آنسوئوں کو ضبط کرنے کا ہنر بھی دے مجھے- لامحدود (2017)
تیرگی میں یا خدا! رنگِ سحر بھی دے مجھے
قریۂ شب سے کبھی اذنِ سفر بھی دے مجھے
آج بھی اترے ہیں ہونٹوں پر دعائوں کے ہجوم
دل کی تختی پر حروفِ معتبر بھی دے مجھے
دے مجھے توفیق رکھّوں حوصلہ ہر حال میں
آندھیوں کے سامنے دیوار و در بھی دے مجھے
سائباں تیرے کرم کا روز و شب پر ہے محیط
اس بھری دنیا میں اک چھوٹا سا گھر بھی دے مجھے
پھول سے بچّوں کو دے شاداب موسم کی نوید
خشک سالی میں بہت برگ و ثمر بھی دے مجھے
زندگی کربِ مسلسل ہے اگر میرے خدا
آنسوئوں کو ضبط کرنے کا ہنر بھی دے مجھے
روشنیٔ شہرِ دانائی سے بھر کاسہ مرا
رزم گہ میں ہوں، تمیزِ خیر و شر بھی دے مجھے
رونے والی آنکھ میرے جسم کو کرکے عطا
آخرِ شب تابشِ قلب و نظر بھی دے مجھے
آرزو، زندہ، قفس میں بھی رہی پرواز کی
اب کھُلی آب و ہوا میں بال و پر بھی دے مجھے
لکھ مری قسمت میں بھی آسودہ لمحوں کا گداز
خطۂ جبرِ مسلسل سے مفر بھی دے مجھے
میرے آنگن پر تنے ہیں دھوپ کے خیمے ہزار
سایۂ نقشِ کفِ خیرالبشرؐ بھی دے مجھے
ہم وطن میرے، عمل کی روشنی کے ہوں سفیر
عزمِ بے پایاں کے وہ شمس و قمر بھی دے مجھے
نعت کی ابجد سے بھی واقف نہیں کلکِ ریاضؔ
مدحتِ سرکارؐ کے لعل و گہر بھی دے مجھے