مرے سجودمسلسل میں روحِ دیں نہ رہی- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)

صبا بہارِ گلستاں کی جاں نشیں نہ رہی
رہِ حیات کسی طور بھی حسیں نہ رہی

کتابِ دیدہ و دل کے ورق ادھورے تھے
تپش حروفِ قلم کی بھی دلنشیں نہ رہی

ہوائے فتنہ و شر تھی مقیم چہروں پر
پناہ گاہ خیابانِ محسنیں نہ رہی

غبارِ کفر میں لپٹی ہوئی تھی ہر ساعت
غضب خدا کا، کہیں راہِ مخملیں نہ رہی

غلام گردشیں لاکھوں تھیں قصرِ شاہی میں
کسی کے پاس، مگر، دولتِ یقیں نہ رہی

رہیں تلاش میں رسوایاں زمانے کی
مرے سجودِ مسلسل میں روحِ دیں نہ رہی

حضورؐ آئے ہیں سرتاجِ انبیاء بن کر
نفاذِ عدل کی صورت بھی جب کہیں نہ رہی

حضورؐ لائے ہیں تشریف اس خرابے میں
امانتوں کی کوئی ذات جب امیں نہ رہی

حضورؐ لائے ہیں وہ خوش گوار تبدیلی
حصارِ خوفِ مسلسل میں اب زمیں نہ رہی

حضورؐ آپ ہی چارہ ہمارے دکھ کا کریں
امیرِ شہر میں اب خوئے مخلصیں نہ رہی

ہمارے ہاتھ میں مضراب کی ہے نرماہٹ
ہمارے ہاتھ میں وہ ضربِ مسلمیں نہ رہی

خدا شناسی کا آغاز کیا ہوا آقاؐ
صنم کدوں میں کسی بت کی آستیں نہ رہی

کھلا ہے پرچمِ توحید ہر افق پہ ریاضؔ
گرفتِ لات و ہبل میں کوئی جبیں نہ رہی