رکھ سلامت میری بستی کے در و دیوار کو- لامحدود (2017)
ٹوٹ کر برسے ہیں اب کالی گھٹا کے قافلے
بستیوں کی بستیوں کا مٹ گیا نام و نشاں
اک اذیت ناک منظر دور تک پھیلا ہوا
ہچکیاں اور سسکیاں چاروں طرف نوحہ کناں
تشنہ ہونٹوں پر نہ پھیروں گا کبھی اپنی زباں
یا خدا! اب روک دے پانی کی اس یلغار کو
موت کے عفریت کو پانی نگل جائے تو کیا
رکھ سلامت میری بستی کے در و دیوار کو
دامنِ باد صبا میں عافیت کے پھول رکھ
لوٹ آئے روشنی پھر ارضِ پاکستان میں
جل اٹھیں ہر اک دریچے میں چراغِ آرزو
غرق ہوجائیں اندھیرے سب اسی طوفان میں
خاکِ ارضِ پاک پر اتریں مسلسل نکہتیں
اس کی گلیوں میں بکھر جائیں ترے ماہ و نجوم
اس کے ہر آنگن کے پیڑوں پر گرے رنگِ بہار
ان فضائوں میں اڑیں رنگیں پرندوں کے ہجوم