پیش لفظ- طلوع فجر (2014)

نعت اساسی طور پر مدحت ہے، مدح کی روایت دنیا کے ہر ادب میں قدیم ہے کہ یہ احساسِ ممنونیت کا اظہار ہے۔ انسان فطرتاً طالبِ خیر ہے اس لیے جہاں بھی اسے خیر کی نمود نظر آتی ہے وہ مائل برثنا ہوجاتا ہے۔ مظاہرِ فطرت کے حسّی حوالے ہوں یا آثارِ کائنات کے اخلاقی و باطنی پہلو، انسان رطب اللسانی کے جوہر دکھاتا ہے، یہ روّیہ مقصودِ فطرت بھی ہے اور انسانی شعور کا مطلوب بھی، خوش قسمتی سے اس کی ابتداء اُس شعورِ اوّل سے ہوئی جبکہ انسانِ اوّل نے بصیرت کے ساتھ بصارت سے راہ یابی کا سلیقہ پایا، جنت کے آباد و شاداں ماحول میں حسنِ نظر بہتر سے بہترین کی تلاش میں تھا کہ اچانک ہر حُسن ایک ہی عنوان سے رقصاں پایا، حوروں کا حُسنِ بے مثال ہو جو ہر قسم کے لمس سے محفوظ تھا کہ باغات کے اثمار ہوں جوہر نظیر سے ماوراء تھے، محلات کی دلآویزی ہو یا روشن قندیلوں کی نظر نوازی، متجسس نگاہیں جب ان سرشار کیفیات میں گم تھیں اور ہر جانب نور و نکہت کی مہکار میں شرابور تھیں تو ایسا محسوس ہوا سب جلوے ایک مرکزِ حُسن کے کیف میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ’’محمد‘‘ (ﷺ) کا اسم ہر طرف نظر نواز ہے، ہر کلی کا سینہ اسی اسمِ گرامی کا مرقع ہے اور ہر شادابی حُسن اسی اسمِ مبارک سے فیض بار ہے، بس کیا تھا انسان کی نظر کو معراجِ حُسن سے شادابی ملی اور یہ حُسنِ تمام کسی نہ کسی صورت نظروں میں سما گیا، نعت کا بروز اسی نقش اول کا پرتو ہے جو گلی گلی، محلہ محلہ اور سمت سمت آشکار ہورہا ہے۔ آدم علیہ السلام نے خاتم انبیاء علیہ الصلوۃ والسلام کو روزِ اوّل ہی پہچان لیا تھا، نسلِ آدم اسی شناخت کا ہر صدی میں اعادہ کررہی ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ نظریں جو اس حُسنِ تمام کے انوار سے بہرہ ور ہیں اور لائقِ احترام ہیں وہ وجود جو اولادِ آدم ہونے کا حق ادا کرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ا س شناخت کی سعادت سے کوئی دَور خالی نہیں ہے، ہاں یہ ضرور ہوا کہ جو انسانیت کے جوہر سے بے توفیق ہوا وہ صرفِ نظر کرتا رہا، اسی پر یہ روایت شاہد ہے کہ ایک مرتبہ عناد پرست اور بغض بدوش کافر آفتابِ نبوت کے سامنے آگیا، غور سے دیکھنے لگا مگر کچھ حاصل نہ ہوا اور اپنی بصیرت کی ناکامی کا یوں اظہار کرنے لگا کہ حُسنِ ناتمام ہے۔ ارشاد ہوا کہ تو سچ کہتا ہے۔ یہ الفاظ اہلِ ایمان کو لرزا گئے مگر پاسِ ادب کی خاطر اپنے جذبوںکو قابو میں رکھا۔ وہ بدباطن چلا گیا تو ایک بالغ نظر حاضرِ دربار ہوا۔ چہرۂ والضحیٰ پر نظر ڈالی اور عقیدت و محبت سے پکار اٹھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سے حسیں تر چہرہ میں نے کبھی نہ دیکھا، ان دونوں جملوں پر سرکارِ ابد قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اتنا فرمایا کہ تُو سچ کہہ رہا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، عرض کیا وہ بدباطن جو کہہ گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس پر یہی فرمایا کہ سچ کہتا ہے اور اس جاں نثار کے جواب میں بھی یہی فرمایا کہ تُو سچ کہتا ہے، اس میں حکمت کیا ہے۔ فرمایا سنو: میں تو ایک آئینہ ہوں، ہر دیکھنے والا اپنا چہرہ دیکھتا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت بھی حتمی تھا اور آج بھی اُسی طرح آکری ہے۔ نعت گو وصف شمار ہی نہیں کررہا ہوتا اپنی فطرتِ سلیم کا اظہار بھی کررہا ہوتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ نعت گوئی صلاحیت نہیں ایک شرف ہے ایک عطا ہے اور ایک محبت ہے۔

