قلم کو چوم لیتا تھا ریاض اپنے لڑکپن میں- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
ستارے ہی ستارے ہیں ثنا گوئی کے مخزن میں
فلک سے روشنی برسی ہے پھر مدحت کے ساون میں
میں ننگے پاؤں چلتا جا رہا ہوں جانبِ طیبہ
تصور ہی تصور میں مَیں جا پہنچا ہوں بچپن میں
مواجھے میں سنہری جالیوں کے سامنے یارب!
میں ہر لمحہ رہوں بھیگے ہوئے موسم کے دامن میں
برابر چلتی رہتی ہے سخن کے لالہ زاروں میں
ہواؤ! کب رُکی بادِ بہاری میرے گلشن میں
چلو اس شب بھی مَیں اپنی وفا کو تھپکیاں دے لوں
حیاتِ مختصر میری رہی ہے اُن کے چانن میں
ہوا کے دوش پر اڑتا ہوں طیبہ کی فضاؤں میں
حضوری کا ہے اک کیفِ مسلسل دل کی دھڑکن میں
مرے آبا کی خوش بختی کہ گذری زندگی اُن کی
کبھی آقاؐ کی اترن میں، کبھی آقاؐ کے دھوون میں
شبِ میلاد ہر گھر میں سجے میلاد کی محفل
چراغاں ہی چراغاں ہے مری بستی کے آنگن میں
گریں گے مغفرت کے پھول میری قبر پر کل بھی
رہے گی روشنی محشر تلک میرے بھی مدفن میں
مرے ہمجولیوں کو یاد ہے ہر ہر ادا میری
قلم کو چوم لیتا تھا ریاضؔ اپنے لڑکپن میں