اثر کی خلعتِ صد رنگ دے میری دعاؤں کو- کتابِ التجا (2018)
تحفظ کی ردائے امن اڑتی فاختاؤں کو
ملے اذنِ سفر اِس سمت بھی کالی گھٹاؤں کو
ہمارے دامنِ بے نور میں یارب! چراغاں ہو
شعورِ مدحتِ سرکارؐ دے ہم بے نواؤں کو
مقفّل در بھی کھولے جارہے ہیں دشمنِ دیں پر
اثر کی خلعتِ صد رنگ دے میری دعاؤں کو
مفاداتِ سیہ کی ہے پرستش رات دن جاری
زمانہ پوجتا ہے یاخدا! جھوٹے خداؤں کو
بہت دشوار ہوتا جارہا ہے سانس بھی لینا
یہ کس نے باندھ رکھا ہے پسِ زنداں ہواؤں کو
سلگتی رہتی ہے یارب! مرے کھیتوں کی ہریالی
صدا دی ہے مہاجن نے اِدھر خونی بلاؤں کو
مکینوں کا تو ہی حافظ، زمینوں کا تو ہی حافظ
ردائے عافیت دے تو مرے گوٹھوں گراؤں کو
قبیلے کے جوانو! جاگتے رہنا فصیلوں پر
عطا ہوگا خنک موسم یقینا ان فضاؤں کو
تلاشِ رزق میں نکلے ہوؤں کو کامیابی دے
برہنہ سر ہیں، دے چادر، خدایا! التجاؤں کو
زمیں کا رزق بن جائیں گی اے میرے خدا! آخر
کوئی چارہ، کوئی منزل، مری سہمی صداؤں کو
یہ شب بھر منتظر رہتی ہیں دستک ہو کہ آہٹ ہو
سکونِ قلب دے یارب! جواں بیٹوں کی ماؤں کو
فریب و دجل ہی سوغات ہے شہرِ ملامت کی
زمیں میں دفن کردے یاخدا! جھوٹی اناؤں کو
ریاضؔ آنسو نہیں رُکتے صفِ ماتم پہ بیٹھا ہوں
جوارِ مسندِ شاہی میں ڈھونڈوں کربلاؤں کو