نعت اگر وزن و قافیہ کی درستگی کا ہی نام ہوتا تو وہ شاعر جنہیں شعر گوئی پر کمال حاصل رہا ہے اور جو وزن و ارکان کے پیمانوں سے پوری طرح آشنا رہے ہیں بلکہ اُنہیں شعر گوئی پر استادانہ دسترس حاصل رہی ہے، نعت گوئی سے محروم کیوں رہتے، تاریخِ ادب گواہ ہے کہ شعر کی دنیا کے امام ایسے بھی ہوئے ہیں جو کئی کئی دیوان مرتب کرتے چلے گئے مگر نعت کا ایک شعر کہنے کی انہیں توفیق حاصل نہ ہوئی، اس کلیہ سے کوئی زبان مستثنیٰ نہیں، عربی، جسے دین کی زبان ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے، میں بھی متعدد ایسے نامور شاعر موجود ہیں جو قصیدوں پر قصیدے لکھتے رہے مگر نعت لکھنے سے محروم رہے۔ اس کے برعکس کئی ایسے اصحابِ سخن بھی ہیں جو شعر کی دنیا میں معروف نہ ہوئے مگر نعت کے وسیلے سے زندہ شاعروں میں شمار ہوگئے۔ ثابت ہوا کہ نعت کہنا ایک توفیق ہے، یہ کسی کی صلاحیتِ شعر کا عکس نہیں عطائے ربّانی ہے۔ تاریخِ شعر کا مطالعہ واضح کرتا ہے کہ نعت نے نعت کہنے والوں کو رفعتیں عطا کی ہیں اور کسی کی بات نہیں خود شاعر اوّل شاعر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، عکاز کے میلے میں ایک بدویہ شاعرہ خنساء سے ہار گئے تھے مگر پھر کیا ہوا، درِ رسالت پر آئے تو ’’ایدک اللہ بروح القدس‘‘ کے انعام کے مستحق ٹھہرے اور آج تک ہر نعت گو کے امام ہیں، حضرت امام بوصیری علیہ الرحمۃ اپنے دور کے ایک شاعر تھے، آپ کا دیوان آج بھی موجود ہے کہ لوگوں کی توجہ کا مرکز نہیں، مگر ’’قصیدہ بردہ‘‘ نعت کا ایسا حوالہ بنا کہ ہر نعت گو کے لیے اُسوہ قرار پایا، توفیق الہٰی کی انتہا یہ ہوئی کہ اس قدر طویل قصیدہ کا ہر شعر بیت الغزل کہلایا اور ایک ایک شعر دنیائے ادب کا مرکزِ اعتکاف رہا۔

عرض یہ کرنا ہے کہ نعت ایک توفیق ہے جس کو بھی مل گئی محترم قرار پایا، ہاں یہ ضرور ہوا کہ کسی کو یہ توفیق جزواً حاصل ہوئی کہ وہ دیگر اصناف کے ساتھ ساتھ نعت کا حق بھی ادا کرتا رہا تو کسی کو اس توفیق نے کلیۃً اپنے دامنِ کرم میں لے لیا اور وہ سراپا مداحِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن گیا۔ ایسے خوش قسمت شاعر ہر لمحہ نعت کے ذوق سے مسرور رہتے ہیں، اُن کے افکار پر نعت یوں چھا جاتی ہے کہ اُن کے شعور کا ہر گوشہ نعت گزار ہوجاتا ہے، کس قدر خوش قسمت ہے وہ انسان جو ہر وقت حسنِ تمام کے حصار میں رہے، ایسے شاعر تقدیس کا نشان اور خرد افروزی کا حوالہ ہوتے ہیں، مقامِ مسرت ہے کہ ہمارا ممدوح شاعر جسے لوگ ریاض حسین چودھری کہتے ہیں مگر میں تو اُنہیں ’’نقشِ حسّان‘‘ کہنا پسند کرتا ہوں، ہر لمحہ حاضرِ دربار رہتا ہے۔ ہئیت کوئی بھی ہو، بحر کیسی بھی ہو، ردیف و قافیہ کسی قدر مختلف بھی ہو ہمارا شاعر ایک ہی خیال کا اسیر رہتا ہے کہ اُس کے کلمات، تراکیب اور نظمِ شعر کا ہر رُخ غلامی کی سند پائے۔ یہ خواہش صرف ذات کی حد تک نہیں ہے، ذات کے ہر حوالے کے بارے میں بھی ہے۔

