آداب شہرِ مدحت میں جانتا نہیں ہوں- روشنی یا نبی ﷺ (2018)

آقا ﷺ طلب کیا ہے مجھ جیسے بے ہنر کو
اب اپنے بے ہنر کو کوئی ہنر عطا ہو
آقا حضور ﷺ میری چھوٹی سی آرزو ہے
ہر وقت میری چشمِ پُرنم میں رتجگا ہو

آدابِ شہرِ مدحت میں جانتا نہیں ہوں
آقا ﷺ ملے مجھے بھی قندیل آگہی کی
شہرِ ادب میں آکر خوش بخت، ہمصفیرو!
جس سمت میں نے دیکھا اُس سمت روشنی تھی

سرکار کی گلی میں مَیں اجنبی نہیں ہوں
دیوار و در سے میری بھی گفتگو ہوئی ہے
میں ملتمس کھڑا ہوں دربارِ مصطفیٰ ﷺ میں
اندر بھی روشنی ہے، باہر بھی روشنی ہے
خوشبوئیں کہہ رہیں ہیں آہستہ چل مسافر
یہ شہرِ مصطفیٰ ﷺ ہے یہ جائے التجا ہے
ہر ذرّہ اس نگر کا احرام میں سمٹ کر
اپنی زباں میں گویا اک نعت کہہ رہا ہے

زرتاب ساعتوں کی اتری ہوئی ہے رم جھم
رحمت کے بادلوں کے ہاتھوں میں چھاگلیں ہیں
تشنہ زمیں بدن کی جل تھل ہوئی ہے آقا ﷺ
دلکش ہیں سب مناظر، گلیوں میں رونقیں ہیں

بچے حضور ﷺ میرے رو رو کے کہہ رہے تھے
آقا ﷺ سے حوریہ کا جا کر سلام کہنا
کہنا کہ چھت بھی سر پر آقا ﷺ نہیں ہمارے
ابو! یہ التجا ہے، ہر صبح و شام کہنا
؎
بے حد کرم ہوا ہے مجھ بے نوا پہ آقا ﷺ
خوش بختیوں کا ہر سو میلہ لگا ہوا ہے
قرب و جوارِ دل میں رحمت برس رہی ہے
اک تخت روشنی کا اندر بچھا ہوا ہے
مٹنے لگی ہے، آقا ﷺ ارضِ دعا کی پہچاں
بجھنے لگی ہے میری بستی کی روشنی بھی
جھوٹے مفاد کب تک پیچھا کریں گے اپنا
تسبیح ہاتھ میں لے اندر کی سر کشی بھی

آقا حضور ﷺ عیدی میں مانگنے ہوں آیا
جھولی بھی میری خالی، کشکول بھی ہے خالی
کامل مجھے یقیں ہے سب کچھ مجھے ملے گا
دامن تہی گیا ہے اس در سے کب سوالی