اِس سیاست کو نہیں اپنی، ریاست کو بچا- ارض دعا

آج بھی تاریخ سے میرا ہے یہ پہلا سوال
ہر لٹیرے کی حکومت کس کی پیداوارہے
ہر اذیت ناک لمحے کو دیا کس نے جہنم
کس مہاجن کی تجوری کا سیاست قفل ہے
آمریت کس قلمزد کا ہے دستورِ حیات
نام کی جمہوریت یہ کس کا ہے ذہنی فتور
(گندگی ساری ہے اُس بازار کی بہتی ہوئی)
کون کرتا ہے اندھیروں کی ہمیشہ پرورش
قصرِ شاہی کی ہے بنیادوں میں کس کس کا لہو
کون مجرم ہے رعایا کی شبِ بے نور کا
عدل کے پرچم کو کس نے نذرِ آتش ہے کیا
کس نے بخشے ہیں کرپشن کو بھی بنیادی حقوق
زنگ آلودہ ہے کس کی فکر کا اندھا نصاب
کس نے نیلامی میں بیچے ہیں بزرگوں کے کفن
چھین لی کس نے ضمیروں سے خلش کی روشنی
کس نے ہر ڈاکو کو تخت و تاج کا وارث کہا
کس کے احسانات کا ممنون ہے شر کا نظام
یہ نظامِ بد بڑے لوگوں کا ہے ’’پروردگار‘‘
(ہر قدم پر روشنی کا راستہ روکا گیا)
آدمی کو خود فریبی پر ہے اکسایا بہت
کس نے اپنے ہاتھ سے بنیاد رکھی ظلم کی
ہر غلط حرف و قلم کی کس نے ہے توثیق کی
فتنہ و شر کی زباں کو معتبر کس نے کیا
کس نے تہذیب و تمدن کو بنایا یرغمال
کس نے بد عنوانیوں کو دی سند اخلاص کی
کون سرمایہ پرستی کا سبق دیتا رہا
کس نے ہے چلتی ہواؤں کو بھی ساکت کردیا
کس نے انساں کے تمدن کا نچوڑا ہے لہو
کس نے دی ہے ہر وڈیرے کو تحفظ کی ردا
پرورش غنڈوں کی کرتا ہے یہ ابلیسی نظام
ڈگڈگی کس نے بجائی ہے خوشامد کی یہاں
کس نے بولی میں خریدا ہے ضمیر انسان کا
کس نے غیرت کے جنازے کو سدا کندھا دیا
کس نے چھینا ہے بشر سے آگہی کا بانکپن
کس نے لوٹا رات دن قومی خزانے کو، بتا؟
کس نے انسانوں کے اندر کی بجھا دیں شعلیں
کس نے تبدیلی کا ہر رستہ مقفل کردیا
کس نے اندر کی کثافت کو دیا شب میں فروغ
کس نے روٹی چھین لی مزدور کی اولاد سے
کس نے ابلیسی نظاموں کو نئی دیوار دی
غیرتِ ملّی کو کس نے دفن کر ڈالا یہاں
کس نے انساں کو بکاؤ مال کا بخشا لقب
کس نے بنیادِ سحر رکھنے کا سوچا بھی نہیں
سر بَرہنہ ماں کا بھی کس نے اڑایا ہے مذاق
’’رہنما‘‘ کو بربریت کا سبق کس نے دیا

اپنے ماتھے کا پسینہ پونچھ کر تاریخ نے
سر جھکایا اور کہا خود سے بھی شرماتے ہوئے
میرے کچھ اوراق پر شر کی کہانی درج ہے
یہ فرنگی طاقتوں کا ہے نیا دامِ فریب
انتخابی یہ نظامِ شر ہے دھوکے کی دکاں
انتخابی یہ عمل ہے زہرِ قاتل کی طرح
فتنہ و شر اِس کی کالی کوکھ کی تاریکیاں
اِس نظامِ شر نے لوٹی ہے متاعِ زندگی
انتخابی حلقہ بندی بھی وراثت میں ریاضؔ
منتقل ہوتی ہے منقولہ اثاثوں کی طرح
یہ جو دکھلاوے کی ہے جمہوریت اس کو سلام
یہ سیاست ہے کہاں یہ تو خباثت ہے، جہاں
رونمائی خارشی چہروں کی ہوتی ہے سدا
یہ سیاست ہے جہالت کے بدن کا پیرہن،
کب تلک ہم پر مسلط ہی رہے گی تیرگی
آئنوں میں عکس ہیں مکروہ چہروں کے بہت
اِس سیاست کو نہیں اپنی ریاست کو بچا
یہ سیاست تو غلاظت کے سوا کچھ بھی نہیں
اس نظامِ شر سے دامن کو چھڑانا چاہیے
اپنی قبریں کھودتے رہنا نہیں ہم کو قبول
عِلم کے دشمن وڈیروں کو نہ دیں جائے پناہ
اِن لٹیروں کو خدا حافظ کہیں اہلِ وطن
اس نظام شر کی بنیادیں اکھاڑو دوستو!
اس کے زہریلے اثر کا ایک ہی تریاق ہے
دین کی رسی کو مضبوطی سے مل کر تھام لیں
دوستی خلدِ مدینہ کی ہواؤں سے کریں
ہر طرف اُس کی الوہیت کے ہوں روشن چراغ
ہر طرف اُس کی ربوبیت کے ہوں پرچم بلند

انتخابی یہ عمل شیطاں کی ہے سازش جدید
کب تلک لپٹا رہے جسموں سے افرنگی نظام
کب تلک زندہ رہیں باطل کی فرسودہ رسوم
لازمی ہے اس نظامِ شر سے ہو حاصل نجات
ہر کسی کے ہاتھ میں دے دو بغاوت کا علَم
اِس نظامِ شر کو کردیں مسترد اہلِ وطن
خاکِ پا میں دفن کردیں اس کے مردہ جسم کو
یہ نظامِ شر نگوں ہوں امن کی دہلیز پر
روشنی کے سارے دروازوں کو آؤ کھول دیں
(روشنی سرکارؐ کے نوری گھرانے کی کنیز)

توڑ دیں جعلی چناؤ کی یہ دیوارِ کہن
سانس لیں تازہ ہواؤں میں مرے اہلِ وطن