؎ صد شکر میرا سارا قبیلہ غلام ہے
میری ہے اُن ﷺ کی سایۂ رحمت میں سلطنت

یہ سایۂ رحمت جو سحرِ نور بن کر شاعر کے موجِ خیال پر محیط ہے، ایک دو برس کی بات نہیں اور نہ ہی یہ شعورِ زندگی کے ساتھ پروان چڑھا ہے بلکہ یہ تو شاعر کے وجود کا جزوِ لازم ہے جو ان کے فکرو خیال کو حصار میں لیے ہوئے ہے۔

؎ تاریخِ کائنات کی روشن تریں سحر
کب سے محیط ہے مری موجِ خیال پر

یہ یقین اس قدر پختہ ہے کہ ہر شعوری کاوش جو اس حقیقت سے مستنیر نہیں ہے حرفِ غلط ہے۔ شاعر کا یہ شعور اس قدر وجد آفریں ہے کہ کسی اور دانش و عقل کا وہاں گزر نہیں اس لیے شاعر پوری شعوری قوتوں کے ساتھ اعلان کرتا ہے۔

ہر فلسفہ غلط ہے جہانِ شعور کا
ااک معتبر فقط ہے حوالہ حضور ﷺ کا

یہی وجہ ہے کہ ریاض حسین چودھری بہر رنگ اپنی غلامی پر نازاں ہے اور اُس نے اپنی زندگی کے ہر رُخ کو وصفِ رسالت کے گداز میں ڈھال لیا ہے، اُس کا یقین بھی یہی ہے، اُس کا ارادہ بھی یہی ہے اور اُس کی خواہش بھی یہی ہے کہ زندگی کا کوئی لمحہ مدحت سے خالی نہ ہو، ہاں یہ تمنا بھی قوی ہے کہ اُس کی مدحت سرائی قبولیت کا شرف پالے، تمنا اور یقین کا یہ حسین ربط ریاض چودھری کی نعت نگاری کا وہ حسین سنگم ہے جو ایک باوفا مدح نگار کی خواہش کی معراج ہے۔

؎ آقاؐ مرے قلم کی سلامی کریں قبول
لوحِ ادب پہ حرفِ غلامی کریں قبول

کبھی یہی یقین استغاثہ کا روپ دھارتا ہے تو شاعر خواہش گزار ہوتا ہے۔

؎ میرا سلام ہو کہ غریب الدیار ہوں
آقائے کائنات کا مدحت نگار ہوں

یہ مدحت نگاری صرف شعری مشغلہ نہیں بلکہ زندگی کا کامیاب ترین وسیلہ بھی ہے اس لیے شاعر دعوتِ شرکت دیتا ہے کہ

؎ آؤ اُسی رسولؐ کے قدموں کی خاک سے
تعمیر زندگی کا کریں قصرِ دلکشا

اسی لیے وہ اس کی تبلیغ بھی کرتا ہے اور دعوتِ خیر بھی دیتا ہے۔

کشتِ ادب میں پھول اُگایا کرو ریاضؔ
شب بھر چراغِ نعت جلایا کرو ریاضؔ

شاعر کا یہ ذوق اسی اعتماد کا مظہر ہے کہ نعت کا ہر شعر اِک چمنِ دلنواز ہے جس کی روش روش پر بہاروں کا رقص اور گل و نسترن کی مہکار ہے اس لیے اعتراف کیا گیا کہ

