تضادات- خلد سخن (2009)

دامانِ آرزو میں گزشتہ برس بھی مَیں
کرتا رہا دعائے غبارِ رہِ حجاز
لکھتا رہا حروفِ تمنا سے ’یانبیؐ‘
پڑھتا رہا درود حصارِ شعور میں
اشکوں میں میرے لوح و قلم کا رہا ضمیر
بچے مرے بھی تاجِ غلامی پہ مفتخر
چشمانِ تر میں‘ پھول غبارے لیے ہوئے
حرفِ درود لب پہ سجائے ہوئے، حضورؐ
ہر شب رہے ہیں گنبدِ خضرا کے آس پاس
لیکن عجیب سر پہ مسلّط ہے تیرگی
جیسے سجھائی ہاتھ کو دیتا نہیں ہے ہاتھ
جیسے دل و نظر پہ شبِ جبر ہے محیط
یہ جبر میرے اپنے ہی اندر کا جبر ہے
میں خواہشوں کی بھوک کے جنگل لیے ہوئے
زرتاب سورجوں کے مقابل ہوں یارسولؐ
مجھ کو عذابِ جبرِ مسلسل سے دیں نجات
یہ سیم و زر کی خواہشیں ہوتی نہیں ہیں کم
آسودگی کے لفظ کی تفہیم کیا کروں
سارا سبق نصابِ محبت کا بھول کر
کشکولِ آرزو میں زر و سیم کی ہوس
مکروہ خواہشوں کے ہے چہروں کے درمیاں
آقاؐ! مجھے نجات کا ملتا نہیں سراغ
در پر کھڑا ہوں مجھ کو بھی رستہ دکھائیے

قول و عمل میں لاکھ تضادات ہیں، حضورؐ
لشکر عدو کا، میرے مفادات ہیں، حضورؐ