پرچم اڑے گا اور بھی اونچا حضورؐ کا- غزل کاسہ بکف (2013)

جو کچھ بھی ہے وہ ہے مرے آقا حضورؐ کا
ارض و سما تمام ہیں صدقہ حضورؐ کا

تخلیقِ کائنات کا ہر فلسفہ غلط
ہر حسن کا جواز ہے چہرہ حضورؐ کا

تاریخِ ارتقائے بشر نے بصد ادب
دیکھا ہے آسماں پہ سراپا حضورؐ کا
صدیوں کے انحرافِ حقائق کے باوجود
امت کے سر پہ ہاتھ رہے گا حضورؐ کا

ارضِ بدن پہ پھول، کرم کے، کھلے بہت
تشنہ زمیں پہ ابر ہے برسا حضورؐ کا

خوشبو طواف کرتی ہے اس کا چمن چمن
صدقہ خدا سے گل نے تھا مانگا حضورؐ کا

لوگو سنو کہ مصحفِ ماہ و نجوم پر
روشن رہے گا نقشِ کفِ پا حضورؐ کا

انسان کی خدائی پہ کاری پڑی ہے ضرب
تکمیلِ انقلاب ہے آنا حضورؐ کا

پہلے میں کس مقام پہ جا کر کروں سلام
مکّہ حضورؐ کا ہے، مدینہ حضورؐ کا

ہر عہد کو ردائے تقدس ملی ضرور
لیکن عظیم تر ہے زمانہ حضورؐ کا
تقسیم کر رہے ہیں وہ اﷲ کی نعمتیں
برپا ہے کائنات میں میلہ حضورؐ کا

میری نئی صدی پہ ہی موقوف کیا، ریاضؔ
محشر کے بعد بھی ہے سویرا حضورؐ کا

*

تہذیب کا وقار ہے تقویٰ حضورؐ کا
یہ پوری کائنات ہے حلقہ حضورؐ کا

جنت بھی ارد گرد کہیں ہو گی، دیکھنا
وہ سامنے ہے گنبدِ خضرا حضورؐ کا

تیرہ شبی کا خوف کسے ہے سرِ قلم
میری گلی میں بھی ہے اجالا حضورؐ کا

اب حشر تک تلاش کرے گی اسے صبا
خوشبو نے اسمِ پاک لیا تھا حضورؐ کا

ان دیکھی وادیوں کے نشیب و فراز میں
رحمت کا سائبان ہے تنہا حضورؐ کا

باندھے ہوئے ہے ہاتھ لُغت احترام سے
اشکوں سے لکھ رہا ہوں قصیدہ حضورؐ کا

مرے وطن کی سبز ہوائیں ہیں آپؐ کی
میرے وطن کا چاند ستارا حضورؐ کا

حاجت روا خدا ہے مگر چاہتا ہے وہ
باندھو دعا کے سر پہ عمامہ حضورؐ کا

یہ کیا کہ آسماں سے اترنے لگی دھنک
اوراقِ جاں پہ نام جو لکھا حضورؐ کا

ہے ہر حدیث، آپؐ کی، میرے لئے سند
ہاں، معتبر ہے صرف حوالہ حضورؐ کا

فکری مغالطوں کی چلیں لاکھ آندھیاں
پرچم اڑے گا اور بھی اونچا حضورؐ کا
آدم کی نسل قرض اتارے گی کیا ریاضؔ
سر پر ہے اس کے آج بھی سایہ حضورؐ کا

*

احمد، خدا نے نام ہے رکھا حضورؐ کا
تا حشر ہوتے رہنا ہے چرچا حضورؐ کا

تازہ ہوا کبھی بھی مقفل نہ ہو گی اب
شام و سحر کھُلا ہے دریچہ حضورؐ کا

لوحِ عمل پہ درج ہے کردار جو عظیم
انسانیت کے نام ہے نامہ حضورؐ کا

عظمت کی رہگذر پہ علامت ہے عَزمْ کی
وہ کاروانِ ہجرتِ طیبہ حضورؐ کا

اُس شہرِ دلنواز کے دیوار و در کی خیر
خطّوں میں بے مثال ہے خطّہ حضورؐ کا

اُنؐ کے درِ عطا پہ عطا کی ہیں بارشیں
کاسہ بھرے گا آج بھی منگتا حضورؐ کا

لمحاتِ زردِ کرب و بلا ان گنت سہی
تسکین قلب و جاں کی ہے روضہ حضورؐ کا

نقشِ قدم فلک نے بھی چومے ہیں آپؐ کے
تاروں بھرا زمیں پہ ہے رستا حضورؐ کا

حرفِ درود، حرفِ خدا ہے اسی لئے
پڑھتا ہے آسماں بھی صحیفہ حضورؐ کا

فرمانِ مصطفی تر و تازہ گلاب ہے
لہجہ ہے ہر زمانے کا لہجہ حضورؐ کا

پرچم ملا ہے سلکِ شفاعت کا آپؐ کو
خورشید ہر افق پہ ہے چمکا حضورؐ کا

کشتی مرے وجود کی جب ڈوبنے لگی
آیا ہے میرے کام وسیلہ حضورؐ کا
مجھ پر گرفت زندہ مسائل کی ہے، ریاضؔ
آئے گا آج جوش پہ دریا حضورؐ کا

*

منشورِ کائنات ہے خطبہ حضورؐ کا
ابرِ کرم کہاں نہیں برسا حضورؐ کا

انفاسِ مصطفی کی امانت ہے جس کے پاس
مجھ کو بھی، کاش، عہد وہ ملتا حضورؐ کا

گھبرا نہ اپنے جرمِ ضعیفی سے ہمسفر!
ہے عفو و درگزر ہی مصّلیٰ حضورؐ کا

خیمے تنے رہیں گے کرم کی بہار کے
تا حشر بٹتا رہتا ہے باڑا حضورؐ کا

لوح و قلم پہ اتریں درودوں کے رتجگے
صلِ علیٰ ہے سرمدی نغمہ حضورؐ کا

دراصل ہے ضمیر کے اندر کی یہ خلش
ایمانیت کے قصر پہ پہرہ حضورؐ کا
ربِ قدیم ربِ محمدؐ ہے اس لئے
کعبہ سمیت عرشِ معلی حضورؐ کا

چاروں طرف درود کا احرام باندھ کر
انوارِ سرمدی میں ہے قریہ حضورؐ کا

ہونٹوں کو اس لئے ہے ملا گل کا پیرہن
ہونٹوں نے اسمِ پاک ہے چوما حضورؐ کا

چٹکی ہوئی ہے اسمِ گرامی کی چاندنی
شاداب رت ازل سے ہے جادہ حضورؐ کا

حرفِ دعا میں امتِ مضطر کا نام ہے
کون و مکاں کو یاد ہے سجدہ حضورؐ کا

روزِ ازل سے وسعتِ افلاک میں، ریاضؔ
گلشن ہزار رنگ میں مہکا حضورؐ کا