تردید کی۔ فاضل بریلویؒ بھی دفاعِ مصطفیؐ میں سینہ سپر ہوجاتے ہیں اور حضورؐ کے دشمنوں پر برقِ رعد بن کر گرتے ہیں، کسی مصلحت کو پائوں کی زنجیر نہیں بننے دیتے اس لیے کہ پارۂ نان کو اپنا دین نہیں سمجھتے، شاہانِ وقت کے در پر جبیں سائی ان کے مسلکِ عشق میں سرے سے شامل ہی نہیں۔

اف رے منکر یہ بڑھا جوشِ تعصب آخر
بھیڑ میں ہاتھ سے کم بخت کے ایمان گیا

منکرینِ نبیٔ آخرالزماںؐ روزِ محشر کس منہ سے شفاعتِ حضورؐ کے طلب گار ہوں گے، قیامت کا دن رسولِ اول و آخرؐ کے اختیارات کے عملی نفاذ کا دن ہے، یہ دن تاجدارِ کائناتؐ کی عظمتوں اور رفعتوں کے ظہور کا دن ہے۔ فاضل بریلویؒ کی نعتیہ شاعری کا ایک ایک لفظ باوضو ہوکر ثنائے حبیبِ کبریا میں مصروف ہے۔ آنسوئوں کے کتنے ہی قلزم درِ اقدس پر بہہ رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ فاضل بریلویؒ منکرینِ شان رسالت کے لیے شمشیر بے نیام ہیں، وہ کبھی مقام رسالت کا تحفظ کرتے دکھائی دیتے ہیں کبھی اختیارات مصطفی کے مخالفین کے ساتھ پنجہ آزمائی کرتے نظر آتے ہیں، کبھی ختم نبوت کے ڈاکوئوں کی سرکوبی کے لیے سربکف نکلتے ہیں اور کبھی تصرفاتِ حضورؐ کے منکرین کے خلاف صف آرائی کرتے ہیں۔ عقائد کی واضحیت نے ان کے شعری سفر کو آئینوں کی طرح شفاف بنادیا ہے، منافقت اور ریاکاری کے پرندوں کو ان کی اقلیم سخن میں پر مارنے کی بھی اجازت نہیں، منکرین رسول بھول جاتے ہیں کہ آقا علیہ السلام کے سرِ اقدس پر ہی تاجِ لولاک سجایا گیا ہے، یہ کائناتِ رنگ و بو صدقہ ہے حضورؐ کے قدموں کا، فاضل بریلویؒ فرماتے ہیں:

محمدؐ برائے جناب الہٰی
جنابِ الہٰی برائے محمدؐ

اجابت نے جھک کر گلے سے لگایا
پڑھی ناز سے جب دعائے محمدؐ

خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمدؐ

فاضل بریلویؒ کا یہ نعتیہ آہنگ جدید اردو نعت کو بھی کئی حوالوں سے سندِ جواز عطا کرتا ہے۔ روایت کا تسلسل برقرار نہ رہے تو فنی ارتقا بھی رک جاتا ہے اور تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ سا لگ جاتا ہے، جدید اردو نعت بھی اپنے روشن ماضی کی امین و پاسدار اور وارث ہے۔ فاضل بریلویؒ کی تخلیق اور فنی نمود کا ذائقہ اکیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں کہی جانے والی نعت میں بھی دیکھا جاسکتا ہے، ’’مصطفی جان رحمت‘‘ کی شگفتگی اور تازگی آج بھی جوں کی توں برقرار ہے۔ اس عظیم سلام پر فرسودگی اور بوسیدگی کا سایہ بھی نہیں پڑنے پایا۔ آج سے کوئی چالیس سال قبل جناح ہال سیالکوٹ میں بچوں کی ایک تقریب کے دوران شمس حیدر کے ایک سوال کے جواب میں مَیں نے کہا تھا کہ مجھے اپنے آباء سے وراثت میں دو چیزیں ملی ہیں، ایک حبِ رسولؐاور دوسری پاکستان کے ذرے ذرے سے محبت، یہی دو محبتیں میری پہچان ہیں یہی دو محبتیں میری شناخت ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ کا سلام’’ مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ اور پاکستان کا قومی ترانہ سنتے سنتے عمر رواں بیت جائے، حاضرین پر اس جواب کا یقینا خوشگوار اثر مرتب ہوا تھا۔

