مجھ کو پاکیزہ لمحوں کی چادر ملے- لامحدود (2017)
تیرے محبوبؐ کی کر رہا ہوں ثنا، مجھ کو پاکیزہ لمحوں کی
چادر ملے
میرے لوح و قلم بھی ہوئے لب کشا، مجھ کو پاکیزہ لمحوں کی چادر ملے
یادِ طیبہ رہی رات بھر ہمسفر، ساتھ چلتی رہی ہے مرے رہگذر
آج طیبہ کی جنت کا منظر دکھا، مجھ کو پاکیزہ لمحوں کی چادر ملے
میری محرومیوں کا مداوا بھی ہو، روشنی کا کھُلا ہر دریچہ
بھی ہو
میری فریاد سن، سن مری التجا، مجھ کو پاکیزہ لمحوں کی چادر ملے
یا خدا! میرے گھر میں چراغاں رہے، یہ قلم میرا خوشبو بداماں
رہے
زندگی بھر رہے نعت کا رتجگا، مجھ کو پاکیزہ لمحوں کی چادر ملے
میرے لب پر ہزاروں دعائیں رہیں، ہمقدم میرے کالی گھٹائیں
رہیں
یہ پرندہ تخیل کا اڑتا رہا، مجھ کو پاکیزہ لمحوں کی چادر ملے
آندھیوں میں کھڑا ہوں مَیں بوڑھا شجر، ہے قضا میرے سر پہ بھی شام و سحر
یا خدا! حوصلہ، یا خدا! حوصلہ، مجھ کو پاکیزہ لمحوں کی چادر ملے
بے جہت منزلوں کی طرف ہے رواں، ہر طرف یاسیّت کا دھواں ہی
دھواں
رک گیا ہے سرِ راہ پھر قافلہ، مجھ کو پاکیزہ لمحوں کی چادر ملے
امتِ بے خبر آج بھی مست ہے، حوصلہ نوجوانوں کا بھی پست ہے
بن گیا ہوں مَیں خود ایک حرفِ دعا، مجھ کو پاکیزہ لمحوں کی چادر ملے
مَیں تخیل میں بھی اُنؐ کے در پر رہوں، اُنؐ کی نعتِ مسلسل
مَیں لکھّا کروں
اُنؐ کے قدموں سے میرا رہے رابطہ، مجھ کو پاکیزہ لمحوں کی چادر ملے
میرے اندر کا انساں بھی سجدے میں ہو، صرف آبِ خنک جس کے
لہجے میں ہو
مجھ پہ جاری کرم کا رہے سلسلہ، مجھ کو پاکیزہ لمحوں کی چادر ملے
زلزلوں کا ہدف ہے نگارِ وطن، کھو گئی ہے خزاں میں بہارِ
چمن
مشکلوں کے سمندر کا ہے سامنا، مجھ کو پاکیزہ لمحوں کی چادر ملے
مجھ کو آسودہ لمحوں کا مژدہ ملے، چاک میرے گریبان کا بھی
سلے
یا خدا! ہے کٹھن عمر کا مرحلہ، مجھ کو آسودہ لمحوں کی چادر ملے
مَیں ریاضِ سخن میں چراغاں کروں، نعت طیبہ کے والیؐ کی لکھتا
رہوں
حرفِ توصیف کی دے مجھے انتہا، مجھ کو آسودہ لمحوں کی چادر ملے