سرِ بازار پھر امت کٹی ہے یا رسول اللہ- زر معتبر (1995)

سرِ بازار پھر اُمت کٹی ہَے یارسول اﷲ
قیامت کی قیامت کی گھڑی ہے یارسول اﷲ

نہیں ملتا سراغ اب آفتابِ نور و نکہت کا
سحر پس منظروں میں کھو چکی ہے یارسول اﷲ

کِسی جگنو کو بھی اُڑنے کا پروانہ نہیں ملتا
غبارِ شب میں لرزاں چاندنی ہَے یارسول اﷲ

کرن کے پَر بھی باندھے ہیں قفس میں باغبانوں نے
مقیّد ظلمتوں میں روشنی ہے یارسول اﷲ

کنارِ آبجو کٹتے رہیں حلقوم بچوں کے
مقدّر میں یہی تشنہ لبی ہے یارسول اﷲ

کِسی نے رکھ دیا ہَے صحنِ مسجد میں لہو میرا
اذانوں میں بھی اب نوحہ گری ہے یارسول اﷲ

دکھاؤں انخلا کے خون میں ڈوبا ہوا پرچم
یہی بزمِ جہاں میں سروری ہے یارسول اﷲ

پنہ گاہوں میں اُتری ہے عدو کی حشر سامانی
حصارِ خوف میں اُمّت کھڑی ہے یارسول اﷲ

سمیٹا بھی نہ تھا مَیں نے ابھی تنکوں کو دامن میں
کہ بجلی آشیاں پر پھر گری ہے یارسول اﷲ

اگر آنسو بھی ہوتے تو زرِ خالص یہی ہوتا
مگر کشکول میں شرمندگی ہے یارسول اﷲ

جہالت کے لبادے میں تجارت حرفِ مبہم کی
کہاں کی آج کل دانشوری ہے یارسول اﷲ

مسلسل موت کی حالت میں رہتے ہیں حرم والے
جُمودِ بیکراں میں زندگی ہے یارسول اﷲ

جو ماں کے سَر کی چادر سے بھی کھیلیں رہنما ٹھہریں
عجب اہلِ وطن کی مُنصفی ہے یارسول اﷲ

ہجومِ غم میں تنہا اِس لیے زندہ ہوں میں اب تک
محیطِ روز و شب رحمت تریؐ ہے یارسول اﷲ

مرِی اوقات ہی کیا جو کروں دعویٰ غلامی کا
مِرے ہاں مفلسی ہی مفلسی ہے یارسول اﷲ

اُتر آیا ہے موسم زرد پتوں کا گلستاں میں
مِری شاخِ ثنا پھر بھی ہری ہے یارسول اﷲ

مجھے شاید بلاوا اس لیے اب تک نہیں آیا
مِرے سوزِ دروں میں کچھ کمی ہے یارسول اﷲ

ریاضِؔ خوش نوا کو کر دیا حالات نے پتھر
مگر پتھر کی آنکھوں میں نمی ہے یارسول اﷲ