جدید اردو نعت کا کینویس وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے، مضامینِ نو کا ایک سیلِ بیکراں ہے جو نعت کے بحر توصیف میں موجزن ہے، بعض لوگ نعت کو جدید و قدیم کے حوالے سے نہیں دیکھتے مثلاً میرے عزیز دوست سید آفتاب احمد نقوی شہید کا موقف یہ تھا کہ نعت نعت ہوتی ہے اسے جدید و قدیم کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ مَیں ڈاکٹر شہید سے کہا کرتا تھا کہ یقینا نعت نعت ہی ہوتی ہے اور اسے نعت ہی ہونا چاہیے لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ شاعر اپنے گردو پیش سے آنکھیں بند کرے، ادبِ عالیہ کے پس منظر میں اپنے عہد کی تاریخ ہی نہیں جغرافیہ بھی دکھائی دیتا ہے، جمالیاتی قدروں کی پاسداری کا معاملہ الگ ہے، کیا حفیظ تائب کی نعت اپنے ڈکشن، مضامین، سوچ اور اظہار کے حوالے سے فاضل بریلویؒ کی نعت سے مختلف نہیں؟ کیا دو صدیاں گذر جانے کے بعد ذہنی اور فکری سطح پر کوئی تبدیلی بھی رونما نہیں ہوئی؟ کیا شعر کا ثقافتی منظر نامہ قدموں کی شکست و ریخت کا عینی شاہد نہیں؟ اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں نہیں اور یقینا نفی میں نہیں تو پھر قدیم و جدید کی تقسیم بھی بالکل جائز ہے اور فطری تقاضوں سے ہم آہنگ ہے، اگر آج فاضل بریلویؒ زندہ ہوتے تو ان کی نعت عصر نو کے تمام مسائل ومصائب کا بھی ضرور احاطہ کرتی، ان کی نعت یقینا کئی حوالوں سے حدائق بخشش میں درج نعتیہ کلام سے مختلف ہوتی، زمانی اور مکانی فاصلے فن کے ارتقائی مراحل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، ان کے حیطۂ اثر کا انکار ممکن ہی نہیں، کرامت علی شہیدی، محسن کاکوروی، علامہ اقبال، احسان دانش، حفیظ جالندھری، احمد ندیم قاسمی، حافظ مظہرالدین، عبدالعزیز خالد، ابوالخیر شفی، عاصی کرنالی، خالد احمد، اقبال کوثر، راجا رشید محمود، ریاض مجید اور صبیح رحمانی کی نعت میں ثقافتی، تہذیبی، مجلسی، عمرانی، فکری اور عصری حوالوں سے کچھ تو فرق ہوگا، فن کوئی جامد شے تو نہیں۔

حضرت علیؓ کے ایک قول کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ اپنے بچوں کو وہ تعلیم نہ دو جو تم نے حاصل کی تھی اس لیے کہ تمہارا زمانہ اور تھا اور تمہارے بچوں کا زمانہ اور ہے۔ یہ ترقی پسندانہ رویہ تو آج کا کوئی ’’روشن خیال‘‘ مفکر بھی پیش کرنے کی کم کم ہی جرأت کرسکے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ کوئی تخلیق کار بھی اپنے عہد کے اجتماعی رویوں کو نظر انداز کرکے تخلیقِ حسن کے تخلیقی عمل سے نہیں گذر سکتا، یہی حال فاضل بریلویؒ کی نعتیہ شاعری کا بھی ہے۔ اپنا اور اپنے عہد کا حوالہ دیتے وقت وہ خواہ مخواہ احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہوتے بلکہ ایک بڑے تخلیق کار کی طرح وقت کا ہر چیلنج قبول کرتے ہیں، قدم قدم پر اعتماد کے چراغ روشن کرتے دکھائی دیتے ہیں، کسی مرحلہ پر بھی ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آنے پائی، معذرت خواہانہ لہجہ اختیار کرنا ان کی سرشت ہی میں شامل نہیں۔

آج کا نعت نگار حضورؐ کی ذاتِ اقدس کے حوالے سے اپنی اور اپنے عہد کی پہچان کا آرزو مند ہے۔ کبھی وہ اپنے ذاتی دکھوں کے حوالے سے آقائے رحیم و کریم کے درِ عطا پر پلکوں سے دستک دیتا ہے اور کبھی اپنے عہد کے اجتماعی مسائل کے حوالے سے نبیٔ رحمت کی بارگاہِ بے کس پناہ میں عرض گزارتا ہے۔