؎ اسمِ حضورؐ لب پہ سجایا ہی تھا ابھی
کشکولِ آرزو مرا پھولوں سے بھر گیا

یہ اندازِ مدح بڑا ادب شناس ہے کہ یہ اُسی ذات کا فیضان ہے۔

؎ میری لغت کے سر پہ عمامہ ادب کا ہے
یہ احترام آپؐ کے نام و نسب کا ہے

یہ مدحت آشنا روّیہ شاعر کے عقیدت مندانہ مزاج کا حصہ ہے، اسی سے اُس کی سرشاری ہے اور اسی سے اُس کی سانس کی آمد و رفت ہے۔

؎ جنؐ کے درِ نجات کو بوسہ دیئے بغیر
میرے لیے تو سانس بھی لینا محال ہے

یقین اس حد تک پختہ ہے کہ توانائی کی ہر لرزش اُسی جانِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سے ہے۔ کیا تاریخ اس مہکتی زندگی کی مثالیں لیے ہوئے نہیں؟ حنانہ کا ستون ایک بے جان تنا ہی تو تھا ! یہ زندگی کس کے لمس کا صدقہ تھی کہ ہجرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وہ بھی شعوری آہ و بکا کرنے لگ گیا۔ یہ تاریخی حقیقت شاعر کو تحریک دیتی ہے کہ وہ تمنا کرنے لگ جائے کہ

؎ میں کاش اُسی کھجور کا ہوتا تنا ریاضؔ
مسجد میں جس سے ٹیک لگاتے تھے مصطفیؐ

طلوعِ فجر ایک مسلسل نظم ہے جو پانچ سو بندوں پر مشتمل ہے۔ ہر بند میں بارہ مصرعے ہیں، اس طرح یہ طویل نظم چھ ہزار مصرعوں پر محیط ہے۔ ہر بند کا سرنامہ ایک خبریہ مصرع ہے کہ

افلاک پر ہے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسول (ﷺ)

اس خبر کی تعبیر اور اس کی اثر آفرینی کو خصائص و شمائل کے ساتھ ساتھ بالفعل واقع ہونے والی برکات اور رحمتوں سے مربوط کیا گیا ہے۔ یوں یہ طویل نظم ایک مستقیم انداز میں سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض بار حوالہ بن گئی ہے۔ ایک بحر میں اتنے فکر انگیز اور طربناک مصرعے نکالنا شاعر کے شعور کی پختگی اورمہارت کی شہادت ہے۔ یوں تو ہر بند ایک خیال کا پیکر ہے مگر خیالات کی بوقلمونی عقیدت کی یکسوئی کا عمدہ اظہار بھی ہے۔ اگر ساری نظم کو ایک عنوان دیا جائے تو ’طلوعِ فجر‘ کا منتخب عنوان بر محل لگتا ہے کہ ہر ہر مصرعے سے ایک نور پھوٹتا دکھائی دیتا ہے، نظم کیا ہے فشارِ نور کی ایک دلآویز حکایت ہے۔ انسانیت کی اصلاح و فلاح کے لیے ایک نور آسا راہنمائی ہے، شاعر نے بھٹکے ہوئے انسان کے لیے اُمید کی ایک فجر کا حوالہ دیا ہے کہ تاریکیوں سے چھٹکارا پانا ہے تو اس ’طلوعِ فجر‘ کی طرف توجہ دو کہ ہر ظلمت میں یہی نورکا حوالہ راہنما ہے۔ شاعر کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورانیت پر اس قدر اعتماد ہے کہ وہ ہر کہیں اسی نور کی نور سامانیاں دیکھتا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ :

