کون قندیلوں سے بھر دیتا ہے دامانِ سخن- لامحدود (2017)
کون سن لیتا ہے خاموشی کے ہونٹوں کی صدا
کون پڑھ لیتا ہے آنکھوں میں حروفِ مدّعا
وادیٔ حرف و صدا میں کس کا سکّہ ہے رواں
کس کے در پر سرنگوں ہے عظمتِ کون و مکاں
پھول برساتی ہے کس کے حکم سے میری بیاض
دستگیری کون فرماتا ہے بندوں کی ریاضؔ
آتشِ نمرود کو گلزار کر دیتا ہے کون
ذوقِ خوابیدہ کو بھی بیدار کر دیتا ہے کون
دامنِ بے رنگ کو رنگوں سے بھر دیتا ہے کون
بادلوں کی کوکھ کو سر سبز کر دیتا ہے کون
کون اشکِ بے نوا میں آج ہے جلوہ نما
وہ خدا، تیرا خدا، میرا خدا، سب کا خدا
کون دریائوں کو دیتا ہے روانی کا شعور
کون دو عالم کے سر انجام دیتا ہے امور
کون قندیلوں سے بھر دیتا ہے دامانِ سخن
کون زخموں پر سجاتا ہے شفا کے پیرہن
کون سجدوں کو بنا دیتا ہے محرابِ یقیں
کون آدم کو عطا کرتا ہے انوارِ مبیں
کون مجھ سے بھی گنہ گاروں پہ کرتا ہے کرم
کون مجھ سے بھی خطا کاروں کا رکھتا ہے بھرم
کون سینوں میں کھِلاتا ہے محبت کے گلاب
کون مٹی سے اگاتا ہے ہزاروں آفتاب
کون دیتا ہے سہارا جسم کی دیوار کو
کون رکھتا ہے تر و تازہ مرے افکار کو
کون مٹھی میں صدف کی بخش دیتا ہے گہر
کون دھر دیتا ہے دستِ شاخ پر طشتِ ثمر