اس لیے جدید اردو نعت شاعر کی اپنی ذات کے کئی حوالوں سے اعتماد و اعتبار کے نئے مفاہیم کی آئینہ دار بن گئی ہے۔ بعض لوگ اس پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں کہ نعت تو حضوؐر کی توصیف و ثنا کا نام ہے اس میں شاعر کی ’’مَیں‘‘ کہاں سے آگئی۔ اس اعتراض کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ مسائل و مصائب کی آگ میں جلتا ہوا انسان شہرِ خنک کی شاداب ہوائوں کا دامن نہیں ڈھونڈے گا تو اور کیا کرے گا؟ وہ کشکولِ آرزو میں حروفِ التجا سجا کر اپنے سخی کے در پر صدا نہیں لگائے گا تو اور کہاں جائے گا کہ اللہ تک رسائی کا ہر راستہ بھی تو دہلیز مصطفی کو چوم کر آگے بڑھتا ہے، شہرِ حضورؐ میں چھوٹے سے گھر کی تمنا بھی اسی سلسلے کی ایک دلآویز کڑی ہے اس نکتے کی مزید وضاحت بھی کی جاسکتی ہے لیکن طوالت کا خوف دامن گیر ہے، خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ فاضل بریلویؒ کے نعتیہ وژن میں بھی اپنی ذات کا حوالہ بڑے بھرپور انداز میں آیا ہے اور یہ حوالہ انتہائی عجز و انکساری سے جمالیاتی قدروں کی پاسداری کے منصبِ جلیلہ پر رونق افروز نظر آتا ہے۔

ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکّے بٹھا دیئے ہیں

مَیں یادِ شہ میں رو دوں عناول کریں ہجوم
ہر اشکِ لالہ فام پہ ہو احتمالِ گل

مفت پالا تھا کبھی کام کی عادت نہ پڑی
اب عمل پوچھتے ہیں، ہائے نکمّا تیرا

کرم نعت کے نزدیک تو کچھ دور نہیں
کہ رضائے عجمی ہو سگِ حسانِ عرب

مانا کہ سخت مجرم و ناکارہ ہے رضا
تیرا ہی تو ہے بندۂ درگاہ بے خبر

انسان انفرادی اور اجتماعی دونوں حوالوں سے رحمتِ حضورؐ کا متلاشی اور طلبگار ہے، ان حوالوں کا ہر زاویہ جدید اردو نعت میں ضرور آئے گا، یہ نعت کے فنی ارتقاء کا تقاضا بھی ہے، تیزی سے بدلتے ہوئے ثقافتی اور مجلسی پس منظر کی بنیادی ضرورت بھی ہے۔ یہ ’’میں‘‘ کوئی شجر ممنوعہ نہیں، پیغمبرؐ اور امتی کے درمیان ایک مجلسی رابطہ ہے، پروانے شمع پر نہیں گریں گے تو اور کہاں جائیں گے؟ ہر عہد کی نعت کسی نہ کسی حوالے سے ذاتی اور اجتماعی دکھوں کے اظہار کا وسیلہ بنتی رہتی ہے، امت مسلمہ جس قدر وقت کے دبائو کا شکار ہوگی یہ حوالہ اتنی ہی شدت کے ساتھ ابھرے گا کیونکہ مکینِ گنبدِ خضرا سے رشتہ غلامی از سر نو استوار کئے بغیر ہمیں کہیں اور جائے پناہ نہیں مل سکتی، فاضل بریلویؒ کی نعت بھی اسی حوالے کے فطری بہائو سے اغماض نہیں برتتی۔

جب تخلیق کے سوتے خشک ہونے لگتے ہیں، جب ذوقِ شعر غمِ روزگار کی گرفت میں آکر سسکنے لگتا ہے اور جب آنکھیں آنسوئوں سے لبریز ہونے کے اعزاز سے محروم ہونے لگتی ہیں تو مَیں ’’حدائق بخشش‘‘ کے چشمۂ آبِ حیات سے روح کی تشنگی کا مداوا کرتا ہوں۔