افلاک پر ہے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسول ﷺ

؎ جنؐ کا وجودِ پاک ہے بنیادِ آگہی
جنؐ کا وجودِ پاک ہے ہر چیز کا جواز

جنؐ کے وجودِ پاک کا صدقہ ہے زندگی
جنؐ کے وجودِ پاک کی اُترن ہے روشنی

شاعر کو یقین ہے کہ خیال و عمل کی ہر روشنی اُسی وجودِ مبارک کا صدقہ ہے۔

؎ ساری بصیرتوں کا وہی نقطۂ کمال
ساری بصارتوں کا وہی حسنِ دلنشیں

ہر آگہی کا مرکز و محور حضورؐ ہیں
ہر معرفت کے علم کا مصدر حضورؐ ہیں

یہ اس لیے ہوا کہ

؎ اُمّی لقب رسولؐ سرِ بزمِ علم و فن
لائے تمدنوں کے لیے آخری نصاب

یہ اسی آخری نصاب کا صدقہ ہے کہ

؎ اُنؐ کے طفیل آدمی ہے خیر کا سفیر
اُنؐ کے طفیل زندہ ہے انسان کا ضمیر

اس لیے شاعر جب اپنے ارگرد تاریکیوں کے اُترتے قافلے دیکھتا ہے تو پکار اٹھتا ہے:

؎ آقاؐ غریبِ شہر کو خیرات دیجئے
تیرہ شبی میں نور کی برسات دیجئے

طلوعِ فجر تلاشِ نور میں سرگرداں انسان کی روداد بھی ہے، وہ انسان جو اپنی عظمت کی تلاش میں ہے، درماندہ ہے، مرکز سے بھٹکا ہوا ہے، کراہ رہا ہے اور دہائیاں دے رہا ہے۔ یہ التجا کا ہنگام ہے مگر اُس کی خوش بختی کہ محیط اندھیروں میں طلوعِ فجر کا یقین اُسے سہارا دے رہا ہے۔ کس قدر خروش آجاتا ہے اُن ارادوں میں جو اُبھرتی بپھرتی ہوئی تیز لہروں میں بھی ساحلِ مراد کے یقین سے فیض یاب ہوتے ہیں، لگن کی پختگی جدوجہد کو توانائی بخشتی ہے اور کامرانی کی لَو ٹوٹتے ہوئے عزائم کے لیے مہمیز بنتی ہے۔ ایسے میں انسان کو راستی کی نوید مل جائے تو قرار ملتا ہے، شاعر کا عزم ہر ہر مصرعے میں اسی نور کے طلوع کا پیغام بنتا ہے۔ وہ لاچار سہی مگر اُمید کی کرن اُسے بے کیف نہیں ہونے دیتی، ہاں یہ خیال اُسے کچھ عرصہ مضطرب رکھتا ہے کہ راہ یابی کے لیے کون سہارا بنے، وہ کس ادا سے طلبِ رحمت کرے اور کیونکر درِ نجات تک پہنچے۔ توفیق ربّانی اُس کی چارہ سازی کرتی ہے اور فاتحۃ الکتاب اُس کے لیے بند راستوں کو کشادہ کردیتی ہے۔ طلوعِ فجر میں شاعر نے استغاثہ کے لیے اسی اوّلین سورت سے مدد لی ہے۔ اس کے مطالعہ سے اُسے طلبِ دُعا کا سلیقہ بھی آیا ہے اور پیشِ دربار ہونے کا قرینہ بھی ملا ہے۔ اُس نے تمناؤں کو مؤخر کررکھا ہے اور عظمتِ دربار کو پیشکش کا عنوان بنایا ہے۔ مدح سرائی، خصائل شماری کے بعد سجدہ ریزی اور صفات کا تذکار، پھر سراپا عجز کے ساتھ طلبِ رحمت، آخر میں اُن معاند قوتوں سے لاتعلقی کا اعلان اور برسرِ پیکار دشمنوں سے پناہ کی درخواست۔

’’طلوعِ فجر‘‘ ان تمام مراحل سے بخیرو خوبی گزر جانے کی روداد ہے، مدحیہ انداز دیکھئے:

؎ خیرالبشر حضورؐ ہیں خیرالوریٰ حضورؐ
رہبر ہیں رہنما ہیں شہِ انبیاء حضورٔ

اور یہ بھی تاریخی حقیقت ہے جس کا شاعر اعتراف کررہا ہے :

؎ آدم کی نسل کا قدو قامت حضورؐ ہیں
اور امنِ دائمی کی ضمانت حضورؐ ہیں

پھر مدح سرائی کا ایک طویل سلسلہ وقفے وقفے سے عطر بار ہوتا ہے، چند شعر مقصودِ مدعا کے لیے کفایت کریں گے:

