طبیعت آج بھی میری ثنا خوانی پہ مائل ہے- متاع قلم (2001)
طبیعت آج بھی میری ثنا خوانی پہ مائل ہے
مرا ذوقِ غلامی لطف و رعنائی کا حامل ہے
خدا کے برگزیدہ آخری مرسل نبیؐ میرے
زمین و آسماں میں کیا کوئی اُنؐ کا مماثل ہے
کُھلا یہ حشر میں نعتِ پیمبرؐ کے تصدق سے
رہائی کا جو پروانہ ہے وہ ایمانِ کامل ہے
کھڑا ہوں آج بھی مَیں گنبدِ خضرا کے سائے میں
یہ لمحہ زندگی بھر کی تمناؤں کا حاصل ہے
رسائی ربِ اعلیٰ تک بغیر اُنؐ کے نہیں ممکن
ازل سے ہر زمانہ آپؐ ہی کے در کا سائل ہے
کوئی امید بر آتی نہیں آقاؐ غلاموں کی
سفینہ ہے بھنور میں آج بھی اور دُور ساحل ہے
تیقّن کی کرن اترے حریمِ دیدہ و دل میں
مرے چاروں طرف اوہام کا اک شہرِ باطلِ ہے
غلامی کا سلیقہ ہی نہیں آتا مجھے آقاؐ
ہر اک حرفِ دُعا بھی وصفِ زیبائی سے گھائل ہے
مرے ایمان کی ٹوٹی ہوئی کشتی! خدا حافظ
سمندر معصیت کا درمیاں مدت سے حائل ہے
بہت ممکن ہے بخشش کا وسیلہ اشک بن جائیں
مرے اعمال کے دفتر میں چشمِ تر بھی داخل ہے
حضورؐ اِس کی زباں پر نطق کے سارے کھلیں موسم
ریاضِؔ بے نوا بھی نام لیواؤں میں شاملِ ہے