کس کے جلوہ کی جھلک ہے اجالا کیا ہے
ہر طرف دیدۂ حیرت زدہ تکتا کیا ہے

جوں جوں آگے بڑھتا ہوں، قفلِ جمود ٹوٹنے لگتے ہیں... حشر کا دن ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے، ایک شخص فرشتوں کے گھیرے میں ہے، وہ مڑ مڑ کر کسی کی راہ دیکھ رہا ہے، کسی کے نام کی دہائی دے رہا ہے، ادھر سے شافعِ محشر حضورؐ رحمتِ عالمؐ کا گذر ہوتا ہے، نبیٔ رحمتؐ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں کہ یہ شور کیسا ہے؟ کون مصیبت میں گرفتار ہے، فرشتے عرض کرتے ہیں یارسول اللہ، ایک مجرم ہے آپؐ کے نام کی دہائی دے رہا ہے، حضور رحمتِ عالمؐ فرماتے ہیں چلو چل کر دیکھتے ہیں کیا ماجرا ہے؟ یہاں فاضل بریلویؒ کا قلم ورق پر روشن ستارے رقم کرنے لگتا ہے۔

کس کو تم موردِ آفات کیا چاہتے ہو
ہم بھی تو آکے ذرا دیکھیں تماشا کیا ہے

اُنؐ کی آواز پہ کر اٹھوں میں بے ساختہ شور
اور تڑپ کر یہ کہوں اب مجھے پروا کیا ہے

فرشتو! خبردار مجھے اب ہاتھ نہ لگانا، وہ دیکھو! میرے حامی، غم خوار آقاؐ تشریف لارہے ہیں۔ اس موقع پر بے ساختہ پیر نصیرالدین نصیر کا یہ مصرہ ہونٹوں پر مچل اٹھتا ہے۔

دیکھے تو مجھ کو نارِ جہنم لگا کے ہاتھ

اور اعلیٰ حضرت کے شہرہ آفاق سلام کا یہ شعر کتابِ تفہیم کے نئے ورق الٹنے لگتا ہے۔

ایک میرا ہی رحمت پہ دعویٰ نہیں
شاہ کی ساری امت پہ لاکھوں سلام

آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں کشتِ دیدہ و دل میں بادِ بہاری چلنے لگتی ہے، ہونٹوں پر اسمِ محمدؐ کے گلاب رتجگوں کا موسم سمیٹ لیتے ہیں اور شہر سخن کے بند دروازے خود بخود کھلنے لگتے ہیں، ایک عرصہ تک میں سمجھتا رہا کہ یہ اشعار فاضل بریلویؒ کے تخیل کا تمثیلی روپ ہیں لیکن ایک دن اس مضمون کی حدیث میری نظر سے گذری تو میں چونک پڑا۔ فاضل بریلویؒ قرآن و سنت سے استدلال کرتے وقت کس احتیاط سے کام لیا کرتے تھے، واقعی نعت کہنا دو دھاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہے، اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلویؒ جیسے محتاط لوگ ہی اونٹوں پر کجاوے ڈالنے کا حق رکھتے ہیں، ملکِ سخن کی شاہی انہی پر ختم ہوتی ہے۔ فاضل بریلویؒ کی نعت کے ان گنت رنگ لمحۂ موجود کی فضائے نعت میں بھی آباد ہیں، خیمۂ شعر کی طنابیں زمین ہی نہیں آسمان میں بھی پیوست ہیں، ثنائے حضورؐ کو حرفِ زوال سے آشنا ہی نہیں ہونے دیا گیا۔

تخیل کی بلند پروازی، جذبات واقعات نگاری اور وارداتِ قلبی کی پیکر تراشی کے عناصر فاضل بریلویؒ کے نعتیہ کلام کو انفرادیت کا رنگ عطا کرتے ہیں، ندرتِ بیان نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے۔ نکتہ آفرینی سے اثر پذیری تک خودسپردگی کے ان گنت مناظر تخلیق ہوتے نظر آتے ہیں منظر کشی اس قدر مکمل ہے کہ جزئیات تک روزِ روشن کی طرح روشن ہیں۔

