آہ، آفتاب احمد نقوی- ارض دعا

سر تا قدم وہ حسنِ عمل کا نصاب تھا
بوئے خلوص کا بھی امڈتا سحاب تھا

لکھّا گیا ہے کلکِ مصّور سے اوج میں
وہ آفتابِ عشقِ رسالت مآب تھا

مانندِ برگِ سبز تھا شاخِ وجود پر
باغِ جہاں کا اک ترو تازہ گلاب تھا

مڑ مڑ کے دیکھتا مَیں رہا دور تک اُسے
جیسے سفر میں آج بھی وہ ہمرکاب تھا

مَیں نے پڑھا ہے اُس کو بڑے احترام سے
میری کتابِ دل کا درخشندہ باب تھا

ہر اک قدم پہ آئنے رکھتا گیا ہے وہ
ثابت ہوا وہ آبِ بقا کا حباب تھا

دھندلا سکے گی موت کب اُس کے جمال کو
نقویؔ، ریاضؔ، لوح و قلم کا شباب تھا