آج بھی عرشِ معلیٰ پہ گئی ہیں آنکھیں- غزل کاسہ بکف (2013)

حرفِ توصیف میں ہر شام جلی ہیں آنکھیں
میری کس خاکِ غلامی سے بنی ہیں آنکھیں

اشک تھمتے ہی نہیں اسمِ گرامی سن کر
اپنے آباء سے وراثت میں ملی ہیں آنکھیں

نعت میری، انہیں خوشبو نے سنائی ہو گی
خود بخود آج مری بھیگ رہی ہیں آنکھیں

زائرِ طیبہ، مبارک ہو مدینے کا سفر
ایک اک ذرے میں ضو بار مری ہیں آنکھیں

شہرِ اقبال سے آ تجھ کو دکھا دوں جنت
روزنِ شہرِ معطر میں سجی ہیں آنکھیں

اور منظر کوئی آنکھوں میں سماتا ہی نہیں
اُن کی دہلیز پہ صدیوں سے پڑی ہیں آنکھیں

جگنوؤ! سیرتِ اطہر کی کتابیں کھولو
میری پھر شامِ جہالت میں لٹی ہیں آنکھیں

لشکرِ تشنہ لبی خیمۂ جاں میں ہے مقیم
شکر مالک کا مری پھر بھی ہری ہیں آنکھیں

چومنے ساقئ ہر دور کے دستِ شفقت
حوضِ کوثر پہ سرِ حشر جھکی ہیں آنکھیں

جن کو رہنا ہے ابد تک سرِ انوارِ قلم
میں نے کیا خوب ازل سے وہ چنی ہیں آنکھیں
میرے ہر اشک میں ہے خلدِ نبیؐ کی ٹھنڈک
رات بھر غور سے جو مَیں نے پڑھی ہیں آنکھیں

گنبدِ سبز کا منظر وہی روشن ہے، ریاضؔ
خواب سے گو مری بیدار ہوئی ہیں آنکھیں

*

خاکِ دہلیزِ پیمبرؐ سے اٹی ہیں آنکھیں
بخت والی ہیں، مری بھاگ بھری ہیں آنکھیں

تتلیاں طشت درودوں کے لبوں پر رکھ دیں
کشتِ تحسینِ محمدؐ میں اگی ہیں آنکھیں

آپؐ آئیں گے تو قدموں سے لپٹ جائوں گا
ایک مدت سے مری در پہ لگی ہیں آنکھیں

عین ممکن ہے صبا لائے حضوری کا پیام
ہو کے بیتاب یہ کس سَمت چلی ہیں آنکھیں

بھیک دیں نورِ بصیرت کی بھی، آقاؐ، ان کو
دست بستہ، سرِ دربار کھڑی ہیں آنکھیں

ہر طرف گنبدِ خضرا انہیں آتا ہے نظر
میرے بچّوں کی مدینے میں کھُلی ہیں آنکھیں

پتی پتی پہ سلاموں کی سجا دو رم جھم
شاخ در شاخ مری کب سے کھِلی ہیں آنکھیں

ان میں اعزازِ حضوری کے ہیں شامل آنسو
میں نے اوارقِ تمنا پہ رکھی ہیں آنکھیں

ڈھونڈنے نقشِ کفِ پائے رسولِ آخرؐ
آج بھی عرشِ معلی پہ گئی ہیں آنکھیں

ان میں ہے اوجِ ثریا سے پرے کا موسم
چوم کے آپؐ کی چوکھٹ کو اٹھی ہیں آنکھیں

منتظر اہلِ قیامت ہیں شفاعت کے، حضورؐ
ہر ہتھیلی پہ غلاموں کی دھری ہیں آنکھیں
جگمگاتے ہوئے ان چاند ستاروں کی ریاضؔ
راہِ طیبہ میں ازل ہی سے بچھی ہیں آنکھیں

*

آبِ تکریمِ پیمبرؐ سے دُھلی ہیں آنکھیں
احتراماً شبِ میلاد جھکی ہیں آنکھیں

اُنؐ کی آمد پہ ضروری تھا چراغاں کرنا
ظلمتِ قبر میں کب میری بجھی ہیں آنکھیں

دل کے اوراقِ مصوَّر پہ پسِ حرفِ ثنا
کلکِ قدرت نے نفاست سے لکھی ہیں آنکھیں

رتجگا نعتِ مسلسل کا ہے بستی بستی
شب نے کس تارِ تغزل سے بُنی ہیں آنکھیں

شہرِ دلکش کے گلی کوچوں کے بچّوں کو سلام
آئنہ خانۂ مدحت میں سجی ہیں آنکھیں

چھوڑ آیا تھا جنہیں آپؐ کی چوکھٹ پہ، حضورؐ
ہر مسافر کو وہیں میری ملی ہیں آنکھیں
حجرۂ عشق میں بہتی ہیں یہ چپکے چپکے
قریۂ ضبط میں مصروف ابھی ہیں آنکھیں

اسمِ سرکارؐ منقش تھا بڑے طغرے پر
آج بازار میں بے دام بکی ہیں آنکھیں

ربط رکھتی ہیں بڑا خاص درِ اقدس سے
میری آنکھیں، بڑی قسمت کی دھنی ہیں آنکھیں

مجھ سے بغداد کے آنسو نہیں دیکھے جاتے
منظرِ شب میں کئی دن سے گھری ہیں آنکھیں

درج رودادِ شبِ ہجرِ نبیؐ ہے ان میں
میرے اندازے سے بھی میری بڑی ہیں آنکھیں

جشنِ میلادِ پیمبرؐ کے حوالے سے، ریاضؔ
آج اخبار میں میری بھی چھپی ہیں آنکھیں