سرکارؐ ہم کمینوں کے اطوار پر نہ جائیں
آقا حضورؐ اپنے کرم پر نظر کریں

اللہ کیا جہنم اب بھی نہ سرد ہوگا!
رو رو کے مصطفی نے دریا بہا دیئے ہیں

وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں

جس کے تلووں کا دھوون ہے آبِ حیات
ہے وہ جانِ مسیحا ہمارا نبیؐ

لے رضاؔ سب چلے مدینے کو
مَیں نہ جائوں ارے خدا نہ کرے

لیکن رضاؔ نے ختم سخن اس پہ کر دیا
خالق کا بندہ خلق کا آقاؐ کہوں تجھے

خوف نہ رکھ رضا ذرا تو، تو ہے عبدِ مصطفی
تیرے لیے امان ہے، تیرے لیے امان ہے

کریم اپنے کرم کا صدقہ لئیم بے قدر کو نہ شرما
تو اور رضا سے حساب لینا رضا بھی کوئی حساب میں ہے

مَیں اک محتاج بے وقعت گدا تیرے سگِ در کا
تری سرکار والا ہے ترا دربار عالی ہے

شفاعت کرے حشر میں جو رضاؔ کی
سوا تیرے کس کو یہ قدرت ملی ہے

قرآن سے مَیں نے نعت گوئی سیکھی
یعنی رہے احکام شریعت ملحوظ

زمینی حقائق کا ادراک نہ ہو تو آسمانی حقائق کا شعور بھی حاصل نہیں ہوتا، فاضل بریلویؒ کی نعت کا ایک ایک شعر کیفِ سرمدی کے آبِ مقدس میں ڈوبا ہوا ہے، وادیٔ تخیل میں بادِ بہاری نہ چلے تو شعر نہیں ہوتا، فاضل بریلویؒ کے چمن زارِ نعت میں یہ باد بہاری مسلسل چل رہی ہے، عوامی سطح پر جو عظیم الشان پذیرائی ان کے نعتیہ کلام کو ملی ہے وہ کسی اور کے حصہ میں نہیں آئی۔ اسلوب اتنا دلکش کہ حرف حرف لو دے رہا ہے۔ برجستگی کہ اپنے نقطۂ کمال کو چھو رہی ہے، زبان و بیان کی نزاکتوں کا کیا کہنا، الفاظ کا چنائو بہت ہی سوچ سمجھ کر کرتے ہیں، آپ نے سچ مچ قریۂ نعت میں فصاحت و بلاغت کے دریا بہادیئے ہیں، زبان و بیان کی باریکیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ سلاست، روانی اور اثر پذیری عوامی سطح پر قبول عام کی سند سے سرفراز ہورہی ہے۔

فاضل بریلویؒ کے ہاں محاورات کا استعمال مثالی ہے۔ مفاہیم کی ایک نئی دنیا آباد ہے، تراکیب کی بندش اپنی مثال آپ ہے۔ ندرتِ فکر کے کیا کہنے، اردو غزل کی ایمائیت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ کلام رضا میں جلوہ گر ہے، اپنی تمام تر نازک خیالی کے باوجود ادب و احترام کا دامن کہیں بھی ہاتھ سے چھوٹنے نہیں پایا۔ فاضل بریلویؒ نے شعوری اور لاشعوری دونوں سطحوں پر بارگاہِ رسالت مآبؐ میں تصویر ادب بن جانے کی روایت کو زندہ رکھا ہے بلکہ ادب و احترام کے حصار میں غزل کے رچائو اور بہائو کو مقید کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے، فاضل بریلویؒ نے ہر مرحلہ پر اپنے اس نقطۂ نظر کی پاسداری کی ہے کہ نعتِ حضورؐ لکھنا نہایت مشکل ہے لیکن نعت گوئی کو آسان سمجھ لیا گیا ہے، نعت کہنا دو دھاری تلوار پر چلنا ہے اگر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہنچ جاتا ہے اگر کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے، مختصر یہ کہ فاضل بریلویؒ کی نعتیہ شاعری تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے، آپ کا نعتیہ مجموعہ کلام حدائق بخشش 1325ھ ہجری میں شائع ہوا تھا۔ ایک صدی گذر جانے کے بعد بھی فاضل بریلویؒ کے ذخیرۂ شعر سے اکتسابِ شعور کرکے اس تازگی اور شادابی کو لمحاتِ جبر کی گرفت سے محفوظ رکھا جائے گا۔ آنے والی ہر صدی نعت کی صدی ہے تو نعت کے حوالے سے یہ فاضل بریلویؒ کی بھی صدی ہے کہ ان کی قضائے شعر میں موسمِ ناروا کی گرم ہوائوں کا چلنا ممکن ہی نہیں یہاں دائماً گنبدِ خضرا کی ہریالی خیمہ زن ہے۔