سلام- رزق ثنا (1999)
سر زمینِ عشق و مستی کی ہوائوں کو سلام
آسمانِ شہرِ اقدس کی گھٹائوں کو سلام
لوحِ دل پر آیتِ عشقِ نبیؐ کا ہے نزول
ملکِ توصیفِ پیمبرؐ کی فضائوں کو سلام
کشتِ لب پر ہے نئے دن کے اجالوں کا نفاذ
شہرِ مژگاں میں فروزاں کہکشائوں کو سلام
اُنؐ کے در پر سرجھکاتی ہیں جو بہرِ احترام
جھولیاں بھرتی ہوئی اُن التجائوں کو سلام
صاحبِ دربارِ عالی پر درودوں کے گلاب
کانپتے ہونٹوں پہ مہکی سی دعائوں کو سلام
یہ بنیں گی میری بخشش کا سبب روزِ جزا
بے خودی میں ہونے والی سب خطائوں کو سلام
اُنؐ کی گلیوں کے حسین بچوں پہ جان و دل نثار
امن کی اِن آسمانی فاختائوں کو سلام
خیمۂ جاں پر دبائو آندھیوں کا ہے بہت
جو پہنچ جائیں مدینے اُن صدائوں کو سلام
کربلائے عصر میں جائے اماں ملتی نہیں
خلدِ طیبہ کی مگر شاداب چھائوں کو سلام
اپنے آنچل میں چھپالیتی ہیں جو ہر اشک کو
رات کے پچھلے پہر کی اُن نوائوں کو سلام
آسماں، سر پر سجا کر رقص میں ہے آج بھی
نقشِ پائے مصطفیؐ کی انتہائوں کو سلام
میرے جسم و جاں کے بنجر کھیت پر ابرِ کرم
آپؐ کے ایوانِ رحمت کی عطائوں کو سلام
جو ہیں مصروفِ وضو تسنیم و کوثر سے ریاضؔ
اُن حروفِ نعت کی دلکش ادائوں کو سلام