آمد ہے جن کی مکتبِ تہذیب کا عروج
آمد ہے جن کی لوح و قلم کی گلاب رُت

مبعوث جب حضورؐ ہوئے تو زمین پر
لپٹا ہوا تھا دھند میں اسلوبِ زندگی

دیں گے تمدنوں کو نئے دن کی روشنی
تاریخ ارتقاء کی کرے گی اُنہیںؐ سلام

ہر ہر اُفق پہ روزِ ازل سے ہے یہ رقم
ہر عہد ہے جنابِ رسالت مآبؐ کا

عہدِ حضورؐ سارے زمانوں کی آبرو
وہ عہدِ پاک روزِ ابد پر بھی ہے محیط

انسانیت کو زندہ مسائل کی دھوپ میں
آداب زندگی کے سکھائے حضورؐ نے

پھر درخشندہ حوالے :

میثاق ایک محفلِ میلاد ہی تو ہے
سرکارؐ کے ظہور کا مژدہ لیے ہوئے

غارِ حرا میں ہاتھ تھے اُٹھے حضورؐ کے
سامان ہوگیا تھا ہماری نجات کا

مدح سرائی کے بعد داستانِ غم، یہ داستان جو صرف شاعر ہی کی نہیں پوری امت کی ہے۔ داستان سرائی صرف حکایتِ واقعہ نہیں، طلبِ رحمت کا ابتدائیہ بھی ہے۔

صدیوں سے مبتلا ہے بدن کے عذاب میں
گروی رکھے ہوئے ہے اثاثے شعور کے

امت کھڑی ہے مقتلِ شب میں برہنہ سر
تاریخ کے کٹہرے میں سر ہے جھُکا ہوا

نیلام گھر میں لائے ہیں اجداد کے کفن
بکھرے ہوئے ہیں قریۂِ ناشاد میں بدن

طعنے برس رہے ہیں ابھی آسمان سے
پتھر نکل رہے ہیں رعونت کی کان سے

کب سے غبارِ مرگِ مسلسل فضا میں ہے
کب سے کھڑی ہے شامِ غریباں فرات پر

انسان آج قریۂ جبرِ انا میں ہے
زندہ تو ہے ضرور، پہ دستِ قضا میں ہے

شاعر اُمت کی حالتِ زار کے تذکرے سے بے خود ہوکر درِ رحمت پر دہائی دینے لگتا ہے اور یہ دہائی بھی انفرادی نہیں اجتماعی ہے، شاعر ناقوسِ اُمت بن کر ملتجی ہے۔

آقاؐ حضور، وقت کی ہم کربلا میں ہیں
اُمت ہوئی ہے جرمِ ضعیفی میں مبتلا

اُمت حضورؐ، قعرِ مذلّت کا رزق ہے
اُمت نے بانٹ رکھا ہے خانوں میں اپنا جسم

روحِ زماں، قفس کے اندھیروں میں کھو گئی
اُمّت، حضورؐ آپ کی مقتل میں سوگئی

آنسو بنے ہیں اُمتِ مرحوم کا نصیب
غیروں کی ٹھوکروں میں ہے دستار یانبیؐ

تلوار خوف کی مرے سر پر ہے آج بھی
تحویل میں کسی کے مرا رزق ہے حضورؐ

آقا حضورؐ آج بھی میری زمین پر
غیروں کی دسترس میں ثقافت کا نور ہے

سر پر حضورؐ جبر کے کانٹوں کی شال ہے
امن و امان میری صدی کا سوال ہے

شاعر آخر کار پناہ کا سوال کرتا ہے۔

سورج اُفق اُفق پہ ہے شر کی سپاہ کا
سایہ کرو تلاش رسالت پناہؐ کا

شاعر کا اپنا حال یہ ہے کہ وہ اعتراف کرتا ہے۔

آقاؐ حضور، آج بھی شاعر یہ آپؐ کا
اربابِ زر کی محفلِ شب میں ہے اشکبار

اور حاصلِ التجا ایک خواہش :

