سطحِ زمیں پہ زر کا بھنور آج بھی تو ہے- زر معتبر (1995)

سطحِ زمین پہ زَر کا بھنور آج بھی تو ہے
شہرِ منافقاں میں بشر آج بھی تو ہے

دُکھ کی صلیب، درد کی شب، ظلم کا نفاذ
زنجیرِ کربِ شام کا ڈر آج بھی تو ہے

پس منظروں میں ٹوٹے ہوئے عکس ہیں بہت
بابِ دُعا میں آئنہ گر آج بھی تو ہَے

بُھوکے رہیں گے آج بھی بچے غریب کے
دستِ قضا میں شاخِ ثمر آج بھی تو ہے

الفاظ کھو چکے ہیں مفاہیم کا ہنر
شہرِ صدا کا جسم کھنڈر آج بھی تو ہَے

نفرت ضمیرِ آدمِ خاکی کا ہے لباس
گرد و غبارِ شب میں گہر آج بھی تو ہَے

جُھوٹے تعصبات پر افکار کی اساس
فکر و نظر میں رقصِ شرر آج بھی تُو ہَے

خُود ساختہ فریبِ انا کے سوال پر
میرا سماج زیر و زبر آج بھی تو ہے

چسپاں ہوئے ہیں آج بھی چہروں پہ اشتہار
شہرت کی بُھوک شام و سحر آج بھی تو ہَے

طاقِ ہوا میں رکھا ہوا سرمدی چراغ
یلغارِ شب میں سینہ سپر آج بھی تو ہے

یہ اور بات دُھوپ میں جلتے رہیں بدن
رستے میں سایہ دار شجر آج بھی تو ہَے

لمحاتِ بے سکُوں میں تِراؐ اسم یانبیؐ
وجہ قرارِ قلب و نظر آج بھی تو ہے

کل ہی نہیں تھا نعتِ پیمبرؐ کے فیض سے
ابرِ کرم شریکِ سفر آج بھی تو ہَے

سلطانِ بحر و برؐ، تِرےؐ قدموں کی منتظر
اشکِ رواں کی راہ گذر آج بھی تو ہَے

مَیں نے ہی اپنے گھر کے دریچے کئے ہیں بند
ورنہ کُھلا ہوا تِراؐ در آج بھی تو ہَے

پتھر بھی انقلاب کی آمد کی دیں نوید
تیرےؐ پیام میں وہ اثر آج بھی تو ہَے

اِنساں ترےؐ نقُوشِ قدم کی تلاش میں
دشتِ خلا میں محوِ سفر آج بھی تو ہے

تیراؐ ریاضؔ، تیراؐ ثنا خواں، تِراؐ غلام
طیبہ سے دُور خاک بسر آج بھی تو ہے