ریاض حسین چودھریؒ کی تحریر کا ایک اقتباس- نعت کے تخلیقی زاویے

’’زرِ معتبر‘‘ میں(1985ء میں) درِ اقدس ﷺ کی حاضری تک کا کلام شامل ہے۔ کلماتِ تشکر و امتنان استاذ مکرم حضرت آسی ضیائی کے لیے جنہوں نے ہاتھ پکڑ کر مجھے لکھنا سکھایا، ہر قدم پر میری اصلاح ہی نہیں رہنمائی بھی کی۔ اِس صحیفۂ نعت میں شامل تقریباً سبھی نعتیں مواجہ شریف میں کھڑے ہو کر سردارِ کائنات کی خدمتِ اقدس میں پیش کرنے کی لازوال سعادت حاصل ہوئی۔ فارسی، اردو، پنجابی کے تقریباً ساڑھے تین سو شعرا کا ایک ایک نعتیہ شعر بھی ڈائری میں لکھ رکھا تھا جنہیں بارگاہِ نبی رحمت ﷺ میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی اور یہ تھی میری برستی آنکھوں کی لرزتی التجا:

’’ حضور ﷺ مطلع عرض کیا ہے، آقا ﷺ یہ شعر دیکھئے، مولاؐ مقطع ملاحظہ فرمائیے۔ یارسول اللہ! یہ ہمارے احمد ندیم قاسمی ہیں، انہوں نے آپ ﷺ کی بارگاہِ بیکس پناہ میں یہ شعر نذر کیا ہے، حضور ﷺ قبول فرمائیے، یہ ہمارے حفیظ تائب ہیں ان کا یہ شعر سماعت فرمائیے اور انہیں ردائے شفا عطا کیجئے....

آقا ﷺ میرے گھر کا بچہ بچہ سلام عرض کر رہا تھا، ننھے مُنے بچے دونوں ہاتھ اٹھا کر سلام کہتے تھے۔ حضور ﷺ سب کنیزیں دست بستہ کھڑی تھیں، سرکار ﷺ ، میرا پاکستان آپ کے غلاموں کا حصارِ آہنی ہے، حضور ﷺ اغیار نے اس کا مشرقی بازو کاٹ لیا ہے۔ آقاؐ میرے وطن پر کرم اور مسلسل کرم، آقاؐ میرے وطن کی ہواؤں کا سلام قبول کیجئے۔‘‘

ایک غلام اپنے آقا ﷺ کی بارگاہ میں سرجھکائے مجرموں کی طرح کھڑا تھا، ستونوں کے پیچھے چھپ رہا تھا، آنسوؤں، ہچکیوں اور سسکیوں کی زبان میں اپنے حضور ﷺ سے نجانے کیا کچھ عرض کرتا رہا اور نجانے کیا کچھ کہتا رہے گا... ایک عجیب سی تمنا دل میں مچلتی رہتی ہے کہ مرنے کے بعد بھی سپاس گذاری کا یہ سلسلہ جاری رہے اور حشر کے دن جب ہجومِ تشنہ لباں میں مَیں بھی گُم صُم کھڑا ہوں تو حضور ؐفرمائیں کہ آؤ ریاض آج بھی کوئی نعت سناؤ اور میں بڑھ کر اپنے آقا ﷺ کے قدموں کو تھام لوں۔

ریاض حسین چودھریؒ
23 جنوری، 1995ء، لاہور