اب کے برس بھی نعت کے گلشن کھلے رہے- روشنی یا نبی ﷺ (2018)

1
اب کے برس بھی آج کا انسان پھر حضور ﷺ
جلتا رہا ہے زندہ مسائل کے درمیاں
لوحِ خیال آتشِ گریہ میں جل گئی
ٹُوٹا کچھ ایسا اس پہ مصائب کا آسماں

2
آقا ﷺ حصارِ خوف کے اندر رہے غلام
امت غبارِ شب میں مکاں ڈھونڈتی رہی
اب کے برس بھی جبر کا سکہ رواں رہا
امت، ہدف، حضور ﷺ خزاں کا بنی رہی

3
لکھا یزیدِ وقت نے آبِ فرات پر
اپنے لہو سے کربلا والے کریں وضو
اپنے ہی مدفنوں میں مسلماں رہیں مقیم
افغانیوں کا اب کے برس بھی جلے لہو

4
اب کے برس بھی قصرِ َانا کے جوار میں
تاریخ سر جھکائے ادب سے کھڑی رہی
اب کے برس بھی عدل کا بکتا رہا لہو
ہر ہر قدم پہ ظلم کی سولی گڑی رہی

5
سفاّک ساعتوں کا غضب ناک تھا ہجوم
تہذیبِ نو کے ہر گلی بازار میں حضور ﷺ
جھوٹی اَنا تھی مسندِ شاہی پہ جلوہ گر
خلقت جھکی رہی اسی دربار میں حضور ﷺ

6
شہرِ ہوس کے بند دریچے کھلے رہے
امت کے ناخداؤں کا بدلا نہیں چلن
آقا حضور ﷺ، آپ ﷺ کے قدمَین کے طفیل
دستِ قضا میں بھی رہا زندہ مرا وطن

7
اب کے برس بھی بزمِ جہاں میں قدم قدم
فسق و فجور میں سبھی تھے مبتلا حضور ﷺ
دیوار و در میں زندہ ہوئیں دفن بیٹیاں
ممکن نہیں بیان کروں ماجرا حضور ﷺ

8
ہر سمت تھی محیط شبِ ناروائے غم
اب کے برس بھی امن کا چہرہ بجھا رہا
اب کے برس بھی بند پرندے ہوئے ہیں گم
اب کے برس بھی جبر کا موسم ہرا رہا

9
فکری مغالِطوں کے بھی محشر ہوئے بپا
گردِ تعصبات تھی ہر ایک چیز پر
امراضِ شر کے ذہنی مریضوں کے شور میں
شب خوں پڑا ہماری متاعِ عزیز پر

10
فریاد ہے حضور ﷺ سفر میں حیات کے
نفرت نے اعتماد کو رسوا کیا بہت
موسم کی سختیوں کے تسلسل کے باوجود
گھر میں گلابِ شہرِ مدینہ کھلا بہت

11
سب ابتلائے شر کے اندھیروں کے باوجود
آقا حضور ﷺ، مجھ کو عجب روشنی ملی
بارات جگنوؤں کی رہی میری ہمسفر
آقا حضور ﷺ، آپ ﷺ سے ہے ہر خوشی ملی

12
آثارِ صبح دیکھ کے میں مطمئن ہوا
شبنم میں مسکرا پڑیں کلیاں گلاب کی
امید کی کرن نے سہارا دیا مجھے
تاریک تنگ گلیوں میں بھی روشنی ہوئی

13
ہر شب ہوا کے سخت تھپیڑوں کے باوجود
طاقِ دل و نظر میں چراغوں کی تھی بہار
آقا حضور ﷺ آپ ﷺ کی چشمِ کرم رہی
گرتی رہی خدا کی عطاؤں کی آبشار

14
نگہِ کرم سے آپ ﷺ کی مجھ کو سکوں ملا
خوشبو ملی، خوشی ملی، تابندگی ملی
آنگن میں پھول اتنے وفا کے کھلا کئے
فضلِ خدا سے مجھ کو نئی زندگی ملی

15
ہنگامِ شور و شر کے تسلسل کے باوجود
کلماتِ شکر میری زباں پر سجے رہے
حمدِ خدا کے میں نے بھی روشن کئے چراغ
اب کے برس بھی نعت کے گلشن کِھلے رہے

16
جس پر نزولِ مدحتِ عشقِ نبی ﷺ ہوا
خوشبو ہے اُس ورق پہ کلامِ مجید کی
معمور روشنی سے قلم کا ضمیر ہے
رعنائی خیال سخن نے کشید کی

17
اب کے برس، حضور ﷺ، وہی رتجگے رہے
اب کے برس بھی جشنِ ولادت میں گم رہا
فرطِ ادب سے قوسِ قزح دم بخود رہی
ہر ہر افق پہ صبحِ سعادت میں گم رہا

18
ہر شب درِ حضور ﷺ سے ڈوری بندھی رہی
ہر شب ہوا ہوائے مدینہ سے ہمکلام
ہر شب ہتھیلیوں پہ جلے نعت کے چراغ
ہر شب رہا ہے اُن ﷺ کی گلی میں مرا قیام

19
تجدیدِ عہد کی ہے غلاموں نے اِس برس
ہم سر بکف چلیں گے شہادت کی راہ میں
لکھیں گے جاں نثاری کی تاریخ ہم نئی
چمکیں گے چاند بن کے فلک کی نگاہ میں

20
عامر شہیدِ عزتِ مسلم کا ہے نشاں
جس نے خراجِ ملت بیضا کیا وصول
یہ سال ہے شعور کی بیداریوں کا سال
آقا حضور ﷺ آپ ﷺ مبارک کریں قبول

21
فاقہ زدہ بدن پر کھلے آرزو کے پھول
آقا حضور ﷺ، آپ ﷺ کا مجھ پر کرم رہا
موسم بہار کا رہا گھر میں مرے مقیم
سجدے میں یارسول ﷺ مرا بھی قلم رہا

22
اب کے برس، حضور ﷺ جو لکھی ہے میں نے نعت
اس کو قبولیت کا شرف بھی عطا کریں
محشر کے بعد بھی یہ قلم ہمسفر رہے
میرے لئے حضور ﷺ، خدا سے دعا کریں