کب مرے اندر کا انساں رات بھر رویا نہیں- لامحدود (2017)
مجھ سے بے مایہ کو دے حرفِ ادب حرفِ یقیں
گلشنِ شہرِ قلم میں پھول مہکیں عنبریں
اے خدا! ہر ہر صدی کے ہے تشخص کا سوال
دے برہنہ سر پہ تاجِ عشقِ ختم المرسلیںؐ
اے خدا! پہچان دے وہ شاعرِ گمنام کو
لوگ پوچھیں کیا ہو تم بھی شہرِ طیبہ کے مکیں
اُنؐ کے قدموں کا ملے دھوون خدائے لم یزل!
رحمۃ للعالمیںؐ ہیں جو شفیع المذنبیںؐ
تا ابد جلتے رہیں توصیف و مدحت کے چراغ
تا ابد قائم رہے گھر کی فضائے دلنشیں
سجدہ ریزی کی مجھے توفیق دے میرے خدا!
کھو گئیں جنگل میں شاید التجائیں بھی کہیں
بے حسی نے چھین لی ہے زندگی کی آرزو
ایک بھی آنسو سمندر کے تلاطم میں نہیں
خون کی بارش میں بچوّں کی کتابیں بہہ گئیں
بربریت کی چلی آندھی چراغوں کے قریں
مکتبِ شہرِ پشاور کے شہیدوں کو سلام
جو یقینا تھے مرے کل کی بلندی کے امیں
عظمتِ رفتہ کو آوازیں نہ دوں تو کیا کروں
کھو گیا ہے کس خرابے میں گروہِ مسلمیں
ٹوٹ کر برسا نہیں کب میری آنکھوں کا لہو
کب مرے اندر کا انساں رات بھر رویا نہیں
شامیانوں کی طنابیں لے اڑی بادِ سموم
نرگسیت سے بھی نکلیں گے کبھی حجرہ نشیں
جسم میرے کی اکائی کب نہیں بکھری ریاضؔ
کب ندامت کے پسینے میں نہیں ڈوبی جبیں
وہ نگہباں ہے، محافظ ہے پیمبرؐ کا ریاضؔ
رزق دوزخ کا بنیں میرے نبیؐ کے منکریں