میری زمیں پہ نور کی چادر بچھی رہے
میری زمیں پہ عدل کا نافذ نظام ہو

میری زمیں پہ دختر حوّا بھی سانس لے
میری زمیں پہ جل اُٹھے قندیلِ عافیت

’’طلوعِ فجر‘‘ کا شاعر حاضریٔ دربار کا متمنی بھی ہے اور مستقل قیام کا خواہش مند بھی، اس لیے کہ مدینہ منورہ وہ شہرِ دلنواز ہے جہاں دھڑکنیں سکون پاتی ہیں اور درد مند دل آسودہ ہوتے ہیں۔

ہر شاعرِ نعت، شہرِ دلربا کے فضائل شمار کرتا ہے اور اپنی آشفتگی کا اُسی کے جوار میں حل تلاش کرتا ہے، طلوعِ فجر کا شاعر بھی اس لازمی حوالے سے بے خبر نہیں، اُسے بھی اسی امن کدے کی جستجو ہے، اسی لیے وہ لہجہ بدل بدل کر مدینہ منورہ کی حاضری کی دعائیں مانگتا ہے۔

شہرِ حضورؐ، شہروں کا سرتاج ہے ریاضؔ
اس کی فضیلتوں کو ملیں ان گنت جہات

جس کی زمین پھول اگلتی ہے اس لیے
چومے تھے اس نے سیّدِ ساداتؐ کے قدم

جنت جوارِ گنبد خضرا میں پاؤ گے
آنکھوں میں حیرتوں کے سمندر چھپاؤ گے

طیبہ کے راستوں میں مہک ہے حضورؐ کی
رستے بھی نور کے ہیں تو گلیاں بھی نور کی

اس شہرِ بے مثال کی بلائیں لینا بھی شاعر کے نیک ارادوں کا حصہ ہے :

بختِ رسا کی اپنے بلائیں لیا کریں
شہرِ نبیؐ کی ٹھنڈی ہوائیں لیا کریں

کیونکہ یہ شہر نور و رحمت کی صداؤں کا مرکز ہے، اس لیے سلام کا مستحق ہے:

سانسیں درود پڑھتی ہیں جس شہرِ نور میں
اُس شہرِ بے مثال پہ لاکھوں سلام ہوں

شاعرکی یہ تمنائیں اسی نقطۂ انتہا پر پہنچ کر سکون پاتی ہیں کہ اُس کا مسکن شہرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن جائے جو ہر صاحبِ ایمان کے دل کی دھڑکن ہے۔

موجِ خیال وادیٔ بطحا میں چاہیے
چھوٹا سا ایک گھر، مجھے طیبہ میں چاہیے

اس گھر کا سوال تمنا بن کر دربار میں پیش ہوا کہ:

طیبہ نگر میں سایۂ دیوار چاہیے
چھوٹا سا ایک گھر مجھے سرکارؐ چاہیے

کیونکہ یہ قریۂ رحمت، سراپا تقدس ہے:

ارض و سما کے سر پہ کرم کا سحاب ہے
یہ شہرِ دلنواز تقدس مآب ہے

الغرض ’طلوعِ فجر‘ ایک درد مند دل کی پکار ہے۔ وہ دل جو محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آباد ہے، خوش قسمت ہے وہ شاعر جس کی سوچ کا مرکز مدحتِ رسالت ہو، جس کے قلبی میلان کا محور اطاعت کیشی کا جذبہ ہو، جس کی زندگی کا لمحہ لمحہ نعت گزار ہو اور جس کا ہر روّیہ عقیدت مندانہ ہو۔ ریاض حسین چودھری ایک کہنہ مشق شاعر ہیں، متعدد مجموعے اُن کی نعت شناسی کا ثبوت ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاض حسین چودھری کے شب و روز کا جائزہ اُن کی یک رنگی کی شہادت ہے۔ یہ طویل نظم جو نعتیہ ادب میں نمایاں مقام لے گی، شاعرِ حق نما کے فطری میلان کا نتیجہ ہے۔ مختصر یہ کہ طلوعِ فجر کو پڑھنے کے بعد شاعرِ نعت پر یہ شعر صادق آتا ہے:

؎ حاصلِ عمر نثارِ رہِ یارے کردم
شادم از زندگیِٔ خویش کہ کارے کردم

اللہم صل وسلم دائماً ابداً، علیٰ حبیبک خیرالخلق کلہم

پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی
فیصل آباد