التجائے کربلا- شعورِ کربلا (2018)
کب سے حصارِ شامِ غریباں میں ہے قلم
کب سے لہو میں تر ہے مرا دامنِ خیال
گرد و غبارِ شر میں ہے کب سے وجودِ امن
فتنوں کی پرورش میں ہے مصروف شیطنت
زخموں کے پھول شاخِ دعا پر کھلے ہزار
آب و ہوائے خوف میں زندہ ہے آدمی
کب سے ورق ورق پہ کٹی انگلیوں کا رقص
جاری ہے اس لئے کہ سحر دور ہے بہت
کب سے ہے آبِ جبرِ مسلسل میں چشمِ تر
کب سے محیط تشنہ لبوں پر ہے ریگِ کرب
کب سے منافقت کے جزیرے میں قید ہوں
قدغن تلاشِ حرفِ وفا کے سفر میں ہے
میں کربلائے عصر کی دہلیز پر کھڑا
اس سوچ میں ہوں گم : شبِ عاشورِ کربلا
جو لشکری کھڑے تھے مقابل حسینؓ کے
سب کو مفادِ مسندِ شاہی عزیز تھا
حلقومِ گل تھا دستِ خزاں کی گرفت میں
سرخی شفق کی تھی صفِ ماتم پہ اشکبار
سر پر کھڑا ہے جبرِ مفادات کا عذاب
یارب! مجھے نجات کا رستہ دکھا کوئی
کشتِ دل و نظر میں اُگی تشنگی کی فصل
ہونٹوں پہ خشک سالی کے خیمے تنے ہوئے
یارب! بفیض سرورِ کون و مکاں اٹھے
کالی گھٹا حضور ﷺ کی چوکھٹ کو چوم کر
بنجر زمیں سے آبِ خنک کا گذر بھی ہو
اے راہِ انقلاب کے تابندہ قافلو!
یلغارِ شب کا تم بھی بنو گے ہدف ضرور
سن لو! کتابِ کرب و بلا میں رقم ہے یہ
دونوں ہتھیلیوں پہ ہوں آنکھیں سجی ہوئی
دونوں ہتھیلیوں پہ لہو کے جلیں چراغ
دونوں ہتھیلیوں پہ سروں کی بہار ہو
یارب! ہے التجائے عزیزانِ کربلا
ہر عہد خوف و جبر کے سائے سے پاک ہو
ہر دور میں یزید کے چہرے پہ خاک ہو