ازل سے پھول برساتے ہوئے بادِ صبا، آجا- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)

کرم کی وادیوں سے لوٹ کر میری دعا، آ جا
قبولیت کے پھولوں کی لئے دلکش ردا، آ جا

سحر ہونے تلک آنکھیں ستارے چنتی رہتی ہیں
فضائے شہرِ زندہ سے شبِ اذنِ ثنا، آ جا

مرے اخبارِ مدحت سے اٹھا لے دل کی ہر دھڑکن
مرے شہرِ قلم میں وسعتِ ارض و سما، آ جا

مجھے طیبہ کی گلیوں میں تڑپنے کا سلیقہ دے
مرے طاقِ ادب میں اے چراغِ نقشِ پا، آ جا

خدائے مصطفیٰؐ سے مانگتے ہیں میر و سلطاں بھی
درِ دنیا سے واپس اے مری جھوٹی اَنا، آ جا

طلب کے خیمۂ جاں میں مرے بچے بھی بھوکے ہیں
مرے آقاؐ کے الطاف و کرم کی انتہا، آ جا

الجھتی جا رہی ہیں میری سانسیں میرے سینے میں
مدینے کے گلی کوچوں کی اے ٹھنڈی ہوا، آ جا

گزارش کر رہا ہوں اپنی سوچوں کے پرندے سے
تو لے کر اُنؐ کے قدموں سے ابھی خاکِ شفا، آ جا

کبھی چھوڑا نہیں زندہ مسائل نے مرا دامن
تُو خالی آبخوروں پر مدینے کی گھٹا، آ جا

اجازت اُن سے لے کر اے مدینے کے خنک بادل
مری سوکھی ہوئی شاخوں پہ بھی ، بہرِ خدا، آ جا

مجھے زخموں کی چادر اوڑھنے سے خوف آتا ہے
مرے اشعار میں کھُل کر شعورِ کربلا، آ جا

مقدّر تا ابد تیرا رہے گا ہر بلندی پر
مرے افکارِ روشن میں پر و بالِ ہما، آ جا

ریاضِؔ خستہ جاں اجڑے ہوئے گلشن میں رہتا ہے
ازل سے پھول برساتے ہوئے بادِ صبا، آ جا