مرے بچوں کو بھی تازہ ہوائوں کی ضرورت ہے- لامحدود (2017)
زمینِ تشنہ کو کالی گھٹائوں کی ضرورت ہے
وطن کے ذرّے ذرّے کو دعائوں کی ضرورت ہے
جو ساحل پر جلا دیں واپسی کے ہر تصُّور کو
مری کشتی کو ایسے ناخدائوں کی ضرورت ہے
حصارِ آہنی میں تھے عزائم جن کے تابندہ
حرم والوں کو پھر اُن رہنمائوں کی ضرورت ہے
جو ہر صورت میں رکھّیں لب مقفل قتل گاہوں میں
امیرِ شہر کو اُن بے نوائوں کی ضرورت ہے
ترے ہی فضل سے جن کے پروں پر عافیت برسے
فضا میں امن کی اُن فاختائوں کی ضرورت ہے
غزہ کی سبز پٹی پر رقم ہے خونِ مسلم سے
ابھی دینِ خدا کو کربلائوں کی ضرورت ہے
کسی کا حق بجا تیری زمیں کے لالہ زاروں پر
مرے بچوں کو بھی تازہ ہوائوں کی ضرورت ہے
مری چشمِ طلب جھک کر درِ اقدس پہ بوسہ دے
درِ اقدس پہ بھیگی التجائوں کی ضرورت ہے
مری عمرِ رواں اُنؐ کی ثنا کرتے ہوئے گذرے
مجھے عشقِ نبیؐ کی انتہائوں کی ضرورت ہے
ریاضؔ اپنی زمیں کو چاند لکھنے سے نہیں فرصت
یہ کس کافر کو بے چہرہ خلائوں کی ضرورت ہے