تشخص- رزق ثنا (1999)

میری اوقات کا پوچھتا ہے تو سُن!
ایک جاروب کش اُنؐ کی گلیوں کا ہوں
ایک نوکر ہوں آلِ محمدؐ کا مَیں
مَیں غلامِ غلامانِ دربار ہوں،

میری اوقات کا پوچھتا ہے تو سُن!
ایک فقیرِ رہِ عشق و مستی ہوں مَیں
ایک دیوانہ شہرِ پیمبرؐ کا ہوں
اپنے ہاتھوں میں کشکول تھامے ہوئے
مَیں صدا دے رہا ہوں کرم یا نبیؐ
میرے پیروں میں زنجیر کی جھانجھریں
یہ گلے میں غلامی کا پٹکا بھی ہے
ہے مگر بد نصیبی کی یہ انتہا
اُن کی گلیوں کے کتّوں میں شامل رہوں
مَیں کمینہ تو اس کے بھی لائق نہیں
مَیں تو بے دام بردہ ہوں سرکارؐ کا
اپنے آقاؐ کی مرضی کا پابند ہوں

کون ہوں مَیں جو دعویٰ کروں عشق کا
کون ہوں مَیں جو بڑھ چڑھ کے باتیں کروں
یہ کرم ہے مگر میرے سرکارؐ کا
مجھ خطاکار کو، مجھ گنہ گار کو
مجھ سے ناکارہ مجہول انسان کو
اپنی مدحت نگاری کا منصب دیا
مجھ کو ملکِ سخن کا شہنشہ کیا
میری نسلوں کو ایسا نگینہ ملا
جس نگینے میں عکسِ مدینہ ملا
آ دکھائوں تجھے اپنے گھر کی جھلک
ذکرِ اطہر سے معمور ہیں بام و در
اُنؐ کے اسمِ مبارک کی ہے روشنی
ہر طرف کیف و مستی کی بوچھاڑ ہے
بچّیاں گیت گاتی ہیں سرکارؐ کے
اِن کی آنکھیں عقیدت سے لبریز ہیں
ننھے منے سے بچوں کے ہونٹوں پہ بھی
ورد کرتی ہے خوشبوئے اسمِ نبیؐ
یہ کنیزیں درودوں کے گجرے لیے
سر جھکائے کھڑی ہیں سرِ شام ہی
میرے بچّے غلامی کی زنجیر میں
کتنے مسرور ہیں کتنے آزاد ہیں
اب بتا اس سے بڑھ کر ہے اعزاز کیا
اس سے بڑھ کر سند بھی کوئی اور ہے

میری اوقات کا پوچھتا ہے تو سُن!
اک سیہ کار ہوں اُمتی آپؐ کا
ذرۂ خاک بھی خود نہیں مَیں مگر
میرے آقاؐ تو سردارِ کونین ہیں
میرے والیؐ تو سلطانِ دارین ہیں

یہ خیال اپنے دل میں نہ لانا کبھی
شہرِ طیبہ سے میں دور تھا دور ہوں

دیکھ میری اِن آنکھوں میں تو غور سے
سبز گنبد کا ہے عکس ہر گوشے میں
ہر طرف زرفشاں ہے غبارِ حرم
یہ غبارِ حرم دل میں لہرائے گا
میرے آقاؐ کا پیغام بھی آئے گا
میرے شانے ہلا کر کہے گی صبا
اپنے اپنے گھروں کو سبھی جا چکے
آشیاں میں پرندے بھی خاموش ہیں
شب کی چادر میں ہر چیز بھی چھپ گئی
اب چلو تم بھی اپنا ٹھکانہ کرو

اب چلو تم بھی اپنے مدینے چلو
آنسوئوں کی چمکتی سی مالائیں یہ
اُنؐ کے قدموں پہ کرنا نچھاور ریاضؔ
اُنؐ کی چوکھٹ پہ سر رکھ کے سو جائیو
وادیٔ نور و نکہت میں کھو جائیو
یہ صبا رقص کرتی ہوئی یہ صبا

مجھ کو طیبہ کی گلیوں میں لے جائے گی
مجھ کو دولت حضوری کی دے جائے گی